مفتی نعیم،عظمیٰ بخاری اورخواتین کےحقوق

یہ بات تو طے ہے کہ ہم کسی مسئلے کو حل کرنے کی بجائے اسے مزید بگاڑنے کے ماہر ہیں۔ کل ایک ویڈیو کلپ نظر سے گزرا، جس میں مفتی صاحب عظمی بخاری کو اور عظمی جی مفتی صاحب کو جاہل کہہ رہی تھیں۔ خیر یہ تو کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ انسان کی اصل جہالت ہی ہے۔ کائنات کے علم کے مقابلے میں ہم سب ہی جاہل ہیں لیکن کہنے کا انداز بس ذرا دونوں کا ٹھیک نہیں تھا۔۔ خیر یہ ایک دو شخصی معاملہ ہے، جبکہ اصل، بڑا اور معاشرتی معاملہ خواتین کے حقوق کا ہے۔

یقین کیجیے میاں بیوی کا مسئلہ اس قدر پیچیدہ ہے کہ مغرب بھی اس کے سامنے بے بس نظر آتا اور ہمارے علمائے اکرام بھی۔ ہمارے خیالی اخلاقی دعوے تو بہت ہیں لیکن پاکستان کی معاشرتی حقیقت اس کے برعکس ہو چکی ہے۔ اب میں ایسے واقعات نہیں گنوانا چاہتا، جہاں سگے رشتوں داروں ہی نے لڑکی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا خیر یہ ہمارا موضوع نہیں ہے۔
میں کسی اور چیز کی بات کروں اس سے پہلے میں آپ کو جرمنی کا ایک واقعہ سناتا ہوں۔۔۔

ہم ایک دن ترکیوں کی مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ جرمن پولیس کے دو اہلکار، جن میں ایک خاتون تھی اور ایک مرد، مسجد آ گئے۔ ان کا آتے ہی سوال تھا کی امام مسجد کہاں ہیں، ہمیں ان کی ضرورت ہے۔ ہم نے پوچھا کیوں ؟ ان کا جواب تھا کہ ایک مسلمان جوڑے کی لڑائی ہو گئی ہے۔ ہمیں صلح صفائی کے لیے امام مسجد کی ضرورت ہے۔ جب تک امام مسجد کو بلایا گیا، میں ان سے سوال پوچھتا رہا کہ تم خود کیوں یہ مسئلہ حل نہیں کر لیتے۔۔۔ وہ کہنے لگے کہ ہمارے نزدیک اس کا ایک ہی حل ہے کہ دونوں کو الگ الگ کر دیا جائے لیکن یہ کوئی حل نہیں ہے۔ اس طرح مسائل میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ اس کا بچوں پر علیحدہ اثر پڑتا ہے، بچے ملک کا مستقبل ہیں، وہ ابھی سے نفسیاتی طور پر تباہ ہو جائیں گے، شادیاں پہلے ہی کم لوگ کرتے ہیں، بچوں کی پیدائش کی شرح بھی کم ہے، پولیس کو اضافی کام کرنا پڑتا ہے، عدالتیں زیادہ مصروف ہو جاتی ہیں، حکومتی معاشی نظام پر زیادہ بوجھ پڑ جاتا ہے۔ تو ایک جوڑے کا علیحدہ تو فوری طور پر کیا جا سکتا ہے لیکن یہ آخری حل ہے اور ہم اس کی طرف اس وقت جاتے ہیں، جب کوئی حل نہیں بچتا۔۔۔

مجھے اس دن یہ جان کر حیرت ہوئی کہ گھریلو جھگڑوں میں پولیس کی حتی الامکان کوشش ہوتی ہے کہ مذہب کو درمیان میں لا کر ان کی شادی بچائی جائے۔ چاہے جوڑا مسلمان ہو، مسیحی ہو یا بدھ مت، پولیس والے ایسے معاملات میں مذہبی کمیونٹی سے ٹچ رہتے ہیں اور اس حوالے سے ان کی تحقیق بھی ہے۔

یقین کیجیے قانون خواتین کو تحفظ تو ضرور فراہم کرتے ہیں لیکن ان کی بنیاد پر شادیاں نہیں چل سکتیں، شادیاں چلانے کے لیے آپ کو کمپرومائز کرنا پڑتے ہیں، محبت کا لین دین کرنا پڑتا ہے۔۔۔۔

اب میرے ذہین میں چند سوال ہیں، مفتی صاحب کے لیے بھی اور عظمیٰ بخاری صاحبہ کے لیے بھی ۔۔۔۔

مذہبی حلقے ہر چیز کو مغرب کی سازش کہہ دیتے ہیں لیکن پاکستان ایسے ملک میں، جہاں نمک کم ڈالنے پر خاتون کو ڈنڈے مار مار کر ہلکان کر دیا جاتا ہے، وہاں اس خاتون بیچاری کو بھی تو انصاف ملنا چاہیے کہ نہیں ؟ اسلامی اخلاق یا پھر اسلامی قوانین کی تو اس وقت آپ بات کریں، اگر شوہر بندے کا پُتر بن کر انسانوں جیسا سلوک کرے تو۔ آپ خود بتائیں کہ ایسی صورت میں قانونی دباؤ کے علاوہ کونسا دوسرا حل رہ جاتا ہے ؟ اب ایک نشئی روزانہ اپنی بیوی کو مارنا شروع کر دیتا ہے، اس کو بھی تو کوئی پوچھنے والا ہونا چاہیے یا نہیں ؟۔ اب ساس کے کہنے پر لوگ بیوی کو تھپڑ مارنا شروع کردیتے ہیں۔ آئے روز کسی پر تیل پھینک دیا جاتا ہے، جس کا جی چاہے عورت کو گالیاں دینا شروع کر دیتا ہے۔ ان لوگوں کو بھی تو جواب دینا چاہیے یا نہیں ؟ آپ خود بتائی آپ کی اپنی بیٹی کو اس کا خاوند صرف نمک کم ڈالنے پر مارنا شروع کر دے تو آپ کا ردعمل کیا ہوگا؟

ہمارے ہاں تعلیم کی کمی ہے۔ گاؤں دیہات میں لوگ خواتین کو پاؤں کی جوتی کہتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں۔ آپ خود بتائیں کہ اس کا کیا حل ہے؟

میرا مذہبی حلقے سے سوال ہے کہ ٹھیک ہے پنجاب حکومت یہ قانون نہیں بناتی لیکن اس کا آپ کوئی حل پیش کر دیں؟ میری نظر میں تو اسلام خود خواتین کے ساتھ بہترین سلوک کا کہتا ہے۔ اگر کوئی ایسا نہیں کرتا تو وہ خود اسلام کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ آپ کو عورت کی بجائے اسیے مرد کو کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہیے لیکن مردانہ معاشرتی اجارہ داری کی وجہ سے ہم ایسا نہیں کر پائے۔

میری اپنی رائے ہے کہ خواتین کے حقوق کے لیے قانون ہونے چاہیں اور پاکستان میں تو لازمی ہونے چاہییں، جہاں اکثریتی عوام کے پاس نہ صحیح دنیاوی علم ہے اور نہ ہی دینوی۔ ایسے لوگوں کو اخلاقیات نہیں صرف ڈنڈے کی زبان سمجھ آتی ہے۔ لیکن براہ مہربانی قانون ایسا بنائیں، جس پر عملدرآمد بھی ہو سکے۔ قانون ایسا بنائیں، جس سے آسانیاں پیدا ہوں نہ کہ مسائل مزید بڑھ جائیں۔
پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہاں کوئی تجربہ کیے بغیر، معاشرتی نفسیات دانوں کی خدمات لیے بغیر منہ اٹھا کے قانون تو بنا دیے جاتے ہیں لیکن یہ کسی کو پتہ نہیں ہوتا کہ اس کے نتائج منفی نکلیں گے یا مثبت، ان پر عملدرآمد بھی ممکن ہے کہ نہیں۔ معاشرے کے مسائل بڑھیں گے یا کم ہوں گے۔

میری اپنی ذاتی رائے ہے کہ اگر آپ پاکستان خواتین کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو قابل عمل قوانین بھی بنانے پڑیں گے۔ مذہبی طبقے کی خدمات بھی حاصل کرنی پڑیں گی اور مقامی پنچائتوں کی بھی لیکن صرف قوانین بنانے سے کچھ نہیں ہونے والا۔۔ خواتین کے حقوق کے لیے آگاہی مہم چلایے۔ جہاں ممکن ہو اسلام اور علمائے اکرام کا سہارا لیجے، جیسے خواتین کے ختنوں کے خلاف افریقہ میں کیا جا رہا ہے اور جہاں ممکن ہوں رشتہ داروں کا دباؤ بھی استعمال کیجے اور پھر قوانین بھی بنائیں۔

پاکستان میں صرف قوانین کی نہیں ایک جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ آپ مرد کو دو دن گھر سے نکالنے کی بجائے، مرد پر معاشرتی اور اخلاقی دباؤ بڑھائیں۔ میرا عظمیٰ بخاری صاحبہ سے سوال ہے کہ آپ خود بتائیں، جو بیوی خود کسی کے گھر آ کر زندگی بسر کر رہی ہے، وہ خاوند کو،جو اس گھر کا مالک ہے، کو دو دن باہر نکال سکے گی؟ اگر ایسا ہوتا بھی ہے، تو واپسی پر خاوند اسے بیوی بنا کر رکھے گا۔ اگر نتیجہ طلاق کی صورت ہی نکلنا ہے تو ہمارے معاشرے میں کتنے لوگ ہیں جو طلاق یافتہ لڑکی سے شادی پر تیار ہوتے ہیں؟ آپ معاملے کو سلجھانے کی بجائے مزید الجھانے کی طرف لے کر جا رہی ہیں۔

اور آخری بات معاشرے میں تبدلیاں علم سے اور انصاف مہیا کرنے سے آتی ہیں۔۔۔۔۔۔ صرف قوانین بنانے سے نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو پاکستان میں کس قانون کی کمی ہے۔ پچھلے دنوں میں کسی خاتون کا بیان سن رہا تھا کہ لڑکے لڑکیوں کے ویلینٹائن ڈے منانے میں حرج کیا ہے، انہیں منانا چاہیے، پھولوں کا تبادلہ ہونا چاہیے۔ بابا آپ منائیں کوئی حرج نہیں، میں جرمنی میں ہوں، میں نے کئی مرتبہ منایا بھی ہے، مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن آپ یہ بات اس معاشرے میں کر رہی ہیں،جہاں ابھی تک لوگ شادی سے پہلے یہ شرط رکھتے ہیں کہ لڑکی باقرہ ہونی چاہیے۔ میری یا آپ کی تو خیر ہے۔ آپ یا میں چاہیں دس جگہ عشق وشق لڑائیں کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن اگر کسی محلے میں کوئی ایسی لڑکی مشہور ہو جاتی ہے تو اس کو رشتہ ملنا مشکل ہو جاتا ہے۔ مجھے بتائیں اس کا رشتہ آپ کروائیں گی یا میں ؟ تو بات یہ ہے کہ قوانین اور ویلینٹائن ڈے وغیرہ معاشرے کو دیکھ کر ہی بنائے یا منائے جاتے ہیں ورنہ ان سے صرف تباہی ہی نکلتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے