اوشو ۔۔۔۔۔۔۔ ( گرو رجنیش ) کی کہانی

گرو رجنیش 11 دسمبر 1931 میں مدھیہ پردیش کے ضلع ھوشنگ آباد کچ ودا میں پیدا ھوئے ۔ ان کے والد کپڑے کی تجارت کرتے تھے ۔ رجنیش کا اصل نام چندر موھن جین تھا ۔ ان کے بارے میں مشہور ھے کہ وہ بچپن سے ہی بحث مباحثے کیا کرتے تھے ۔ اس کو اکثر اساتذہ سے شکائتیں رھتی تھیں ۔ بچپن میں ان کے نانا شدید بیمار ہوئے تو رجنیش ان کو بیل گاڑی میں لئے شہر کے کسی ڈاکٹر کی طرف روانہ ہوئے ، راستے میں نانا فوت ہو گئے اس حادثے نے رجنیش کی زندگی پر گہرا اثر ڈالا وہ اکثر کتھاؤں میں اس کا ذکر کیا کرتے تھے ۔

1953 میں رجنیش نے جبل پورکے ڈی این جین کے کالج سے ایم اے فلسفہ کا امتحان فرسٹ کلاس میں پاس کیا ۔

1958 میں اسے یونیورسٹی آف جبل پور میں فلسفے کا پروفیسر مقرر کردیا گیا ۔ انہوں نے ہندوستان کے مختلف شہروں میں لیکچر دینے شروع کردئیے ۔ وہ زبردست فصاحت وبلاغت کے مالک تھے ان کی آواز لوگوں پر سحر طاری کردیتی تھی وہ صدیوں پرانے مذہبی عقیدوں کو اپنے فلسفی دلائل سے تہس نہس کردیتے تھے ۔ ھزاروں لوگ جن میں اکثریت تعلیم یافتہ لوگوں کی تھی انکے ھم خیال بن گئے ۔

1974 میں انہوں نے اپنا پہلا کمیون سنٹر پونا میں کھولا ۔ دیس پردیس کے لوگ وہاں آناشروع ھوگئے اور رجنیش کے پیروکار بننا شروع ھوگئے ۔ وہ صوفیانہ رنگ کے کپڑے اور گلے میں رجنیش کی تصویریں لٹکائے پھرتے ۔

جب اخباروں اور میگزینوں میں رجنیش کے چیلوں کی ننگے رقص کرتے ھوئے تصویریں چھپی تو وہ ہندوستان میں سیکس گرو (sex guru) کے نام سے مشہور ھوئے ۔ ان کے چیلے انکو بھگوان (خدا) ماننے لگے ۔

1981 میں اوریگوں امریکہ میں ھزاروں ایکڑ رقبہ پر ایک کمیون رجنیش پورم کے نام سے قائم کیا گیا ۔ امریکی مشہور اور امیر شخصیات پورم میں شامل ھونے لگیں ۔ ایک وقت ایسا آیا جب رجنیش کے پاس کئی مرسڈیز گاڑیوں کے علاوہ 100 سے زیادہ رولز رائس کاریں بھی تھیں ۔

1985 میں امریکی حکومت نے رجنیش پر دھوکہ دہی ، فراڈ اور چالبازی کے 35 مقدمات درج کئے اور سترہ روز اپنی تحویل میں رکھ کر پھر ملک بدر کردیا ۔

رجنیش واپس انڈیا آگئے اور کسی نئے مرکز کی تلاش میں دنیا کے سفر پر روانہ ھوگئے ۔

دنیا کے 21 ملکوں نے اسے ویزا دینے سے انکار کردیا ، ان کا جہاز کئی ملکوں کے ائرپورٹ پر گھنٹوں کھڑے کھڑے واپس آگیا ۔

1987 میں ایک بار پھر پونا میں کمیون سنٹر کھولا گیا جسے اب اوشو کمیون انٹرنیشنل کہا جانے لگا دراصل اب رجنیش نے اپنے نام سے بھگوان لفظ ختم کرکے جاپانی زبان کاخطاب لفظ اوشو لگادیا تھا ۔

اوشو میں ,, او ,, کے معنی ھیں پیار محبت احترام ,, شو ,, کا مطلب شعور کا پھیلاؤ ۔

آخر میں وہ رجنیش کے نام کو بھی ترک کرکے صرف اوشو کہلوانے لگے ۔

1988 میں اوشو سخت بیمار پڑ گئے ان کے اپنے خیال کے مطابق امریکہ میں حراست کے دوران انہیں زھر دیا گیا تھا ان کے پیرو بھی اس بات پر یقین رکھتے تھے ۔ وہ ذیابیطس اور دمے کے مریض بن گئے ۔ بہترین علاج کے باوجود ان کا جسم کمزور اور ماند پڑنے لگا ۔

اپریل 1989 کو انہوں نے اپنی زندگی کا آخری لیکچر دیا ۔ اپنے خاص اور قریبی چیلوں کو بلاکر کچھ ھدایتیں دیں ۔

19 جنوری 1990 شام پانچ بجے اوشو نے مرنے سے پہلےآخری جملہ یہ کہا :

” I leave you my dream ”

اوشو نے اپنے پیروکاروں پر سوگ اور رونے کی پابندی عائد کی تھی ، وہ ناچتے گاتے رقص کرتے ھوئے اوشو کی لاش لے کر تلسی رام گھاٹ پہنچے جہاں ان کا اگنی سنسکار ان کے چھوٹے بھائی سوامی وجے بھارتی نے کیا ۔

اگلے روز انکی راکھ کمیون سنٹر لائی گئی اور اسکے آگے 9 ماہ پہلے اوشو کے اپنے ھاتھ کی لکھی تختی لگائی گئی اس تختی پہ تحریر تھا کہ :
  

                                    ” اوشو ۔۔۔۔۔۔۔۔ جونہ کبھی پیدا ھوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ کبھی مرا "

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے