مفتی نعیم اور شرمین عبید چنائے

مفتی نعیم نے جو الفاظ شرمین عبید چنائے کے بارے میں استعمال کیئے غالبا کوئی بھی شریف آدمی ان کو دہرانے کا سوچ بھی نہیں سکتا. ایک ٹی وی چینل پر بیٹھ کر مفتی نعیم صاحب کا شرمین عبید چنائے کے بارے میں گرے ہوئے الفاظ کا استعمال اس حقیقت کو اچھی طرح عیاں کرتا ہے کہ مذہب کو کاروبار اور صنعت کا درجہ دے کر معصوم عوام سے کڑوڑوں روپے بٹورنے والے زیادہ تر نام نہاد مفتی اور دین کے ٹھیکیداروں کا اصل چہرہ کیا ہے.

شرمین عبید چنائے ایک تخلیقی صلاحیتوں کی مالک بین الاقوامی شہرت یافتہ خاتون ہیں جو کہ خواتین کے مسائل پر مبنی ڈاکیومینٹری کے باعث پوری دنیا میں جانی جاتی ہیں اور ان کے کام کی دنیا بھر معترف ہے. دوسری جانب مفتی نعیم صاحب جیسے لوگ ہیں جو مذہبی چورن بیچ کر اپنی زندگی میں ہر ممکن طریقے سے پیسہ کماتے ہیں اور پھر پارسائی کے دعوے کرنے بیٹھ جاتے ہیں.

تخلیقی یا تعمیری صلاحیتوں یا کاموں کا ان حضرات سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں.اگر ان سے پوچھا جائے کہ آپ کی خدمات کیا ہیں تو فورا چھاتی پھلا کر دین کی خدمت کے لمبے چوڑے قصے سنا دیتے ہیں.یا مدارس کے قائم ہونے سے لیکر ان میں پڑھنے اور رہنے والے بچوں کو تعلیم مہیا کرنا اور انہیں تین وقت کی روٹی کھلانے کے کارنامے گنواتے رہتے ہیں.وہ مدارس جن کی زمین سرکار سے یا تو خیرات کی صورت میں لی جاتی ہے یا پھر قبضہ کر کے. جن کا سارا مالی نظام عوام کے دیے ہوئے چندے یا صدقات پر چلتا ہے ہا پھر بیرونی مالک سے آئے ہوئے فنڈز پر. لیکن پھر بھی ایسے حضرات کمال ڈھٹائی سے عوام کو یہ جتاتے رہتے ہیں کہ یہی لوگ دین کے ٹھیکیدار ہیں اور یہ ان کا احسان عظیم ہے کہ یہ صدقات اور خیرات میں سے مال بٹور کر بھی بڑی گاڑیوں میں بھی گھومتے ہیں.

ہر تخلیقی یا تعمیری سوچ رکھنے والے انسان کو اپنے فرسودہ کاروبار کیلئے خطرہ سمجھتے ہوئے انہیں توہین مذہب یا دیگر القابات اور جرائم کی زد میں لا کر کھڑا کر دیتے ہیں. مفتی نعیم نے جو لفظ شرمین کے لیئے استعمال کیا اس سے ان کی اخلاقی گراوٹ اور مردہ سوچ کا ثبوت سامنے آتا ہے. جس بات کو لے کر وہ شرمین عبید چنائے پر برہم نظر آئے وہ پاکستان میں خواتین پر ڈھائے جانے والے مظالم کی جانب دنیا بھر میں توجہ دلانا تھا .اور اپنی بات میں وزن لانے کیلئے انتہائی عجیب قسم کی مثال دیتے ہوئے پڑوسی ملک بھارت کی ایک مثال کا حوالہ دے ڈالا .جہاں ایک خاتون کے ساتھ اجتماعی زیادتی پر مبنی فلم کو جب نمائش کیلئے پیش کیا گیا تو مشتعل ہجوم نے ایک سینما جلا ڈالا تھا.

مفتی صاحب یقینا بھارتی فلموں کے گرویدہ لگتے ہیں جبھی وہاں کی مثال بھی دی. اور یہ اچھی بات ہے کہ وہ فلمیں دیکھتے ہیں. اگر تھوڑا سا وقت وہ ریسرچ پر صرف کریں تو انہیں اندازہ ہو جائے گا کہ صرف ممبئی اور دہلی جیسے شہروں میں ہی سینکڑوں سینما موجود ہیں اس لییے ایک سینما میں شدت پسندوں کا دہاوا بولنا کہیں بھی اسے پڑوسی ملک کی عوام کی رائے سے مشروط نہیں کرتا.اور ویسے بھی مزہبی چورن بیچنے اور خریدنے والے ہندوستان میں بھی بہت مل جاتے ہیں. مفتی صاحب نے کیونکہ زندگی میں کبھی کوئی تخلیقی کام تو کیا نہیں اس لیئے انہیں شاید شرمین عبید چنائے کے کام کی سمجھ بوجھ بالکل نہ ہو. لیکن مفتی صاحب کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ کارپٹ کے نیچے گند جمع کرنے کا زمانہ گزر چکا. اب معاشرے میں موجود ظلم و زیادتی کو بے نقاب کرنے کیلئے ہزارہا طریقے پلیٹ فارم اور شرمین عبید چنائے سے متاثر بے بہا لوگ ہیں.

پاکستان کا نام شرمین نہیں بلکہ مفتی صاحب جیسے لوگ اور ان کی سوچ بدنام کرتی ہے. جو ہر ظلم زیادتی کو جھوٹے اور اپنے مفادات کی حفاظت کرنے والے خود ساختہ مذہبی لبادے میں چھپانے کی کوشش کرتے ہیں. جو زندگی کی تمام رونقوں سے خود تو تخلیے میں لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن نیم خواندہ اور ان پڑھ یا کمزور عقیدے والوں کو اپنے ہاتھوں یرغمالی بناتے ہوئے زندگی کی حلاوتوں سے دور رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں.

شرمین عبید چنائے اور مفتی نعیم دو شخصیات نہیں بلکہ دو مختلف نظریات ہیں جو ایک دوسرے سے ازل سے متصادم ہیں اور شاید ابد تک متصادم رہیں گے. ایک نظریہ قتل و غارت گری دنگے فساد زور زبردستی اور بندوق کی طاقت کو مانتا ہے جبکہ دوسرا نظریہ دلیل برداشت عدم تشدد اور تخلیق کو مانتا ہے. یہ تخلیق اور عدم تشدد والا نظریہ وہی ہے جو سقراط کا بھی تھا جو منصور حلاج کا بھی تھا اور جو گیلیلیو نے بھی اپنایا دوسرا نظریہ وہی نظریہ ہے جو طالبان کا ہے جو القائدہ کا ہے جو داعش کا ہے. فیصلہ آپ سب خود کر سکتے ہیں کہ آپ کس نظریے کے ساتھ ہیں.

اس واقعے نے ایک بار پھر ملک میں زرد صحافت کے چہرے کو بھی عریاں کر دیا. صرف ریٹنگز بڑھانے کیلئے ٹی وی چینلز پر بیٹھے اینکرز نے مفتی صاحب کو آن ائیر لے کر شرمین عبید چنائے کے بارے میں نازیبا کلمات ادا کروائے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ طالبان مائنڈ سیٹ اور اس نظریے کو ماننے والے سوٹ بوٹ اور پینٹ کوٹ پہنے کلین شیو افراد بھی ہو سکتے ہیں. اسی بہانے شاید مفتی صاحب نے اپنی مارکیٹنگ بھی خوب طرح سے چمکا لی اور اب غالبا زیادہ بڑی تعداد میں صدقات اور خیرات جمع کر کے وہ اپنی دکان خوب چمکا لیں گے. ویسے مفتی صاحب کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ "فاحشہ” اپنا دھندا بڑی ایمانداری سے کرتی ہے وہ کبھی بھی گاہکوں کو خدا کے نام پر ورغلا کر یا ڈرا کر انہیں لوٹتی نہیں اور نہ ہی خدا کے نام پر سادہ لوح عوام سے پیسے بٹورتی ہے.

نہ ہی کبھی کسی دھندہ کرنے والی خاتون کا نام عوام نے "مداربہ” سکینڈل میں سنا ہے. کم سے کم ایک فاحشہ اپنے کام اور پیشے سے مخلص تو ہوتی ہے. ویسے کسی کا نام استعمال کر کے روپیہ پیسہ بٹورنے والے شخص کیلئے بھی اسی دھندے میں ایک لفظ کا استعمال کیا جاتا ہے جس کا زکر کرنا معیوب لگتا ہے. ایک اور گزارش جو مفتی نعیم اور ان جیسے مائنڈ سیٹ کے لوگوں سے کرنی ہے وہ یہ ہے کہ کم سے کم جس پیشے سے آپ سب وابستہ ہیں اسی سے مخلص ہو جائیے کبھی شدت پسندوں دہشت گردوں اور خواتین پر ظلم کرنے والوں کے بارے میں بھی کچھ کڑوا یا سخت فرما دیجئے. کسی پر کیچڑ اچھالنا بے حد آسان کام ہوتا ہے آور بالخصوص مذہب کے پیچھے چھپ کر آپ انتہائی آسانی سے کسی کو بھی فتوی دیکر کیا سے کیا بنا سکتے ہیں. عقیدوں مذاہب اور مسالک کی بیساکھیاں استعمال کرنا چھوڑ کر ذندگی میں کچھ ایسا تخلیقی کام کر کے تو دکھائیں جو عالم انسانیت کے کام آ سکے.

یہاں مسلم لیگ نون کی خاتون رکن قومی اسمبلی عظمی بخاری کی تعریف کرنا بھی ضروری ہے جنہوں نے مفتی نعیم صاحب کو کرارا اور کھرا جواب دیا. جس نظریے کے ساتھ شرمین عبید چنائے کھڑی ہیں وہ نظریہ ازل سے مخالفت اور جبر کے باوجود انسانی معاشروں کے پھلنے پھولنے اور ان میں زندگی کی مسکانوں کو بانٹنے کا باعث بنتا آیا ہے اس لیئے اس قسم کے ہتھکنڈے سے شرمین عبید چنائے کو یا ان جیسی سوچ رکھنے والے افراد کو تو کوئی خاص فرق نہیں پڑنے والا کہ زندگی اور معاشرے آگے بڑھنے کیلئے خود بھی انہی افراد کی تعمیری صلاحیتوں کے محتاج ہوتے ہیں.ویسے بھی اگر کچھ بونے اپنے سے لمبے اور بڑے قد والوں کو چھوٹا قرار دینے کی کوشش کریں، تو ان کے ایسا کرنے سے بلند قامت افراد کی حیثیت یا قد میں تو کوئی فرق نہیں پڑتا البتہ بونوں کا اصل قد کاٹھ سب کو نظر آ جاتا ہے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے