تحقیقاتی صحافت کے ٹھیکیدار

صحافت کے محققین کرام
صحافت کے اول بغلول قسم کے افلاطونوں ، لقمانوں نمبر داروں اور چودھریوں کی حرکات نا مسعود پر ایک زمانہ شاہد ہے لیکن برادر عزیز سبوخ سید نے ایک صفحہ لکھ کر انہیں بے نقاب ہی نہیں رسوا بھی کر چھوڑا ہے ، حیا جنسِ بازار ہوتی تو ایک چھٹانک خرید کر ان محققین بقلم خود کی خدمت میں پیش کر دی جاتی ، چلو بھر پانی کا اہتمام اگر ہو سکے تو بھیج دیا جانا چاہیے ، کچھ محققین کرام اس میں ڈوب ہی مریں تو صحافت آبرو مند ہو ۔

سبوخ سید اپنے ہی ڈھب کے آدمی ہیں ، ہر صبح صدا دیتے ہیں ، میں ہوں سبوخ سید ، جو جانتا ہے وہ جانتا ہے ، جو نہیں جانتا وہ بہت جلد جان جائے گا ۔ سنجیدہ صرف اس وقت ہوتے ہیں جب کوئی نئی بامعنی شرارت سوچ رہے ہوتے ہیں ۔ اگلے روز انہوں نے ایک انکشاف فرمایا کہ پی ایس ایل میں پاکستان کے خلاف ایک بہت بڑی سازش ہوئی ۔ انکشافات سے بھری اس تحریر کا پہلا پیرا ہی گد گدا گیا ، انہوں نے لکھا : صحافی ڈگڈگی پر کسی کو جانچے بغیر ناچنا شروع کر دیتے ہیں اور جب ان کا نشہ اترتا ہے تو انہیں سمجھ آتی ہے کس طریقے سے انہیں بے وقوف بنا کر استعمال کیا گیا تھا ۔

اس کے بعد سبوخ نے جو ہولناک انکشاف کیا ، اہلِ صحافت باجماعت پورے دو روز اس پر ناچتے رہے ، سبوخ نے لکھا کہ کرکٹ بورڈ بیس سالوں سے شاہد آفریدی کیخلاف سازش میں مصروف ہے ۔ اس دفعہ لاہور کی لابی نے ایک گھناؤنا کھیل کھیلا اور ایک گندے منصوبے کے تحت گراؤنڈ میں شاہد آفریدی کے خلاف ایک بنگالی عامل کی خدمات لی گئیں ، شاہد آفریدی کو اس تمام سازش کا علم ہو گیا ، انہوں نے دوبئی جانے سے پہلے سلیم صافی کو اس ساری سازش سے آ گاہ کر دیا ۔ سلیم صافی نے انہیں شاہی سید کے گھر بلا لیا ، وہاں سے یہ تینوں کراچی کلفٹن میں بار بی کیو ٹو نا ئٹ پر گئے جہاں انہوں نے اکٹھے کھانا کھایا۔

کھانے کے بعد شاہد آفریدی نے سلیم صافی اور شاہی سید کو سارا واقعہ سنا دیا ۔ سلیم صافی نے تو ان کی بات کو مزاق میں اڑا دیا جس پر شاہد آفریدی نے ناگواری کا اظہار کیا ۔ شاہد آفریدی کو رنجیدہ دیکھ کر سلیم صافی نے کہا یہ جادو کچھ نہیں ہوتا ابھی آپ کی جاوید غامدی صاحب سے بات کراتا ہوں جس پر شاہی سید نے کہا غامدی صاحب کو چھوڑیں وہ حدیث کو نہیں مانتے جادو کو کیا مانیں گے ۔ ان کی مولانا طارق جمیل سے بات کرائیں ۔

اس پر شاہد آفریدی نے کہا کہ میرے پاس مولانا طارق جمیل کا ذاتی نمبر ہے میں خود ان سے بات کر لیتا ہوں۔آفریدی نے نمبر ملایا لیکن مولانا طارق جمیل کا نمبر بند ملا ۔ رائے ونڈ مرکز سے علم ہوا کہ وہ آسٹریلیا کے علاقے derna میں چلے پر گئے ہوئے ہیں ۔ تاہم مرکز نے وہاں کے اسلامک سنٹر کا نمبر دے دیا۔

derna اور کراچی کے وقت میں ساڑھے سترہ گھنٹے کا فرق ہے یعنی کہ جب یہاں رات کے دس بج رہے ہوتے ہیں ، ٹھیک اس وقت وہاں دوپہر کے ساڑھے بارہ بج رہے ہوتے ہیں ۔

Derna ایک ایسا علاقہ ہے جہاں مغلوں کے دور میں مسلمانوں کی حکومت قائم رہی۔خیر ان کی مولانا طارق جمیل سے بات ہوئی انہوں نے کہا کہ دوبئی جانے سے پہلے ذرا جنید جمشید سے ملتے جانا ۔ جنید جمشید نے انہیں خاص سوٹ دیا جو یافران کے جنات نے ایک خاص قسم کے درخت سے تیار کیا تھا اور کہا کہ یہ سوٹ پہن کر جانا ہے اور میچ میں اپنی بیٹیوں کو ساتھ رکھنا ہے کیونکہ میچ کے دوران بنگالی عامل آپ پر جادو کر رہو گا اس وقت اس جادو کا زور توڑنے کے لیے پندرہ برس سے کم عمر خونی رشتے کا وہاں ہونا ضروری ہے یہ بچیاں آپ کے لیے وظیفہ پڑھیں گی اور آپ محفوظ رہیں گے۔

یافران کے بارے سبوخ تفصیل سے بتاتے ہیں کہ یہاں جنات نے پہلی اسلامی حکومت قائم کی جس کی تفصیل ڈاکٹر علامہ اسد کی کتاب یافران میں موجود ہے۔

اس کے بعد سبوخ ایک نیا انکشاف فرماتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس موسم میں دبئی میں میچ منعقد کروانا بھی ایک گھناؤنی سازش تھی ، جو لوگ دوبئی میں رہتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ان دنوں دبئی میں لوگ شام کوگھروں سے باہر بہت کم نکلتے ہیں کیونکہ ایک ایسی ہوا چلتی ہے جس سے گھٹنوں اور کمر میں درد کی شکایت پیدا ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر اس موسم کو ہڈیوں کی تباہی کا موسم قرار یتے ہیں۔ یہاں میچ کرانے کا مقصد یہ تھا کہ پاکستانی کھلاڑیوں کی استعداد متاثر ہو اور وہ ورلڈ کپ میں اچھا کھیل نہ کھیل سکیں ۔ اس کے بعد سبوخ آتے ہیں اصل کہانی کی طرف کہ کس طرح آئی سی سی نے نجم سیٹھی سے میچ فکس کروانے کا براہ راست مطالبہ کیا تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ یہ سارا وہ خوفناک ایجنڈا تھا جس کے لیے مودی پاکستان آیا۔

یہ تحریر سوشل میڈیا پر نمودار ہوئی اور ایک طوفان کھڑا ہو گیا۔ وہ اہلِ صحافت بھی اس کا شکار ہو گئے جو اب اپنے ناموں کی ویب سایٹس چلاتے ہیں یا سوشل میڈیا پر اپنے پیج بنا کر اس قوم کو لمحہ لمحہ باخبر رکھنا اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں ۔ ایک صاحب نے ، جن کے پروگرام دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے پروگرام میں بریک پہلے آئے گی یا قیامت ، اس خبر کو اہتمام سے جاری فرما دیا اور اس عظیم سازش پر نوحہ کناں ہو گئے۔

دوسرے صاحب نے سبوخ کی اس انکشاف انگیز خبر کا سارا کریڈٹ خود لینے کے چکر میں اسے خبر بنا کر اپنی ویب سائٹ پر ڈال دیا ۔ جلد از جلد خبر دینے کے چکر میں وہ یہ نہ بتا سکے کہ یافران میں جنات نے جو اسلامی حکومت بنائی تھی یہ کس سال میں کتنے بج کر کتنے منٹ پر قائم ہوئی تھی اورتقریب حلف برداری کے وقت جن بھائی نے سگریٹ کا کش لگا کر ایک قہقہہ ہوا میں اچھالا تھا یا نہیں۔ تاہم ایک دن میں اس تحریر کی شیئرنگ لاکھوں میں پہنچ گئی۔ یہاں آ کر سبوخ کی برداشت جواب دے گئی اور اس نے خود ہی اکتا کر کہ دیا او بھابھو نچنیو بس کرو یہ سب جھوٹ تھا ، بس تمہیں اور تمہاری تحقیقاتی صحافت کو سر بازار رسوا کرنا تھا سو کر دیا اب ناچنا بند کرو ۔ سبوخ ایک دن انتظار کر لیتے تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں اگلی شام یاروں نے اس موضوع پر ٹاک شوز بھی کر دینا تھے۔

سبوخ کی تحریر میں اہلِ عقل کے لیے نشانیاں نمایاں تھیں ، لیکن عقل کی اب کیا مجال وہ آزادی صحافت کے ان موسموں میں کسی اہلِ صحافت کے در پر دستک دے سکے۔

تحقیق کے کچھ بنیادی تقاضے ہوتے ہیں ۔ کوئی بھی خبر تسلیم کرنے سے پہلے اس کا تنقیدی جائزہ ضروری ہوتا ہے۔مثال کے طور پر سلیم صافی یا شاہی سید سے اس کے بارے میں پوچھا جا سکتا تھا ، اس کے بعد یہ جاننا چاہیے تھا کہ کیا واقعہ مولانا طارق جمیل ان دنوں ملک سے باہر ہیں اور کیا آسٹریلیا کے اس شہر میں تبلیغی جماعت کا کوئی اسلامک سنٹر موجود ہے ، یہ جاننے کے لیے عظیم صحافیوں کو صرف رائے ونڈ کال کرنے کی زحمت کرنا تھی ، تھوڑی سی کامن سینس ہوتی تو یہ خٰیال بھی لازمی آتا کہ مغلوں کا اقتدار تو برصغیر تک تھا آسٹریلیا میں ان کی حکومت کب قائم ہو گئی تھی ، گوگل پر سرچ کر لی جاتی تو معلوم ہو جاتا derna نام کا کوئی شہر آسٹریلیا میں نہیں ہے یہ تو لیبیا کا ایک ضلع ہے۔ کچھ ذوق مطالعہ ہوتا تو یہ جاننا بھی مشکل نہ تھا کہ ڈاکٹر اسد نے یافران نامی کوئی کتاب لکھی ہی نہیں، ان افلاطونوں کے لیے دبئی اجنبی نہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے تھا کیا یہ بات درست ہے کہ دبئی کے لوگ اس موسم میں شام کو گھروں سے باہر نہیں نکلتے لیکن اس تردد میں اہل صحافت اب نہیں پڑتے ۔ ایک خبر ہاتھ آئی یاروں نے اس کا باجماعت انکشاف کرنا شروع کر دیا ۔

سبوخ کے الفاظ میں خبر کو جانچے بغیر ڈگڈگی پر ناچنا شروع کر دیا۔

سوال اب یہ ہے ، ان اہلِ صحافت کی دی خبروں اور ان کے تجزیوں کو کس طرح سنجیدگی سے لیا جائے ؟ ان کی تحقیق کا معیار کیا ہے ؟ یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کہ یہی وہ حضرات ہیں جو روز جاسوسیاں کر کے ریٹنگ لیتے پائے جاتے ہیں ، یہ آئے روز ہمیں بتاتے ہیں کہ فلاں صدی میں جو واقعہ ہوا تھا اس کی جزئیات یہ ہیں ، یہ بتاتے ہیں زرداری نے آرمی چیف سے کیا کہا اور انہوں نے آگے سے کیا منہ توڑ جواب دیا ، یہ راز فاش کرتے ہیں کہ پی پی پی کی کون سی خاتون ایم پی اے تھی جس نے فلاں کو اپنی آنکھوں کے سامنے ذبح کرایا ، یہ ہر شام ہمیں بتاتے ہیں حکومت کب جانے والی ہے ، ہر صبح ان کی پٹاری سے ہولناک انکشافات مرچ مصالحہ سمیت نکلتے ہیں اور سماج کو متعفن کر دیتے ہیں۔

ایک تحریر نے ان عالمی جاسوسوں اور محققین کرام کو بیچ چوراہے میں ننگا کر دیا ۔ ویل ڈن سبوخ سید ۔

[pullquote]
” مضمون سے متعلق خیالات کا اظہار کمنٹ باکس میں کیجئے ”

[/pullquote]

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے