ممتاز قادری کی پھانسی اہم کیوں ؟

گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو توہینِ رسالت کے شبہے میں 28 گولیاں مارنے والے پولیس کانسٹیبل ممتاز قادری کی پھانسی کی غیر معمولی اہمیت کے کئی اسباب ہیں۔

پاکستان میں توہینِ رسالت کے الزام کے شکار متعدد مردوں اور عورتوں کو زیریں عدالتوں نے تو موت کی سزا سنائی مگر ایسی بیشتر سزائیں ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کی سطح پر معطل یا ختم کردی گئیں یا پھر آخری اپیل کے صدارتی خانے میں رکھ دی گئیں۔لیکن عدالتی فیصلوں اور اسٹیٹس سے قطع نظر عمومی حالات اتنے دگرگوں ہیں کہ ایک بار کسی پر توہینِ رسالت کا الزام لگ جائے تو صحتِ الزام سے قطع نظر ملزم کو زندگی کے لالے پڑ جاتے ہیں۔اس میں جوان ، بوڑھے ، بچے ، مرد ، عورت کی کوئی قید نہیں۔

ملزم کی عدالتی بریت کے باوجود عدم برداشت اتنی زیادہ ہے کہ معاشرہ یا تو معاف نہیں کرتا یا پھر غیر ہمدردانہ لاتعلقی اختیار کرلیتا ہے۔ بلکہ ملزم حفاظتی تحویل یا جیل کسٹڈی میں بھی غیر محفوظ رہتا ہے۔ چنانچہ ملزم کے سامنے عموماً دو ہی راستے ہوتے ہیں۔اندرون ِ ملک روپوشی یا جلاوطنی۔ غیض و غضب کا نشانہ صرف ملزم نہیں اس کا وکیل ، بری کرنے والا جج اور ملزم سے کھلے بندوں اظہارِ ہمدردی کرنے والا کوئی شخص بھی بن سکتا ہے۔اور نتیجہ وکیلِ صفائی یا جج کے ممکنہ قتل ، روپوشی یا بیرونِ ملک فرار کی شکل میں نکل سکتا ہے۔

اس کے برعکس جھوٹا الزام لگانے والا کھلے بندوں گھوم سکتا ہے۔ اگرچہ قانون میں گنجائش موجود ہے پھر بھی جھوٹے الزام کی پاداش میں شائد ہی کسی کو سزا ملی ہو۔

اس پس منظر میں ممتاز قادری کی سزائے موت پر عمل پاکستان جیسے منقسم سماج میں ایک غیر معمولی پیش رفت ہے۔ دسمبر 2014 میں جب آرمی پبلک سکول پشاور کے قتلِ عام کے بعد پاکستان میں سزائے موت کی غیر اعلانیہ معطلی ختم ہوئی اور روزانہ کئی کئی پھانسیوں کی خبریں آنے لگیں تو کسی کو بھی یقین نہیں تھا کہ ممتاز قادری کی سزائے موت پر عمل ہو سکے گا۔ زیادہ سے زیادہ یہ توقع تھی کہ رحم کی اپیل صدرِ مملکت کے پاس برسوں پڑی رہے گی ۔

ممتاز قادری قانون کی نگاہ میں بھلے مجرم ہو لیکن سماج کے ایک طبقے کی نگاہ میں بہرحال وہ کوئی عام قاتل نہیں بلکہ ہیرو ہے اور اس کے چاہنے والوں میں جرم اور قانون سے بخوبی واقف وکلا اور سابق جج بھی مل جائیں گے۔ گویا ممتاز قادری کیس نے پاکستانی سماج کی نظری فالٹ لائنز کو اور واضح کردیا۔

ممتاز قادری کی سزائے موت پر عمل درآمد سے دو باتیں واضح ہو رہی ہیں۔اول یہ کہ ریاست اپنی رٹ نافذ کرنے میں بظاہر سنجیدہ نظر آ رہی ہے۔ دوم یہ کہ قریباً 40 برس بعد پاکستانی ریاست اس نتیجے پر پہنچ رہی ہے کہ انتہاپسندی کی حوصلہ افزائی محدود ملکی و علاقائی مفادات کے حصول میں اب بہت زیادہ مدد گار ثابت نہیں ہو رہی چنانچہ شدت پسندی کی بند گلی سے نکل کے متبادل راستہ اپنانے کی ضرورت ہے۔

ریاستی زاویہِ نگاہ میں یہ نظری تبدیلی عارضی ہے کہ مستقل ؟ ہمیں اس جھنجٹ میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔کیونکہ نظریہ ریاستی مفاد کے تابع ہوتا ہے ریاستی مفاد نظریے کے تابع نہیں ہوتا۔کل انتہا پسندی کو فروغ دینا بہتر لگتا تھا تو آج اعتدال پسندی اپنانا وقت کی ضرورت ہے۔ ممتاز قادری کی پھانسی کو اس تناظر میں دیکھنے کی بھی ضرورت ہے۔

بشکریہ بی بی سی اردو

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے