دوسرا آسکر

پیر کی صبح ایک مارننگ شو میں شریک ہوا، جہاں ملالہ یوسف زئی کے حوالے سے ایک بحث تکلیف دہ اور ناخوشگوار صورت اختیار کر گئی۔ دفتر پہنچا توٹی وی پر خبر چل رہی تھی کہ شرمین عبید چنائے نے دوسرا آسکر ایوارڈ جیت لیا ہے۔ ملالہ والے واقعے کا ذکر بعد میں، مگر پہلے شرمین عبید چنائے کے آسکر ایوارڈ جیتنے کی دل خوش کن خبر پر بات کرتے ہیں۔

سچ تو یہ ہے کہ مجھے شرمین کی اس شاندار کامیابی پر دلی مسرت ہوئی۔ یہ پاکستان کے لئے اعزاز ہے کہ ایک پاکستانی فن کارہ نے اپنی صلاحیت، کمٹمنٹ اور ٹیلنٹ کی بدولت فلمی دنیا کا سب سے اہم اور معتبر ایوارڈ جیت لیا ہے۔ اگرچہ یہ کامیابی شرمین عبید چنائے کی ذاتی کامیابی ہے، مگر جس طرح کوئی پاکستانی بڑی کامیابی حاصل کرے تو جی خوش ہوجاتا ہے، شرمین تو پہلے ہی سے معروف اور نامور ہیں، ایک آسکر ایوارڈ وہ پہلے بھی جیت چکی ہیں، یہ دوسرا ایوارڈ انہیں دنیا بھر میں مزید ممتازکر دے گا۔ ہَیٹس آف ٹو یُو شرمین!

مجھے یہ سمجھ نہیں آئی کہ شرمین عبید چنائے کی اس کامیابی پر خوش ہونے کے بجائے سوشل میڈیا پر ان کے خلاف تنقیدی مہم کیوں شروع ہوگئی؟ ویسے تو یہ صرف سوشل میڈیا تک محدود نہیں، شرمین نے جب پچھلی بار آسکر ایوارڈ جیتا، تو تب بھی ان کے خلاف مین سٹریم میڈیا میں بہت سے کالم، آرٹیکل شائع ہوئے تھے۔ ہمارے بعض معروف لکھاریوں نے یہ طعنہ دیا کہ شرمین اپنی فلم کے ذریعے دنیا بھر میں پاکستان کا منفی امیج پہنچا رہی ہیں۔ یہ سوال پہلے بھی پوچھا گیا تھا، اب پھر اسے مختلف فورمز پر بار بار اٹھایا جا رہا ہے کہ آخر شرمین عبید کو ملک میں ہونے والے سیاہ واقعات میں کیوں دلچسپی محسوس ہوتی ہے، یہاں بہت سے مثبت واقعات بھی ہوتے ہیں، ان پر کیوں نہیں فلم بنائی جاتی؟ وغیرہ وغیرہ۔ بات بڑی سادہ ہے۔ ناول نگار ہو یا شاعر، مصور ہو، فلم میکر یا کوئی اور آرٹسٹ، وہ مختلف واقعات سے انسپائریشن لیتے اور اسے اپنے تخلیقی تجربہ کا حصہ بناتے ہیں۔ یہ بڑے واقعات پھر جا کر بڑے شاہکار میں تبدیل ہو پاتے ہیں۔ کبھی کوئی سادہ سی کہانی، چھوٹا سا منظر بہت بڑے ناولوں، مسحور کر دینے والی فلموں میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ المیہ حساس دل لوگوں کو اپنی طرف زیادہ کھینچتا، ان پر اثر انداز ہوتا، ہانٹ کرتا رہتا ہے۔ منٹو پر یہ الزام لگتا تھا کہ وہ معاشرے کے بدصورت چہروں کی طرف لپکتا ہے۔ طوائفیں، فسادات میں زیادتی کا نشانہ بننے والی لڑکیاں، نفسیاتی مسائل کا شکار پیچیدہ کردار…. یہ سب منٹو کے مختلف افسانوں کے کردار رہے ہیں، منٹو کے جادوئی قلم نے انہیں شاہکار بنا دیا۔ کون ہے جو”کھول دو“کی مرکزی کردار کو بھلا پائے، ” ٹھنڈاگوشت“ کس کے ذہن کے نہاں خانوں سے نکل سکتا ہے، ”نیاقانون“ کا کوچوان جو سمجھتا تھا کہ اب زمانہ بدل چکا ہے، سوگندھی، ہتک اور نجانے کتنے شاہکار افسانوں کے کردار منٹو نے تخلیق کئے۔ یہی کام موپساں نے فرانسیسی ادب میں کیا۔ چیخوف نے اپنے انداز میں کردار تخلیق کئے تو دوستوفسکی نے عام کرداروں میں نئی دنیا تلاش کرکے دکھا دی۔ مارکیز کا مشہور ناول ”ایک پیش گفتہ موت کی روداد“ اس کے ایک صحافتی تجربہ کے بعد وجود میں آئی۔ ایک چھوٹے سے قصبے میں ہونے والا قتل، جسے مارکیزکے قلم نے امرکر دیا۔ کسی نے کبھی مارکیز سے نہیں پوچھا کہ اس قصبے میں اتنے اچھے واقعات ہوئے، تم نے ان سب کو چھوڑ کر قصبے کی تاریخ میں ہونے والے واحد بدصورت واقعے پر اپنا ناول کیوں لکھا؟

ہماری اردو شاعری میں وصال کے موضوع پر کتنے شعر مقبول ہوئے، دل میں اترے؟ ہجر کی شاعری نے ایک عالم کو دیوانہ بنا رکھا ہے۔ سرائیکی، پنجابی، سندھی، پشتو، بلوچی اور دیگر زبانوں میں کیسی دلگداز، کیسی تیر کی طرح کلیجے میں ترازو ہونے والی ہجریہ شاعری ہوئی۔ لاکھوں محبت کرنے والے آپس میں مل گئے، ہنسی خوشی زندگی گزار دی، مگر آج اپنے پُنوں کی خاطر ریت میں دفن ہوجانے والی سَسّی کی کہانی ہی زندہ ہے۔ مرزا صاحباں، ہیر رانجھا، شیریں فرہاد، رومیو جولیٹ…. لاکھوں، کروڑوں دل خوش کن کہانیاں مٹ گئیں، مگر یہ چند دل دکھانے والی کہانیاں آج بھی پہلے کی طرح تروتازہ ہیں۔ تخلیق کاروں کی انسپائریشن اپنے انداز میں ہوتی ہے۔ تاج محل کو دنیا حیران کن شاہکار مانتی ہے، محبت کرنے والے جوڑے وہاں جاتے اور شاہ جہاں کی لافانی محبت کو سلام پیش کرتے ہیں۔ ساحر لدھیانوی جیسے شاعر کو اسی تاج محل سے ایک بالکل ہی الگ نوعیت کا، ایک طرح کا قنوطیت والا خیال آیا، مگر کیسا اچھوتا!کیا شعرکہا:

اک شہنشاہ نے محبت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق

یہ سوال ہی مضحکہ خیز ہے کہ فلاں موضوع پر فلم بنائی، فلاں پر کیوں نہ بنائی؟ گویا ہم ڈکٹیشن دیں گے کہ فلاں موضوع پر ناول لکھا جائے، گیت گایا جائے، فلم بنائی جائے؟ تخلیق کار کی مرضی، وہ جس موضوع کو چاہے چن لے۔ یا کوئی یہ دعویٰ کرے کہ یہ بات سرے سے غلط ہے، ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہوتا، سراسر جھوٹ بولا گیا اور غلط بنیاد پر کہانی بنائی گئی۔ ایسا ہرگز نہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ غیرت کے نام پر ہمارے ملک میں قتل ہوتے ہیں اور ایسے بے شمار دلگداز واقعات ہر جگہ بکھرے پڑے ہیں، کچھ رپورٹ ہوتے ہیں، بیشترکا علم ہی نہیں ہو پاتا۔ جس کہانی پر یہ فلم بنائی گئی، وہ ایک سچا واقعہ ہے۔ تعصب اور تنگ نظری کے خول سے نکل کر وہ کہانی سنی یا پڑھی جائے توسنگدل انسان بھی موم ہوجائے۔ ایک لڑکی جسے غیرت کے نام پر گولی ماری گئی اور مردہ سمجھ کر دریا میں پھینک دیا گیا، قدرت نے اس کی زندگی بچالی، گولی مارنے والوں کے خلاف مقدمہ چلا اور پھر ان کے دباﺅ پر لڑکی نے انہیں معاف کر دیا۔ فلم کا مرکزی خیال ہی یہ ہے کہ غیرت کے نام پر قتل یا اس کی کوشش کرنے والے بعد میں دباﺅ ڈال کر متاثرہ لڑکی سے معافی حاصل کر لیتے ہیں، مگر قانون میں ترمیم کر کے ان کے بچ نکلنے کا یہ راستہ ختم ہونا چاہیے۔ اس موضوع پر فلم بنانے سے پاکستان کی بدنامی کیسے ہوگئی؟ کیا دنیا کو نہیں معلوم کہ یہاں کیا کیا نہیں ہو رہا؟ انہیں علم نہیں کہ ہمارا سماج، خاص کر دیہی معاشرہ آج بھی صدیوں قدیم ظالمانہ رسم ورواج کا اسیر ہے۔کب تک ہم اپنے اس مکروہ چہرے کو چھپائیں گے؟کیا اب وقت نہیں آگیا کہ بجائے سچ بیانی پر ناراض ہونے کے، ہم دباﺅ ڈال کر قانون سازی کرائیں اور غیرت کے نام پر قتل وغارت رکوائیں۔ دنیا کو بتلا دیں ہم اس حوالے سے زیرو ٹالرنس رکھتے ہیں ۔ شرمین عبید چنائے کو مطعون کرنے سے کام نہیں چلے گا۔ وہ ایک فن کارہ ہے، جو ایشو اسے ڈسٹرب کرتا ہے، وہ اسی کو منتخب کرے گی۔ ویسے بھی آسکر صرف موضوع یا اس پرڈیٹا جمع کرنے سے نہیں ملتا، اس کی اعلیٰ درجے کی فنکارانہ ٹریٹمنٹ اور تخلیقی خوبصورتی مرکزی کردار ادا کرتی ہے۔ شرمین کے موضوع سے اختلاف کرنے والے کم ازکم یہ پوائنٹس تو انہیں دیں۔ اتنا تو حق بنتا ہے پاکستان کی بیٹی کا، جس نے پوری دنیا کے سامنے اپنے فن کا لوہا منوایا۔
شروع میں ذکر کیا تھا ملالہ والے واقعے کا، وہ بات مگر رہ گئی، انشااللہ اگلی نشست میں اس پر تفصیل سے بات ہوگی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے