خصوصی قوانین، بہت ضروری

جھگڑا یہ نہیں کہ پنجاب اسمبلی کے ارکان رن مرید ہیں یا تحفظ خواتین کا بل مغربی طاقتوں کے دباﺅ پر ہوا۔ تنازعہ یہ بھی نہیں کہ یہ بل کسی کو خوش کرنے کے لئے پاس ہوا یا نہیں۔ اصل بحث یہ ہے کہ کیا خواتین پر تشدد کی قباحت ہمارے معاشرے میں موجود ہے یا نہیں۔ اگر یہ برائی معاشرے میں موجود ہے تو کیا اس کے خاتمے اور حوصلہ شکنی کے لئے قانون موجود ہونا چاہئے یا نہیں۔ جواب آتا ہے کہ جی ہاں! خواتین ناروا رویوں اور گھریلو تشدد کا شکار ہیں۔ لہٰذا اگر کوئی قانون بنتا ہے تو خوش آمدید۔ لیکن اس قانون میں توازن ضرور ہونا چاہئے۔

دنیا بھر کے مہذب معاشروں میں معاشرتی توازن کو برقرار رکھنے اور جرائم پیشہ افراد کو نکیل ڈالنے، انصاف کی فراہمی کے لئے قوانین بنائے جاتے ہیں۔ قوانین کسی خاص طبقے، کسی خاص فرد کی ضرورت کے لئے نہیں بنائے جاتے بلکہ ان کے مقاصد ہمہ گیر اور حال و مستقبل کی ضروریات کو مدنظر رکھ کر بنائے جاتے ہیں۔ ایسا بھی ہر معاشرے میں ہوتا ہے کہ بعض طبقات جو فطری طور پر کمزور ہوں یا انہیں نشانہ بنانا، دباﺅ میں رکھنا آسان ہو۔ ان کے لئے خصوصی اور جدا قوانین، قواعد و ضوابط بنائے جاتے ہیں۔ ان کمزور طبقات میں بچے، بزرگ شہری، خواتین، معذور افراد، مذہبی اقلیتیں شامل ہیں۔ مہذب معاشروں میں تو بچوں کے سکولوں کی عمارتوں کو مخصوص کلر سکیم دی جاتی ہے تاکہ ان کی شناخت الگ سے ہو۔ سکول جاتے بچوں کی یونیفارم تک اس لئے مختلف ہوتی ہے کہ ارد گرد کے لوگوں کو معلوم ہو یہ بچے سکول جا رہے ہیں۔ بچوں کو سکول لانے، لے جانے والی بسوں کا رنگ بھی مختلف ہوتا ہے۔ ان کے سٹاپ اور ٹریفک سائن تک مختلف بنائے جاتے ہیں۔ تاکہ ان کو تحفظ حاصل رہے۔ معذور افراد کو ہی دیکھ لیجئے۔ ابھی چند برس پہلے تک ہمارے معاشرے میں ان کے لئے کوئی خصوصی قوانین موجود نہ تھے۔ لیکن آہستہ آہستہ شعور بیدار ہوتا گیا۔ آج ان کے لئے ملازمتوں میں کوٹے مخصوص ہیں۔ ذرائع آمدورفت میں ان کے لئے الگ سے نشستیں مخصوص ہیں۔ ان کی وہیل چیئرز کے لئے الگ گزرگاہیں تیار کی جا رہی ہیں۔

سرکاری عمارتوں اور ہوٹلوں میں ان کے لئے الگ طہارت خانے بنائے جاتے ہیں۔ ان کو بسوں، ریل گاڑیوں اور ہوائی جہازوں میں رعایتی نرخوں پر ٹکٹ دی جاتی ہے۔ پبلک مقامات پر ان کے لئے جدا لائنیں لگتی ہیں تاکہ وہ یوٹیلیٹی بل ادا کر سکیں۔ اسی طرح بزرگ شہریوں کا معاملہ ہے۔ 60 سال سے زائد شہریوں کو کئی خصوصی مراعات دی جاتی ہیں۔ ان کو کئی قسم کے ٹیکسوں سے استثنیٰ دیدیا جاتا ہے۔ ان سے کئی ایک دستاویزات کی فیس نہیں لی جاتی۔ ہسپتالوں میں مفت علاج کے لئے سینئر سیٹزن کارڈ جاری کئے جاتے ہیں تاکہ وہ صحت، علاج و معالجہ کے لئے بآسانی سہولیات حاصل کر سکیں۔ اگرچہ فی الحال، ہمارے معاشرے میں وسیع پیمانے پر اولڈ ہومز کا رواج نہیں ہے۔ پھر بھی کئی ایسی رضاکار تنظیمیں موجود ہیں جو بے سہارا، بزرگ شہریوں کو شیلٹر فراہم کرتی ہیں۔ مغرب پر تنقید اپنی جگہ اور تقدیس مشرق کی ثنا خوانی کو بھی ویلکم۔ لیکن مغربی ممالک میں اولڈ ہومز کا ادارہ موجود ہے۔ جہاں ان ریٹائرڈ افراد کو پر آسائش طریقے سے زندگی کے باقی ماندہ ایام گزارنے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے۔ اب وہ وقت آ گیا ہے کہ اولاد کی غیر ذمہ داری، بے اعتنائی کا شکار معمر شہریوں کی ذمہ داری حکومت وقت لے۔ وہ ادھر ادھر رلنے کی بجائے باعزت طریقے سے اپنی زندگی بسر کریں اگر ان کی اولاد دیکھ بھال کر رہی ہے تو یہ آئیڈیل بات ہے اگر ایسا نہیں تو پھر عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔

اسی طرح مذہبی اقلیتوں کا معاملہ ہے۔ کئی ممالک میں ایسا ہوتا ہے کہ ان اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے خصوصی قوانین بنائے جاتے ہیں۔ ان کے رسم و رواج کے تحفظ کے لئے کوشش کی جاتی ہے۔ ان کی عائلی طرز زندگی کے تحفظ کے لئے قانون سازی کی جاتی ہے۔ ان کے مذہبی حقوق، طرز عبادت کے مطابق گزارنے کے لئے سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ ہمارے ملک کی طرح کئی ممالک میں پارلیمنٹ میں ان اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے نشستیں تک مخصوص کی جاتی ہیں۔ ان سب مثالوں کا مقصد قارئین کو یہ بتانا مقصود ہے کہ کسی مخصوص طبقہ کے لئے قانون سازی کوئی منفرد یا انوکھی بات نہیں۔ مخصوص حالات میں ایسے اقدامات ضروری ہو جاتے ہیں۔

آئین پاکستان دھرتی پر بسنے والے تمام طبقات کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ پاکستان میں خواتین کو وہ حقوق حاصل ہیں جو ان کو مذہب، آئین اور اخلاقیات نے دیئے ہیں۔ مخصوص قسم کے قبائلی، نیم جاہلانہ پس منظر، پس ماندہ روایات، مذہبی معاملات کی غلط تشریح کے سبب ان کو انسان کی بجائے بھیڑ بکری سمجھا جاتا ہے۔ دین مبین اسلام نے 1400 سال پہلے تمام حقوق مساویانہ بنیاد پر دیکر انقلاب برپا کر دیا تھا۔ ان کو جائیداد میں حصہ دیا گیا۔ ان کی سماجی حیثیت کو متعین کر دیا گیا۔ لیکن جاہلیت کی بنیاد پر عملی صورت حال مختلف ہے۔

کون نہیں جانتا کہ عورتوں کو غیرت کے نام پر قتل کیا جاتا ہے۔ ایسے واقعات کی تعداد نہایت ہولناک ہے۔ سندھ میں کاروکاری کی بھیانک رسم آج بھی جاری ہے۔ سوارہ، ونی ایسی رسمیں ہیں جہاں ”غیرت مند“ مرد جرم کی سزا پانے سے بچنے کے لئے اپنی گھر کی بیٹیوں، بہنوں کو جنس تبادلہ کے طور پر دوسرے خاندان کے حوالے کر کے خود آزاد ہو جاتے ہیں۔ کئی جاگیردار گھرانے، جائیداد تقسیم ہونے سے بچانے کے لئے لڑکیوں کی شادی قرآن سے کر دیتے ہیں۔ ہم پلہ، رشتے نہ ملنے کی وجہ سے لڑکیوں کی شادیاں نہیں کی جاتیں۔ 2011ءمیں سندھ اسمبلی میں ایک رپورٹ پیش ہوئی جس میں بتایا گیا کہ صرف ایک سال کے اندر سندھ میں 577 خواتین کو غیرت کے نام پر کاری کر کے ہلاک کر دیا گیا۔ اکثر معاملات میں ملزم پولیس کی سرپرستی، پراسی کیوشن کی کمزوری اور قوانین کے غیر موثر ہونے کی وجہ سے ہیرو بن کر نکل آتا ہے۔ عورتوں پر تیزاب پھینکنے کی حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے۔

ایسے واقعات میں زندہ بچ جانے والی خواتین کی باقی زندگی جس طرح گزرتی ہے اس کا صرف تصور ہی کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح گھریلو تشدد کا معاملہ ہے۔ ہمارے ہاں اکثر ایسے مواقع پر مغربی ممالک کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ان ممالک میں بھی مرد، خواتین پر تشدد کرتے ہیں۔ اس حوالے سے اعدادوشمار بھی فراہم کئے جاتے ہیں۔ یہ بات بھی درست ہے لیکن اگر کوئی قباحت کسی دوسرے ملک یا معاشرے میں موجود ہے تو کیا ضروری ہے کہ یہ بھی اس کی سرپرستی کریں۔ ان معاشروں میں اگر تشدد ہے تو اس کی روک تھام کے لئے قوانین بھی ہیں۔ ہمارے ملک میں یہ غیر انسانی رویہ موجود ہے تو اس کی روک تھام بھی ضروری ہے۔ گھریلو تشدد کو جہاں شعور کی بیداری سے روکا جا سکتا ہے تو دوسری جانب لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ لہٰذا موثر قوانین ضروری ہیں۔ پنجاب اسمبلی نے جو قوانین پاس کئے ہیں ان کی تفصیل میں نہیں جاﺅں گا۔ صرف اتنا عرض کروں گا۔ قوانین قابل عمل ہوں اور مضحکہ خیز یا غیر حقیقی نہ ہوں۔ یہ قوانین متوازن ہوں، عورت پر گھریلو تشدد کا خاتمہ مرد کو کڑا پہنا دینے سے نہیں بلکہ اسے تعلیم یافتہ بنا کر اس کو معاشی طور پر خودمختار بنا کرکیا جا سکتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے