ممتاز قادری اور اہلِ مذہب

رسالت مآب سید نا محمد ﷺ سے محبت اس امت کا اثاثہ اور توانائی کا غیر معمولی ماخذ ہے۔اس کا مظہر ممتاز قادری کا جنازہ ہے۔لوگ امڈ آئے کہ مرحوم کی اللہ کے رسولﷺ سے ایک نسبت قائم ہوگئی تھی۔

یہ اب اس قوم کے مذہبی پیش واﺅں کو سوچنا ہے کہ وہ اس اثاثے سے کیا کام لیتے ہیں۔ اس توانائی سے ایٹم بم بنا نا چاہتے ہیں یااندھیروں کو روشنی میں بدلنا چاہتے ہیں؟

وہ مزیدممتاز قادری پیدا کرنا چاہتے ہیں جو حبِ رسول میں سرشارہوکر،ہر اس آدمی کو قتل کرنے کے درپے ہوں جو ان کے خیال میں گستاخِ رسول ہے یا اخلاق و کردار کے ایسے نمونے جن میں صدیقؓ و عمر ؓ کے حسنِ طبیعت کی جھلک اور جہاں بانی کی غیر معمولی استعداد ہو؟

وہ ایسا معاشرہ بنانا چاہیں گے جہاں اسوہِ حسنہ کے وہ پیروکار نظر آئیں جنہیں دیکھتے ہی ایک خوش گوارتاثر ابھرے یا ایسا سماج جس میں دینی حلیے والے پر نظر پڑتے ہی خوف کی سرد لہر ریڑھ کی ہڈی تک اتر جائے؟

وہ اقلیتوں میں جان و مال کے تحفظ کا وہ احساس پیدا کرنا چاہیں گے جو انہیں رسالت مآب ﷺ کی چادرِرحمت میں ملتا تھا یا یہ پسند کریں گے کہ نفاذِاسلام کا نعرہ انہیں عدم تحفظ کے خدشے میں مبتلا کردے؟

وہ ایک ایسے سماج کو فروغ دیں گے جس میں قانون کا نفاذریاست کی ذمہ داری ہو یا ایک ایسا سماج جس میں ہر کسی کو یہ حق ہے کہ وہ خود مدعی بنے،خود منصف اور قوتِ نافذہ بھی اسی کے پاس ہو؟

انتخاب اب اہلِ مذہب کو کر نا ہے۔ان کا انتخاب ہی اس خطے میں مذہب کے مستقبل کا فیصلہ کرے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے