پاکستان کا استحکام اور مدارس کا دفاع

اس وقت ہم ایک عجیب وغریب صورتحال سے دوچار ہیں ۔ایک طرف تجددہے اور دوسری طرف تشدد ،ایک طرف ترقی کے نام پر لبرل ازم،روشن خیالی کے نام پر بے حیائی اور اعتدال پسندی کے نام پر مداہنت کو رواج دیا جا رہا ہے جبکہ دوسری طرف جہاد کے نام پر فساد ،مذہب کے نام پر انتہاپسندی اور نفاذ شریعت کے نام پر مسلمانوں کے کشت وخون کا سلسلہ جاری ہے ۔وطنِ عزیز پاکستان جو اسلام کے نام اور کلمہ طیبہ کے نعرے پر معرض وجود میں آیا تھا اس وطن سے اسلام اور اسلام پسندوں کو دیس نکالا دینے کے جتن کیے جارہے ہیں ۔

جس دینی تعلیم کا انتظام ریاست کی ذمہ داری تھی اس کا انتظام کرنے والے دینی مدارس کو مختلف حیلے بہانوں سے تنگ کیا جا رہا ہے ، ان دینی مدارس کا ناطقہ بند کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ،ملک بھر کے سینکڑوں امن پسند علماءکو فورتھ شیڈول میں ڈال کر جرائم پیشہ لوگوں کی صفوں میں کھڑا کر دیا گیا ہے ،نہ جانے کس کی خوشنودی کے حصول کے لیے آئے روز مدار سِ دینیہ پر چھاپے مارے جاتے ہیں ،کبھی کوائف طلبی کے نام پر ،کبھی رجسٹریشن کے بہانے سے ،کبھی بینک اکاو¿نٹس کی بندش کی شکل میں ارباب مدار س کو ہراساں کیا جاتا ہے ۔

وطن عزیز میں ڈاڑھی اور پگڑی کو نفرت کی علامت بنانے کی کوشش ہو رہی ہے ،دہشت گردی کی روک تھا م کے لیے جاری ہونے والے اشتہارات میں ڈاڑھی اور برقعے کو ہدف بنایا جاتا ہے ۔ملک بھر سے ہزاروں اسلام پسند جوانوں کو اس طرح غائب کر دیا گیا کہ ان کا کوئی اتا پتا نہیں کہ کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں ؟اس ملک کا نوجوان سب سے زیادہ قابل رحم ہے ایک طرف اسے داعش کے نام پر ورغلایا جا رہا ہے تو دوسری طرف ویلٹنائن اور دیگر حوالوں سے بہکایا جا رہا ہے ،ایک طر ف اس کو اشتعال دلا کر بے گناہوں کا خون بہانے پر آمادہ کیا جاتا ہے تو دوسری طر ف اسے ڈرا دھمکا کر مسجد ومدرسہ سے دور رکھنے کی سعی کی جاتی ہے ۔

ایک ایسے وقت میں جب اسلام پسندوں کو سنگین چیلنجز کا سامنا ہے،فرقہ واریت کی جنگ کو پاکستان کے اندر دھکیلنے کی سازش ہو رہی ہے، کبھی تبلیغی جماعت پر قدغنین لگائی جاتی ہیں اور کبھی دینی مدارس کی مُشکیں کسنے کی منصوبہ بندی ،نفسا نفسی کا عالم ہے ،کھینچا تانی کا ماحول ہے ،خوف وہراس کی کیفیت ہے ،مادیت کی دوڑ ہے ،جھوٹا پروپیگنڈہ ہے ،لایعنی تبصرے ہیں ،باہمی انتشار وافتراق ہے ،کبھی دہشت گردی کے ڈانڈے مدارس کے ساتھ جوڑے جاتے ہیں اور کبھی مدارس کو دنیا بھر کی تمام خرابیوں کا منبع بتا یا جاتا ہے،کبھی مدار س کو تشدد اور عسکریت کی آماجگاہ بنانے کی کوشش ہوتی ہے اور کبھی مدارس کے ساد ہ لوح نوجوان کو خوشنمانعروں کی بنیاد پر راہ اعتدال اور راہِ راست سے ہٹانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔

پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کے محافظ یعنی عساکر پاکستان اور پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے نگہبان یعنی دینی طبقا ت کے مابین کشمکش کی فضا ءپیدا کی جاتی ہے ،ملا اور مسٹر کی تفریق کے نام پر پاکستان میں مذہبی طبقات کو تنہا کرنے کی سعی ہوتی ہے ،پاکستان کے اندر کشت وخون اور بدامنی کو ہوادینے کے منصوبے بنائے جاتے ہیں ایسے میں پاکستان کے علماءحیران ہیں کہ وہ کیا کریں ؟پاکستان کا نوجوان گومگو کی کیفیت میں ہے کہ وہ کس راستے کا انتخاب کرے ؟پاکستانی قوم سہمی بیٹھی ہے کہ وہ کہاں کا رخ کرے ؟مدارس دینیہ کے ساتھ محبت رکھنے والے لوگوں کے سامنے مدار س کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیا گیا ہے ….اس ابتر اور سنگین صورتحال کے دوران وفاق المدارس العربیہ پاکستان کو گزشتہ کئی برسوں سے چومُکھی لڑائی لڑنی پڑ رہی ہے ۔

وفاق المدارس نے اس عرصے میں دینِ اسلام کی پاسبانی ،شعائر اسلام کے دفاع اور دینی مدارس کا مقدمہ پیش کرنے میں اپنی بساط سے بڑھ کر کوشش کی ، ہم لوگ تشدد اور تجدد کے بیچ میں اعتدال کی ایسی تنی ہوئی رسی پر چل رہے ہیں کہ جس کی دونوں طرف بہت گہری اور بھیانک گھاٹیاں ہیں…. ایسے میں اس بات کی ضرورت بڑی شدت سے محسوس کی جارہی تھی کہ قوم کے سامنے اسلام کا حقیقی پیغام پیش کیا جائے ،دینی مدارس کے کردار وخدمات سے دنیا کو آگاہ کیا جائے ،پاکستان کو درپیش مسائل وخطرات سے نمٹنے کے لیے اتحاد ویکجہتی کا مظاہرہ کیا جائے ،نظریہ پاکستان کے خلاف جاری سازشوں کی روک تھام کی سعی کی جائے ،پاکستانی نوجوان کی طرف بڑھنے والے تشدد کے سیلاب کا راستہ روکا جائے،بے حیائی کی آندھی سے اپنے بچوں اور بچیوں کی حفاظت کی جائے ،اس سلسلے میں مختلف کوششیں ہوئیں،حالیہ دنوں میں دینی مدارس کی ”بیداری مہم“ کے تحت ملک بھر میں بہت اہم اور کامیاب اجتماعات کا انعقا دہوا جن میں اکابر واصاغر کو باہم ملنے کا اور ایک دوسرے کو سننے سمجھنے کا موقع ملا ،یہ اجتماعات دینی مدارس کے شکستہ دل ذمہ داران اور اساتذہ وطلباءکے لیے حوصلہ افزائی کا سبب بنے ،بددلی کا شکار لوگوں کو امید کی کرن دکھائی دی،اس کامیاب تجربے کو مدنظر رکھتے ہوئے وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے قائدین نے ان اجتماعات کے بعد مینار پاکستان کے سائے تلے” استحکام مدارس و پاکستان کانفرنس “ کے نام سے ایک عظیم الشان اجتماع کے انعقاد کا فیصلہ کیا ۔

اللہ رب العزت کی رحمت سے امید ہے کہ یہ اجتماع اسلام کی حقیقی اور امن واعتدال پر مبنی تعلیمات کو دنیا کے سامنے لانے کا سبب بنے گا ،یہ اجتماع دینی مدارس کے کردار وخدمات کو اجاگر کرنے کا باعث ہو گا ،یہ اجتماع مدارس کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈہ کا توڑ بنے گا ،یہ اجتما ع اہلِ حق کی اجتماعیت اور شان وشوکت کا اظہار ہو گا ،یہ اجتماع نظریہ پاکستان کے خلاف ہونے والی سازشوں کے راستے کی رکاوٹ بنے گا ، یہ اجتماع پاکستان کے بہتر مستقبل کی نوید ہو گا ،یہ اجتماع پاکستان میں قیام امن کا پیش خیمہ بنے گا ،یہ اجتماع اہلسنت والجماعت علماءدیوبند کی اعتدال پر مبنی فکر کو عام کرنے کا باعث ہو گا ،یہ اجتماع اربابِ مدارس کو نیا عزم اور حوصلہ بخشے گا ،اس اجتماع سے نوجوانوں کو اپنی منزل کا سراغ ملے گا ،یہ اجتماع اتحاد ویکجہتی کا استعارہ اور امن وسکون کی علامت ہوگا ۔مینار پاکستان کے سائے تلے ہونے والا یہ اجتماع وقت کی پکار اور موجودہ حالات کا تقاضا ہے اور اس کی کامیابی کے لیے کردار ادا کرنا ہم سب کو دینی اور ملی فریضہ ہے۔ اس لیے اس اجتماع کی کامیابی کے لیے درج ذیل اقدامات اٹھانے اور ذمہ داریاں نبھانے کی ضرورت ہے۔

اجتماع کی کامیابی کے لیے خصوصی دعاؤں اور اذکار واوراد کا اہتمام کیا جائے خاص طور پر مدارس دینیہ میں سورہ یسین ،آیت کریمہ ،درود شریف اور صلوٰ ة الحاجت کا معمول بنایا جائے ۔
اس بات کا اہتمام کیا جائے کہ یہ اجتماع ملکی تاریخ کا سب سے بڑا ،سب سے موثر اور سب سے زیادہ بامقصد اجتماع ثابت ہو

٭….اجتماع میں بلاتفریق تمام طبقات اور تمام جماعتوں کو شرکت کی دعوت دی جائے گی اس لیے تمام علماءکرام اپنے علاقوں میں اس حوالے سے محنت فرمائیں ۔

٭….اس بات کا اہتمام کیا جائے کہ ہر کوئی اجتماع میں شریک ہو لیکن اگر کچھ احباب اجتماع میں شریک نہ ہو سکیں تو ان تک اجتماع کی دعوت اور پیغام ہر صورت میں پہنچانے کا اہتمام کیا جائے ۔

٭….ملک بھر کے تمام ڈویژنز اور اضلاع میں ،تمام شہروں میں اجتماع کی تیاری کے سلسلے میں اجلاس ،کنونشنز اور مشاورتی مجالس کا انعقاد کیا جائے ۔

٭….تمام مساجد کے ائمہ وخطباءاپنی اپنی مساجد میں مارچ کے مہینے کے تمام خطباتِ جمعہ میں اجتماع کے حوالے سے بار بار اعلانات فرمائیں اور ساتھیوں کو اجتماع میں شرکت کی ترغیب دیں ۔

٭….ہر جمعہ کے بعد مساجد کے باہر اجتماع کے حوالے سے ہینڈز بل تقسیم کیے جائیں ۔

٭….تمام دینی مجلات وجرائد اور قومی اخبارات میں اجتماع کے حوالے سے اشتہارات شائع کروائے جائیں ۔

٭….اپنے اپنے اضلاع کی ضلعی انتظامیہ ،قانون نافذکرنے والے اداروں ،میڈیا ،عدلیہ،تعلیمی اداروں ، تاجر برادری اور دیگر طبقات کو اہتمام کے ساتھ اجتماع میں شرکت کی دعوت دی جائے ۔

٭….ملک بھر کے اخبارات اور میڈیا میں اجتماع کے حوالے سے خبروں ،بیانات اور مضامین کی اشاعت کو یقینی بنایا جائے اور خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا کے ذمہ داران کو اس بات کا احساس دلایاجائے کہ وہ دینی طبقات اور دینی مدارس کو ان کے حجم اور حیثیت کے مطابق کوریج دینے کا اہتمام کریں ۔اس سلسلے میں خطوط لکھے جائیں ،فون کیے جائیں،ملاقاتوں کا اہتمام ہو …. اجتماع کے دوران میڈیا پر نظر رکھی جائے اور اگر حسبِ سابق اس عظیم الشان اجتماع کو الیکٹرانک میڈیا کی طرف سے نظر انداز کیا جائے تو اس پر فوری طور پر اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا جائے ۔

٭….تمام علاقوں کے علماءکرام اپنے علاقے کے چیمبر آف کامرس ،تاجر تنظیموں ،بار ایسوسی ایشنزاور دیگر طبقات کے مراکز کا وفود کی صورت میں دورہ کرکے اجتماع میں شرکت کی دعوت دیں ۔

٭….اجتماع میں بلاتفریق تمام مکاتبِ فکر کے وابستگان اور تمام دینی اور سیاسی جماعتوں کے قائدین کو مدعو کیا جائے اور کسی قسم کی تفریق روا نہ رکھی جائے ۔

٭….ملک بھر کے تمام چوکوں چوراہوں پر اجتماع کے حوالے سے بینرز اور پینا فلیکس آویزاں کیے جائیں تاکہ ملک کے ہر ہر فرد تک اجتماع کی دعوت اورآواز پہنچ جائے ۔

٭….طلباءکو ترغیب دی جائے کہ وہ اپنے والدین اور سرپرستوں کے ہمراہ اجتماع میں شرکت کریں تاہم کمسن طلباءکو اجتماع میں شریک نہیںکیا جائے گا ان کی جگہ ان کے سرپرستوں اور اہل خانہ کو اجتماع میں شرکت کی دعوت دی جائے ۔

٭….تمام مدارس اپنے قدیم طلباءاور اپنے فضلا ءکے نام خطوط لکھ کر انہیں ادارے کے قافلے کے ہمراہ اجتماع میں شرکت کا پابندبنائیں ۔

٭….بنات کے مدارس عموما ً اجتماعی معاملات میں شرکت سے محروم رہ جاتے ہیں اس اجتماع میں کوشش کی جائے کہ بنات کے سرپرستوں کی اجتماع میں شرکت کو یقینی بنایاجائے ۔

٭….اہل مدارس اور علماءکرام ملک بھر سے قافلوں کی صورت میں اجتماع میں شرکت کریں ،قافلے کے جملہ شرکاءکے ناموں اور فون نمبرز کی فہرست ساتھ رکھیں ۔

٭….قافلے کے جملہ شرکاءکے لیے پانی ،کھانے اور دیگر ضروریات کے بندوبست کانظم از خود بنائیں ۔

٭….اجتماع کے دوران پاکستان کے علاوہ کسی قسم کا کوئی پرچم نہیں ہوگااور نہ اسٹیج کے بغیر کوئی نعرہ لگایا جائے گا اگر کوئی ایسا نعرہ یا کوئی پرچم کسی کی جانب سے بلندکرنے کی کوشش کی جائے تو اسے روکنے کا اہتمام ہو۔

٭….اجتماع کے دوران نظم وضبط اور صبر وتحمل سے کام لیا جائے اور ہر قسم کی بدنظمی اور بے صبری سے گریز کیا جائے ۔

٭….اجتماع کی آڑ میں کسی بھی غیر ذمہ دارانہ بینر،نعرے یا سرگرمی کی سختی سے حوصلہ شکنی کی جائے ۔

٭….تمام علماءوطلباءمکمل طور پربیدار مغزی کا ثبوت دیں اور اس اجتماع کو سبوتاژ کرنے یا اس کے مقاصدکو متاثر کرنے والی کوششوں کی سختی سے حوصلہ شکنی کی جائے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے