صحافتی تنظمیں ، اینکرز اور سینئرز متوجہ ہوں

میں حالیہ دنوں میں ہونے والا ایک واقعہ احباب کے علم مین لانا چاہتا ہوں ۔ ہمارے سینئرز اس حوالے سے راہنمائی کریں کہ ہمیں ان حالات میں کیا کرنا چاہیے

گذشتہ دنوں لاہور میں سینئر صحافی کے ساتھ پولیس گردی کا ایک اور سانحہ پیش آیا ہے ۔

روزنامہ امت کے تحقیقاتی صحافی منصور اصغر راجہ کو پولیس نے اٹھا لیا ۔ یہ لاہور پولیس کا نیشنل ایکشن پلان تھا لیکن کارروائی سے ایسا لگتا ہے جیسے گنتی اور کارروائی پوری کی جا رہی تھی یا پھر کسی رپورٹ کا انتقام لیا گیا ہے ۔ بہر حال پولیس نے انہیں ہاسٹل پر چھاپہ مار کر اٹھایا اور پولیس اسٹیشن لے گئے ۔

وہ دس برس سے اس ہاسٹل میں رہائش پذیر ہیں اور اتنے ہی عرصہ سے لاہور میں بطور صحافی ملازمت کر رہے ہیں ۔

اس سے قبل وہ نوائے وقت گروپ سے منسلک رہے اور پھر روزنامہ امت لاہور بیورو کے انچارج بنے ۔

پولیس نے ان کا پریس کارڈ ، ڈی جی پی آر کا کارڈ اور لاہور پریس کلب کے کارڈ سمیت کسی بھی قسم کی شماختی دستاویزات کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ۔

ان کے کمرے سے جو کتب برآمد کی گئیں وہ مشہور آپ بیتیاں تھیں جو کہ دنیا بھر میں پڑھی جاتی ہیں اور پاکستان کے ہر اچھے بک سٹال پر موجود ہیں ۔

ان کی ایک چھپی ہوئی تحقیقاتی رپورٹ کی ابتدائی سورس گفتگو ایک رجسٹر سے دیکھ کر اس میں لفظ "ایکشن پلان ” تلاش کر لیا گیا ۔۔۔۔

خشونت سنگھ کی کتاب سے متعلق روزنامہ نئی بات کے ایک کالم نگار سے ہونے والی موبائل ایس ایم ایس چیٹ کو بھی مشکوک قرار دیتے ہوئے کارروائی کا حصہ بنایا گیا ۔

اتفاق سے اسی ہاسٹل کے ایک اور نوجوان نے ان کے گھر اس چھاپے کی اطلاع دی جس کے بعد خبر ان کے ادارے تک پہنچی اور وہاں سے نوٹس لینے پر اگلے روز انہیں پولیس اسٹیشن سے باعزت بری کیا گیا ۔ اگر بروقت ادارے کو خبر نہ ہوتی تو شاید ایک صحافی کتب پڑھنے کے جرم میں دہشت گردی کے مقدمے کا سامنا کر رہا ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔

سوال یہ ہے کہ ہمارے سینئرز کیا کر رہے ہیں ؟ جس طرح یونینز اور دھڑے بندیاں ہو رہی ہیں انہیں کب اور کس طرح سلجھایا جائے گا ؟؟؟

ان دھڑے بندیوں کا نقصان کسی اور کو نہیں صرف اور صرف ورکنگ جرنلسٹ کو ہو رہا ہے ۔۔۔۔۔

تاحال لاہور کے اس تحقیقاتی صحافی کی خاطر نہ تو کوئی احتجاج ہوا اور نہ ہی کوئی لیڈر کھڑا ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ واقعہ ان کی اپنی زبانی اس لنک پر موجود ہے ۔

کیا اب ہم اپنی کمیونٹی پر ہونے والے ظلم کے خلاف مذمت تک نہیں کر سکتے ؟ کیا سحافی تحقیقاتی رپورٹس کی بجائے اب صرف بیانیہ خبروں تک محدود رہیں اور کتب پڑھنا چھوڑ دیں ؟؟؟؟
آ پ سینئرز کی رائے درکار ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے