مذہبی اور سیکولر ملاؤں کے بیچ پھنسی رضیہ

مُلا کسی زمانے میں ایک خاص صلاحیت کے حامل شخص کو کہا جاتا تھا۔ اس اصطلاح نے زمانے کے کئی اتار چڑھاؤ دیکھے۔ وقت اب مابعد جدیدیت کی شاہراہ پر بے ہنگم دوڑ رہا ہے ۔ مجھے محسوس ہوتا ہے اب یہ لفظ کسی خاص پس منظر اور مخصوص حلیے کے حامل شخص کے ساتھ خاص نہیں رہا بلکہ ایک کیفیت بن چکا ہے ۔

ہمارے پڑھنے لکھنے والے حلقوں میں آج کل سیکولرازم اور اسلام کی بحث بہت زوروں پر دیکھ کر مجھے لگتا ہے کہ تاریخ کا پالا اب کی بار اس نئی قسم کے ملاؤں سے پڑا ہے ۔ایسا لگتا ہے ایک خلیج ہے اور دونوں جانب کچھ لوگ آستینیں چڑھائے کھڑے ایک دوسرے کو گھور رہے ہیں ۔دعوی دونوں کا ہے کہ وہ مکالمہ کر رہے ہیں مگر ان کی باچھوں سے جھاگ برابر اڑ رہا ہے ۔ دونوں جانب کے لوگوں نے اپنے تئیں کچھ ’’حقائق‘‘ طے کر رکھے ہیں اور گویا قسم کھائے ہوئے ہیں کہ ہم مکالمے کے عنوان سے محض دفاع کرنا ہے اور بس ۔

[pullquote]ممتاز قادری کی پھانسی ہی کو لیجیے ۔
[/pullquote]

مذہبی لوگوں کی رائے اس باب میں تو سب جانتے ہیں ۔ سال بھر اپنے مسلکی جلسے جلوسوں میں ایک دوسرے کے ایمان کی حقیقت اور اس کی ماہیت کی چھان پھٹک کرنے والے سبھی گروہ ایک طرف کھڑے تھے۔ وہ سب ممتاز قادری کو ایک ہیرو جتاتے تھے جس نے ایک "گستاخ” سلمان تاثیر کو بھون کر امت کی لاج رکھ لی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس حساس معاملے میں عشق ہی معیار ہے ،کسی قانونی ضابطے کی الجھن میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔ سو انہوں نے بڑی تعداد میں ممتاز قادری کے جنازے میں شرکت کر کے ثابت کر دیا بڑے جنازے جنت میں داخلے کی ضمانت ہوتے ہیں ۔

اس موقع پر دوسری جانب کے ملاؤں کا ردعمل بھی توقع کے عین مطابق تھا ۔ صبح سوشل میڈیا پر لاگ ان ہوتے ہی ایسی پوسٹوں سے پالا پڑا جن میں بداھیوں اور مبارک بادوں پر مبنی پیغامات تھے۔ ملاؤں کا یہ گروہ مقتول گورنر کو شہید اور ممتاز قادری کو مردود قاتل بتا ررہا ہے ۔ان لوگوں نے پورا دن سوشل میڈیا پر جشن کا سماں باندھ رکھا تھا گویا کوئی بڑا معرکہ سر کر لیا ہو ۔یہ ملا لوگ پنجاب میں تحفظ خواتین بل کی منظوری ، شرمین عبید چنائے کے آسکر ایوارڈ اور ممتاز قادری کی پھانسی پر جشن منا رہے تھے۔

ممتاز قادری گورنر کی حفاظت پر مامورتھا۔ اس کا خیال تھا کہ سلمان تاثیر نے گستاخی کی ہے لہذا موقع ملتے ہی اپنی سرکاری بندوق کا دھانا سابق گورنر پر کھول دیا۔ موقع پر گرفتار کر لیا گیا۔ ٹرائل کے دوران اپنے فعل کو عظیم دینی خدمت قرار دیتے ہوئے قتل کا اعتراف کیا۔ بات بالکل واضح تھی ۔ عدالت نے فیصلہ سنا دیا۔ اپیل ہوئی تو عدالت عظمیٰ تک بات چلی گئی ۔جہاں یہ ثابت ہوا کہ ممتاز قادری نے جرم کا ارتکاب کیا ہے۔میرے خیال میں اسے جو سزا ملی کورٹ کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں بچا تھا۔ ہاں صدرمملکت کے پا س غالباً یہ اختیار تھا کہ اس کی سزا کو عمر قید کر دیتے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔میں نے دیکھا کہ جب کچھ احتجاجی لوگوں کو یہ جواب دیا گیا کہ ممتاز قادری تو عشق رسالت میں جان قربان کر نا چاہتے تھے ۔ جب ان کی دلی چاہت پوری ہوگئی تو احتجاج چہ معنیٰ دارد؟ تو ان کے پاس خاموشی کے سوا کچھ نہیں تھا۔

اب آتے ہیں مکالمے کی جانب۔ مکالمے کا مقصد باہم بات چیت اور گفت و شنید کے ذریعے کسی نتیجے پر پہنچنا ہوتا ہے ۔ دونوں جانب سے کسی موضوع یا مسئلے پر دلیل کے ساتھ بات کی جاتی ہے۔ اس بحث کے بعد سامنے آنے والے نتیجے میں ایسے مشترک نکات سامنے آتے ہیں،جو کافی حد تک جانبین کے لیے تسلی بخش ہوتے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں جو مکالمہ ہو رہا ہے وہ مجھے مکالمہ کم مدافعہ زیادہ محسوس ہو رہا ہے ۔ لوگ اپنی اپنی حقیقتیں طے کر کے صرف ان کے دفاع کے لیے میدان کارزار جمائے ہوئے ہیں۔ ہر دو فریق کا خیال ہے کہ ان ہی کی پیش کردہ تھیوری ہی سماج کو بہتر اندازمیں لے کر چلنے کی صلاحیت رکھتی ہے جبکہ سامنے والا ازکار رفتہ خیالات کی ڈگڈگی بجا رہا ہے ۔ اس قسم کے مباحثوں سے وقت اچھا کٹ جاتا ہے مگر سماج میں سوائے کنفیوژن کے کچھ بھی ڈیلیور نہیں ہوتا۔ کٹ حجتی بھلا کہاں مثبت رویوں کو جنم دے سکتی ہے ؟

بھانت بھانت کے نظریات کی کھونٹیوں سے بندھے میرے یہ مناظرے باز دوست اس حقیقت کو نہ جانے کیوں بھول رہے ہیں کہ سماج صرف فیس بک نامی ویب سائٹ کا نام نہیں ہے ۔ صرف برقی سوشل میڈیا کا ردعمل ہی پاکستان کے تمام طبقات کا ردعمل نہیں ہے اور نہ ہی ان کا سراہناحقیقی اور مکمل تحسین ہے۔ اس ملک میں ہر طرح کے لوگ ہیں اور ایسے لوگوں کی کثرت ہے جنہیں اینڈرائیڈ سیل فون اور لیپ ٹاپ کی سہولت میسر نہیں۔ ان کے مسائل نظریاتی کم ، انسانی زیادہ ہیں۔ انہیں آپ کی ان پراسرار پٹاریوں سے کوئی غرض نہیں جن میں سے وقفوں وقفوں سے رنگ برنگے سانپ نکالے جاتے ہیں۔ نہ انہیں ان مجمعوں سے کوئی غرض ہے جوان رقص کرتے ست رنگے سانپوں کے گرد لگتے ہیں۔ ان کے سامنے زندگی کے حقیقی مسائل ہیں ۔ان کے دن رات انہی مسائل سے لڑتے لڑتے کٹ رہے ہیں ۔

گئے وقتوں میں لوگ پرانے کپڑے ادھیڑ کے پھر سے سینے کی ترغیب دیا کرتے تھے مگر اب اس کہنہ شعار کی حاجت نہیں۔ بہت کچھ میسر ہے اس کے سوا اور بھی۔ بس اس ’’اوربھی‘‘ کے چکر میں رضیہ ہمیں بے بس نظر آ رہی ہے ۔ اسے دوطرف کے انتہا پسندوں نے یرغمال بنایا ہوا ہے اور وہ بے چاری کنفیوژ ہے اور خوفزدہ بھی ۔

آپ کا شوق سلامت رہے لگے رہیے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے