القاعدہ سربراہ اسامہ بن لادن کی دستاویزات کا دوسرا حصہ جاری

امریکی حکام نے سنہ 2011 میں پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں القاعدہ کے سربراہ اُسامہ بن لادن کے مکان سے ملنے والی دستاویزات کا دوسرا حصہ جاری کر دیا ہے۔

حکام کی جانب سے جو 115 دستاویزات جاری کی گئی ہیں، جس میں القاعدہ کے رہنما کی وصیت بھی شامل ہے۔ دیگر دستاویزات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اُسامہ بن لادن کو الیکٹرانک طریقے سے جاسوسی کا خطرہ تھا۔ یہاں سات چیزیں ہیں جو ہم نے سیکھی ہیں۔

1۔میری وصیت پر عمل کرنا

اُسامہ بن لادن نے اپنی ہلاکت کے بعد تقریباً دو کروڑ 90 لاکھ امریکی ڈالر ورثے میں چھوڑے ہیں۔

اُنھوں نے اپنے خاندان کو ہدایت کی تھی کہ ’میری وصیت پر عمل کرنا‘ اور خدا کی رضا کے لیے میرے اثاثے ’جہاد‘ پر خرچ کرنا۔

اُنھوں نے سوڈان میں موجود رقم کا حوالہ دیا، لیکن یہ بات واضح نہیں ہے کہ یہ رقم بطور نقد یا اثاثوں کی صورت میں موجود ہے۔

بن لادن نے 1990 کی دہائی میں بطور سوڈانی حکومت کے مہمان، پانچ سال سوڈان میں گزارے تھے۔

2۔اہلیہ کے دانت کے ذریعے سے جاسوسی کا خوف

جاسوسی کا ڈر بن لادن کی تحریروں میں واضح نظر آتا ہے۔

دنیا کے سب سے مطلوب شخص ایران میں مقیم اپنی ایک اہلیہ کو لکھے گئے خط میں اپنے اِس ڈر سے پردہ اُٹھاتے ہیں کہ دندان ساز کیویٹی کا آپریشن کرتے ہوئے اُن کے دانت میں ’الیکڑانک ٹریکنگ ڈیوائس‘ یعنی کہ جاسوسی کا آلہ نصب کرسکتے ہیں۔

عبداللہ کے نام سے تحریر کردہ خط میں وہ کہتے ہیں کہ ’آلے کا حجم گندم کے دانے جتنا لمبا اور اُس کی چوڑائی سویّوں کے ٹکڑے جتنی ہوگی۔‘

بن لادن ایک اور خط میں رقم کی منتقلی کے حوالے سے پریشان محسوس ہوتے ہیں۔

اُنھوں نے منتظمین کو ہدایت کی کہ جن سوٹ کیسوں میں رقم منقتل کی جاتی ہے، اُن کو تباہ کردیا جائے۔

اُنھیں اِس بات کا ڈر تھا کہ اِس میں جاسوسی کے آلے ہوسکتے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ رقم گاڑیوں میں منتقل ہونی چاہیے اور اِس کے لیے اُن دنوں کا انتخاب کیا جائے، جب بادل زیادہ ہوں۔

اُنھیں خطرہ تھا کہ گاڑی کو ڈرون سے بھی نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔

3۔دولت اسلامیہ سے اختلاف

متعدد دستاویزات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اُنھیں عراق میں القاعدہ سے منسلک تنظیموں سے اختلاف تھا، بعد میں یہی خود کو ’دولت اسلامیہ‘ کہلانے والی تنظیم بن گئی تھیں۔

بن لادن نے اُس وقت القاعدہ فی العراق کی جانب سے سر کاٹنے اور دیگر وحشیانہ کارروائیوں کی بھر پور مذمت کی تھی۔

وہ لکھتے ہیں کہ ’ہمیں جنگ کو اپنے اوپر حاوی نہیں کرنا ہے، اِس کا ماحول، حالات، نفرت اور بدلہ ہمیں گمراہ کر سکتا ہے۔‘

بن لادن نے القاعدہ فی العراق کی جانب سے خلافت کے اعلان کے منصوبے کی بھی بھرپور مخالفت کی تھی۔

اُن کا ماننا تھا کہ القاعدہ کے پاس مطلوبہ حمایت اور درپیش مسائل سے نمٹنے کے وسائل نہیں ہیں۔

4۔اختیارات کی جنگ

دستاویزات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ القاعدہ کی مختلف تنظیموں پر کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے اندرونی کشمکش جاری تھی۔

دستاویزات میں اِس بات کا بھی انکشاف ہوا کہ متحد انتظامی ڈھانچہ اپنانے کی کوشش بھی کی گئی تھی۔

خاکہ میں کہا گیا کہ ’چیف آف سٹاف کمیٹی‘ اِس کے علاوہ ’فوجی رہنما کے ساتھ کام کی قابلیت رکھنے والے افسران اور اہلکار‘ اور اپنے کاموں کی فہرست مرتب کریں۔

یمن میں موجود القاعدہ کی تنظیم کو لکھےگئے خط میں نصیحت کی گئی تھی کہ وہ ’اپنے آپریشن کو امریکہ تک وسعت دیں‘ اور امریکی جہازوں کو تباہ کرنے کی کوششوں سے آگے بڑھیں۔

سنہ 2011 بن لادن کے لیے بہت اہمیت کا حامل تھا۔

اُنھوں نے تنظیم کے نائن الیون کے حملوں کی دسویں برسی کی کوریج کا بندوبست کرنے کے لیے ذرائع ابلاغ کے بعض اداروں کے ساتھ کام کرنے کی تجویز دی تھی۔

تاہم یہاں کسی حملے کے منصوبے کے حوالے سے کوئی گفتگو نہیں کی گئی تھی۔

بن لادن خود بھی ایبٹ آباد کے گھر سے منتقل ہونے کا سوچ رہے تھے۔

وہ لکھتے ہیں کہ ’اپنے موجودہ ساتھی بھائیوں کے ساتھ جُڑے رہنے کا حالیہ وقت واشنگٹن اور نیویارک پر حملے کی دسویں برسی ہے جو کہ اب سے چند ماہ بعد اسی سال یعنی سنہ 2011 کے اختتام پر ہے۔‘

تاہم وہ برسی سے قبل ہی ہلاک ہوگئے تھے۔

6۔جہاد کی درس گاہ

اِن دستاویزات میں نئے آنے والے جہادیوں کے لیے ’اسلامی مطالعہ کا مضمون برائے سپاہی اور اراکین‘ کے نام سے ایک سبق بھی شامل ہے۔

قرآن کی بنیاد پر طویل پڑھنے کی فہرست میں درس و تدریس، پڑھائی اور لکھائی یعنی کے تحریر اِس کا اوّلین نمونہ ہے۔

لیکچر کے تیسرے حصے میں عصر حاضر کے جہادیوں جیسے کہ اردن کے ابو مصعب الزرقاوی کی کتابیں شامل ہیں جو القاعدہ فی العراق کے رہنما تھے۔

7۔میدان جنگ میں بیویوں کی موجودگی

کیا القاعدہ کے کمانڈروں کو میدان جنگ میں اپنی بیویاں رکھنے کی اجازت دی جانی چاہیے، دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تنظیم میں ایک متنازع مسئلہ رہا ہے۔

مراکش میں القاعدہ کی شاخ کی دستاویز بعنوان ’میدان جنگ میں جہادیوں کی بیویوں کی موجودگی‘ میں کمانڈروں کو ہدایات جاری کی گئی تھی کہ جن کی بیویاں وہاں موجود ہیں، اُن کو واپس بھیجا جائے۔

دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ ’جہاد میں خواتین کی ضرورت نہیں ہے‘ اور اِس میں کہا گیا ہے یہاں ’میدان جنگ کے محفوظ علاقوں میں عمر رسیدہ خواتین رکھنے کی اجازت تو ہے لیکن نوجوان نہیں‘ تاکہ جنگجوؤں کو بھٹکنے سے روکا جائے۔

اِس میں کہا گیا ہے کہ ’ہم اپنے بھائیوں سے معاملہ فہمی اور تعاون کے طلبگار ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے