زخم دل جیت کر،نقدجاں ہار کر

[pullquote]ہم نے رسم محبت کو زندہ کیا،زخم دل جیت کر،نقدجاں ہار کر
[/pullquote]

حسد کے مارے ہوئے کچھ کالے دل والوں نے تحریکِ اہانت رسول شروع کی ۔اس تحریک کا مقصد مسلمانوں کے تن بدن سے روح محمد کو نکالناتھا ۔اس تحریک کے تحت پیغمبرآخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات کو ہدف بنایا گیا۔کہیں دلآزار،شرانگیز اور توہین آمیز خاکے بنائے گئے،کہیں منظم منصوبہ بندی کے تحت ہرزہ سرائی کروائی گئی ، عجیب وغریب حرکتیں اور نت نئے حربے اختیارکیے گئے ، وقفے وقفے سے ایسی اوچھی حرکتیں ہوتی رہیں جن کے ذریعے یہ کوشش کی گئی کہ مسلمانوں کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت والفت کا والہانہ پن ختم کردیاجائے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت وناموس کے معاملے میں مسلمانوں کی حساسیت کا گراف وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کم سے کم تر ہوتا چلاجائے ،مسلمانوں کے لئے اہانت رسول ایک معمول کی بات بن جائے…. یوں تو دنیا کے مختلف خطوں میں یہ شرانگیز تحریک جاری رہی مگر پاکستان اس کا مرکزی ہدف تھا۔ پاک وطن میں انسدادِ توہین رسالت کا قانون اور پاکستانی مسلمانوں کی مذہبی غیرت بطور خاص نشانے پر تھی ۔

دنیاکو فتنوں میں مبتلاءکرنے والوں نے اپنی تجوریوں کے منہ کھولے، ایک مافیاکی پرورش کی ،بے حیائی کے پرچارک ،شراب کے رسیا اور مغربی تہذیب وتمدن کے دلدادہ کچھ نام نہاد روشن خیالوں کو خرید ااورانہیں انسدادِ توہین رسالت قانون کو ختم کرنے کی مہم پر لگا دیا۔پہلے اکادکاآواز یں اٹھناشروع ہوئیں، کسی نے اس قانو ن کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا، کسی نے اس قانون کو انتہا پسندی کی علامت کہا ، کسی نے دہشت گردی کے ڈانڈے اس قانون سے جوڑنا شروع کیے ۔

پانچ ستارہ ہوٹلوں میں سیمینار ہونے لگے، پروجیکٹ تیار ہوئے ،ورکشاپس ہوئیں، مباحثے رکھے گئے،ٹاک شوز ہوئے ، اراکین پارلیمنٹ اور اراکینِ سینٹ پر ڈورے ڈالے جانے لگے ، این جی اوز کی ان حیاءباختہ بیگمات اور آوارہ مزاج لوگوں کے اس مافیا کو پرویز مشرف کے دور اقتدار میں روشن خیالی کے عنوان سے خوب پھلنے پھولنے کا موقع ملامگراس مافیا کو جائے اماں گورنرپنجاب سلمان تاثیر کے چرنوں میں ملی ، سلمان تاثیر نے مغربی ایجنڈے کو فروغ دینا شروع کیا ،وہ پاکستان میں لبرل ازم کی علامت قرار دیاجانے لگا، سیکولر ازم کے استعارے کے طور پر ابھرنے لگا اس حد تک تو سب نے گواراکیا لیکن اس وقت قوم کا ضبط ٹوٹ گیا جب اس نے شیخوپورہ کی ایک ایسی خاتو ن جو توہین رسالت کے الزام میں جیل میں تھی اسے ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں اہانتِ رسول کی تحریک کو بڑھاوا دینے کی کوشش کی۔

گورنر پنجاب نے انسداد توہین رسالت کے قانون کو کالا قانون قرار دیا، سلمان تاثیر کی لابی اور اس کے پیچھے کھڑے عالمی شرانگیزوں اور فتنہ پروروں نے تیزی سے اپنے پتے کھیلنا شروع کیے، ایسے میں اس شرانگیز ی کے خلاف پوری پاکستانی قوم کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آیا،ملک بھر میں جلوس نکلنے لگے ،ہرگلی کوچے میں نعرے گونجنے لگے ،تحریک حرمت رسول چلی ،بچے بڑے مختلف انداز سے اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی وابستگی اور عقیدت ومحبت کا اظہار کرنے لگے ،قراد دادیں منظور ہوئیں، کتابیں لکھی گئیں ،مضامیں چھپے ،ایام احتجاج اور ایام مذمت منائے گئے ، ٹاک شوز ہوئے،مباحثے اور مکالمے ہوئے لیکن سلمان تاثیرکا کوئی کچھ نہ بگاڑ سکا ،اس کی شرانگیزیوں کا کوئی نوٹس نہ لیا گیا، ،تحریک اہانت رسول میں پیش پیش مٹھی بھر عناصر کو کوئی لگام نہ دی جا سکی،سلمان تاثیر کے محاسبے کی کوئی شکل سامنے نہ آئی اور نہ ہی اس کی ہٹ دھرمی میں کوئی کمی دیکھنے میں آئی ، ایسی صورتحال نے پوری قوم کو زچ کر کے رکھ دےا ،تحریک حرمت رسول تو چل رہی تھی مگر اس کی منزل کسی کو دکھائی نہیں دے رہی تھی ،اس تحریک کا نتیجہ اور حاصل وصول کیا تھا؟ ہر کوئی اس سے بے خبر تھا…. ایسے میں سلمان تاثیر کی حفاظت پرمامورممتاز قادری نامی ایک عام اور گمنام سے سپاہی نے سلمان تاثیر پر فائرنگ کر کے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا۔

سلمان تاثیر کے قتل کے بعد ملک بھر میں سناٹا چھا گیا ،اس کی موت کے ساتھ ہی پاکستان میں تحریک اہانت رسول دم توڑ گئی ،سلمان تاثیر کی نمازِ جنازہ پڑھنے کا مرحلہ آیا تو کوئی اس کی نمازِجنازہ تک پڑھنے کے لئے تیار نہ ہوا،امام ڈھونڈا گیا،بادشاہی مسجد کے خطیب اور سرکاری ملازم مولانا عبدالخبیر آزاد اپنی ملازمت داﺅ پر لگاکر جنازہ پڑھانے سے مکر گئے ،کئی علماءکو” اپروچ“ کیا گیا لیکن کسی نے ہامی نہ بھری اور بالآخر تاثیر کلب کے چند ممبران نے گورنر پنجاب کی آخری رسومات ادا کیں اور اسے مٹی کے حوالے کر دیا گیا۔

سلمان تاثیر کے قتل کے بعد ممتاز قادری کو جیل میں ڈال دےا گےا ، تاثیر کلب کے ممبران اور موم بتی مافیا نے دنیا بھر میں دہائی دی اور اپنے دیرینہ سرپرستوں کو تعاون پر آمادہ کر لیا اورممتاز قادری کو پھانسی دینے کی مہم شروع ہوگئی جبکہ دوسری طرف ممتاز قادری کی رہائی کی تحریک بھی جاری رہی ،مقدمہ بھی چلتا رہا،اسی کشمکش میں طویل عرصہ گزر گیااور کوئی فیصلہ نہ کیا جا سکا نہ پھانسی کا نہ معافی کا …. پھر وقت نے کروٹ لی اور پاکستان میں تحریک اہانت رسول چلانے والوں نے بالواسطہ طور پر اس ملک کو انسداد توہین رسالت کے قانون سے لے کر اسلامی آئین تک ہر اسلامی حوالے سے محروم کرنے کے جتن شروع کر دئیے اور اب صرف ایک قانون نہیں بلکہ پاکستان کی نظریاتی اساس اور نظریے پر حملہ کیا گیا اورلبرل ازم اور سیکولرازم کا پرچار کیا جانے لگا،بات این جی اوز کے دفاتر اور پانچ ستارہ ہوٹلوں سے نکل کر حکومتی ایوانوں تک جاپہنچی اور کلمہ طیبہ کے نعرے اور اسلام کی بنیاد پرمعرض وجود میں آنے والی مملکتِ خداد کے” اسلام پسند“ وزیر اعظم بھی اس وطن کے مستقبل کو لبرل ازم سے وابستہ کرنے لگے ،وہ حکمران جو قوم تو کیا اپنی پارٹی کے رہنماﺅں تک کو میسر نہیں ہوتے وہ دنیا کے سامنے پاکستان کا چہرہ مسخ کرکے پیش کرنے والے فلم میکروں کی پشت پناہی کرنے لگے ،وہ ہولی اور دیوالی کی تقریبات میں تو بے تابانہ شریک ہوتے مگرانہیں قومی سیرت کانفرنس اور دیگر اسلامی سرگرمیوں میں شرکت کی توفیق نہ ہوتی،لبرل ازم کے فروغ کے لیے پاکستان میں دینی مدارس پر چھاپے مارے جانے لگے، تبلیعی جماعت پر قدغنیں لگائی گئیں ،مساجد پر سے لاﺅڈاسپیکر اتارے جانے لگے ،حقوقِ نسواں کے نام سے پاکستان کی تہذیبی شناخت مسخ کرنے اور پاکستان کے خاندانی نظام کو تہہ وبالا کرنے کی کوششیں کی جانے لگیں ،پاکستان میں مذہبی طبقات کے گرد گھیرا تنگ ہونے لگا اور موم بتی مافیا کو کھل کھیلنے کا موقع دیا گیا ….ایسے ماحول میں جب پاکستان میں بظاہر اسلام پسند سمجھے جانے والے حکمرانوں نے لبرل ازم اورسیکولرازم کو فروغ دینے کا بیڑہ اٹھارکھا تھاور اس حوالے سے کئی علامتی اقدامات اٹھائے جا رہے تھے ایسے میں رات کے اندھےرے مےں ممتازقادری کو اڈیالہ جیل میں پھانسی دے دی گئی۔

سلام اس پر کہ جس کے نام لیوا ہر زمانے میں
بڑھا دیتے ہیں ٹکڑا سرفروشی کے فسانے میں

ممتاز قادری کو پھانسی دیتے ہوئے شایدیہ سمجھا گیا ہوگا کہ لبرل ازم اور سکولرازم کی فتوحات کا ایک اور پرچم گاڑھ دیا گیا ہے ، جونہی ممتاز قادری کی پھانسی کی خبر منطر عام پرآئی توموم بتی مافیا بغلیں بجانے لگا ،پاکستان میں سیکولرازم اور لبر ل ازم کے علمبردار خوشی کے شاد یانے بجانے لگے ،انہوں نے سمجھا کہ وہ ایک بہت بڑا”ٹارگٹ اچیو“ کر چکے لیکن اچانک منظر نامہ بدل گیا اور ساری بازی ہی الٹ کر رہ گئی ، ممتاز قادری کا جسد خاکی جب ان کے گھر لایا گیا تو راولپنڈی کے ایک بے نام سے محلے کی تنگ وتاریک گلیوں میں واقع ان کا گھر کہکشاں بن کر جگمگ کرنے لگا اورپورے ملک کے مسلمانوں کی دلی تمناﺅں اور امیدوں کا مرکز بن گیا۔

لوگ دیوانہ وار ممتاز قادری کے جسدِ خاکی کو بوسے دینے چلے آئے،مرد عورتیں ،بچے بڑے ،بوڑھے جوان سب عقیدت ومحبت کی تصویر بن گئے ،ملا اور مسٹر کی تفریق مٹ گئی،مسلکی جھگڑے بھلا دیئے گئے ،ممتاز قادری کی نماز جنازہ کی لیاقت باغ میں ادائیگی کا اعلان ہوا تو پورا ملک سراپا اشتیاق بن گیا ،دن دو بجے جنازے کا اعلان ہوا لیکن لوگوں نے رات کو ہی آکر لیاقت باغ میں ڈیرے ڈال دیئے،ملک بھر میں احتجاجی جلوس نکلنے لگے ، مساجد میں اعلانات ہونے لگے ،ممتاز قادری کے درجات کی بلندی کے لیے دعائیں کی جانے لگیں ،یکم مارچ کو راولپنڈی شہر عید کا منظر پیش کر رہا تھا ،تعلیمی ادارے اور کاروباری مراکز بند کر دیئے گئے تھے ، پورے شہر کی پھولوں کی دکانوں سے پتیاں اور پھول ختم ہو گئے ،ممتاز قادری کے جسد خاکی ، ان کے جسد خاکی والی ایمبولینس بلکہ ان کے جنازے کی گزرگاہوں پر منوں پتیاں نچھاور کی گئیں ،لیاقت باغ اور اس سے ملحقہ سڑکوں اور بازاروں میں سر ہی سر نظر آرہے تھے، وارث خان سے لےکر مریڑ چوک تک اور فوارہ چوک سے لے کر موتی محل تک ہر گلی کوچے میں عاشقان مصطفی دکھائی دے رہے تھے، اولیائے کرام ممتاز قادری کی میت کو کندھا دینے کے لئے بے تاب تھے ، شیوخ الحدیث ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لیئے مضطرب تھے،ایسے لوگ جو عام حالت میں مسجد جانے سے کتراتے ہیں وہ بھی جنازے کے لئے کھنچے چلے آتے تھے، بڑے بڑے رئیس زادے سڑکوں پر پڑے تھے ،لوگوں کا جوش و خروش دیدنی تھا ،ایسا والہانہ پن ،ایسے ا یمان افروز مناظر ،ایسے روح پرور لمحات ….اﷲاﷲ…. کبھی کتابوں میں پڑھا کرتے تھے ….کبھی بڑوں سے سنا کرتے تھے ….کبھی تصور بھی نہ کیا تھا کہ زندگی میں ایسے مناظر بھی دیکھنے کو ملیں گے ۔

پورا دن مجسمہ حیرت بنے بے بسی سے سوچتا رہا کہ اس جنازے کی رپورٹ کیسے لکھوں گا؟آنے والی نسلوں کے لیے ان تاریخی لمحات کو کیسے قلمبندکروں گا؟ اس پر مضمون کیا باندھوں گا؟ پریس ریلیز کے الفاظ کیا ہونگے ؟کالم کا عنوان کیا ہوگا ؟ خبر کا انٹرو کیا بنے گا ؟ اخبار کی سرخی کیا نکلے گی ؟ لکھتے ہوئے کبھی ایسی بے بسی کا سامنا نہےں کرنا پڑا جس مشکل کا اس دن سامنا تھا ….لکھنے بیٹھا تو برادرعزیزعبدالرﺅف کو ساتھ بٹھایا ….برسوں سے نیوز ڈیسک پر سرخیاں نکالنے اور لوگوں کی بنائی ہوئی خبروں اور رپورٹوں کی نوک پلک سنوارنے والے فاضل نوجواں نے بھی ہاتھ کھڑے کر دیئے،باربار پوچھا کیا کروں؟کیا لکھوں؟مگر جواب میں صرف خاموشی …. پھر یکا یک میرے رب نے کرم فرمایا،ذہن میں ایک روشنی سی کوندی اور دن بھر کے سارے مناظر ،سارے ولولے،سارے جذبے ، سارے نقشے ،سارے نعرے ایک لفظ میں سمٹ کر رہ گئے اور وہ لفظ تھا ”ریفرنڈم“ ….ممتاز قادری کی نمازجنازہ کا اجتماع سچ مچ ریفرنڈم تھا۔سیکولرازم اور لبرل ازم کے علمبرداروں اور پشتیبانوں کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں، جی ہاں! وہ صرف ایک جنازہ نہیں تھا، وہ ایک پولیس کانسٹیبل کا سفر آخرت نہیں تھا بلکہ ایک سچے عاشق رسول کو الوداع کہنے کا مرحلہ تھا ۔ جنازے کی شکل میں ہونے والے اس ریفرنڈم نے پاکستان کے حال اور مستقبل کا ناک نقشہ واضح کردیا تھا ،اس جنازے کی وجہ سے جس جس کو تکلیف ہوئی وہ مسلسل کراہ رہے ہیں اورسدا کراہتے رہیں گے ۔ایمان اور غیرت کی دولت سے مالا مال پاکستانیوں کو اس بات کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ ان فلسفوں میں الجھیں کہ ممتاز قادری نے کس قانون کے تحت یہ قدم اٹھایا؟کس سے فتوی ٰ لیا ؟کس سے مشورہ کیا ؟ کس سے شہ پائی ؟ یہ سب سوال اب بے معنی ہو کر رہ گئے ہیں کیونکہ وہ ریاست جس کو کلمہ طیبہ کے نام پر حاصل کیاگیاتھا ،جہاں اسلام کے نفاذ کے خواب دکھائے گئے تھے ،جس منزل کے حصول کے لئے لوگوں نے آگ اور خون کے دریا عبور کئے تھے اورجس عمارت کی بنیادوں میں ہزاروں بہنوں کی عصمتوں اورلاکھوں لوگوں کا لہو شامل ہو وہاں جب اسلامیانِ پاکستان کو کسی قانون اور قاعدے کی رو سے دینی معاملات میں اطمینان حاصل نہ ہو پائے ،ایسی ریاست کے باسی بھی اگر اپنی جانیں اور اولاد ہی نہیں اپنے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کی عزت وناموس کے معاملے میں بھی عدمِ تحفظ کا شکار ہوں تو پھر وہ نہ کسی دارالافتاءکا رخ کریں گے اور نہ کسی قانون دان سے رہنمائی لیں گے ،وہ کسی دانش ور کی دانش کو خاطر میں لائیں گے نہ کسی واعظ کی مصلحتوں کا منجن خریدیں گے ،وہ کسی مداہنت کی لوری پر آنکھیں موندیں گے اور نہ ہی مفادات کے کسی جال میں الجھیں گے۔ ان کے پاس صرف ایک ہی راستہ بچ جاتا ہے اور وہ ممتاز قادری والا راستہ ہوتا ہے۔

لوگ پوچھتے ہیں ریمنڈڈیوس کو پروٹوکول کے ساتھ الوداع کیا جاسکتا ہے تو ممتاز قادری کی ریلیف کیوں نہیں دیا جاسکتا ؟گستاخان رسالت پر آج تک کوئی قانون لاگو نہیں ہوا تو ممتاز قادریوں کو کیوں پھانسی کا پھندا چومنا پڑتا ہے؟اس دوہرے معیار کا لوگوں کو جواب چاہیے ؟ لوگ ان دوغلی پالیسیوں کی” لاجک“ جاننا چاہتے ہیں اگر انہیں ان سوالا ت کا جواب نہیں ملے گا تو بات نہیں بنے گی ۔الیکٹرانک میڈیا پر بلیک آوٹ کروائیں گے تو سوشل میڈیا میں قادری قادری ہو جائے گی ،سوشل میڈیا چھین لیں گے تو سینہ گزٹ بروئے کار آئے گا ،مولوی نہیں ہوگا تو پولیس والا اٹھ کھڑا ہو گا…. علماءکو فورتھ شیڈول میں ڈال دیں،مدارس کے باہر پہرے لگادیں ،تبلیغی جماعت کی مُشکیں کس ڈالیں ،ہونٹوں پر تالے چڑھا دیں،قلم کو زنجیروں میں جکڑ دیں جو مرضی کریں اگر جبر کا یہی ماحول برقرار رہا اور لوگوں کو کوئی ”وے آوٹ“ نہ دیا گیا تو کوئی بھی کسی بھی وقت اچانک ممتاز قادری بن سکتا ہے ….ایسا ممتاز قادری جس کا دارالافتاءاس کا سینہ ہوتا ہےاورجس کا مفتی اس کا دل ہوتا ہے۔

رہنے دیجئے ان سارے جھمیلوں کو کہ ترکھان کا بچہ بازی لے گیایا پولیس کی وردی جیت گئی؟یہ مقدر کے قصے اور نصیبے کی باتیں ہیں جو محض نصیب والوں کے حصے میں آتی ہیں ۔فتوی ٰ کس نے دیا ؟دوسروں کو قتل کرنے اور ان کا لہوبہانے کے سرٹیفکیٹ کس نے بانٹے ؟….کسی مستند دارالافتاءاور کسی معتمد ہستی نے نہیں….کبھی نہیں ….لیکن کیا کیجیے کہ منظر نامہ ایسا بدل سا گیا ہے کہ جب بھی کوئی خطیب کسی منبر پر بیٹھ کر فرد اور ریاست کی بحث چھیڑتا ہے ،جب برداشت، برداشت کے بھاشن دینے کی کوشش کی جاتی ہے ،جب یہ تلقین کی جاتی ہے کہ کسی کو کسی دوسرے کی جان لینے کا کوئی حق نہیں،اشتعال اچھی بات نہیں ،غیرت کا کوئی وجود نہیں تو لوگ پوچھتے ہیں اپنے ماں باپ کے لیے ،اپنی ذات کے لیے اور اپنے مفادات کے لیے تو سب چلتا ہے لیکن دین اور پیغمبر اسلام کی جب بات آئے تو پھر کیوں کچھ نہیں ؟اور ہاں !اب وہ زمانے لد گئے جب لوگ سر نیہو ڑائے ہر بات سنتے اور بلادلیل مانتے چلے جاتے تھے ،لفاظی اور شعلہ بیانی کے سحر میں مبتلاءہو جایا کرتے تھے…. اب پرانا دور نہیں رہا اب لوگ سوال اٹھاتے ہیں آخر ہم کریں تو کیا کریں ؟….جائیں تو کہاں جائیں ؟

….کوئی قانونی راستہ ؟….کوئی سبیل ؟…. شرانگیزی اور گستاخی کی کوئی بریک ؟…. کوئی حل ؟…. اور جب لوگوں کو کوئی قانونی حل دکھائی نہیں دیتا ،ریاست ان کو اطمینان نہیں دلاتی تب وہ ممتاز قادری بنتے ہیں….ممتاز قادری پر تبرانہیں شکستہ دل نوجوان کو کوئی قانونی راستہ ،کوئی آئینی حل دلوانے کی بات کیجیے ….یاد رکھیے!ممتازی قادری اور غازی علم دین ایسے لوگ فیس بک کی پوسٹیں پڑھتے ہیں نہ ٹوئٹس کو سامنے رکھ کر اپنے راستے تراشتے ہیں ….براہ مہربانی ملا کو الزام اور دشنام مت دیجیے ممتاز قادری ایسے لوگوں کا نہ کوئی مسلک ہوتا ہے اور نہ ان کا کوئی امام….یہ دل کی باتیں ہیں اور انہیں دل والے ہی جانتے ہیں …. اب کسی تقریر اور تحریر سے جذبات کے اس طلاطم کو قابو کرنا ممکن نہیں کیونکہ ممتاز قادری اب ایک شخص نہیں رہاوہ ایک استعارہ بن گیا….ایک عنوان جس نے پاکستان میں اہانت رسول کی تحریک کاسوئچ آف کر دیا….جس نے پاکستان میں اسلام کے مستقبل کے حوالے سے فکر مند لوگوں کے دلوں کو اطمینان کی دولت سے مالا مال کر دیا….جس نے پاکستان میں لبرل ازم اور سیکولر ازم کے خواب دیکھنے والوں کے چہروں پر کالک مل دی …. جس نے پاکستان کے ملااور مسٹر کو ایک صف میں لا کھڑا کیا….ممتاز قادری ایک ایسی تحریک بن گیاجس نے تمام مسلکی دوریاں مٹاڈالیں….جس نے پاکستانی مسلمانوں کی اپنے آقاصلی اللہ علیہ وسلم سے وابستگی کو اور پختہ کردیا….جس نے مسلمانوں کے دلوں میں عشق و محبت اور عقیدت کے اتنے دیپ جلادیے ہیں جنہیں اب کوئی آندھی نہیں بجھاسکے گی ….لاکھوں تقریریں،کروڑوں تحریریں ،ہزاروں تحریکیں وہ کام نہ کرپائیں جو ممتاز قادری کے جنازے اور ان کی شہادت نے کردکھایا۔


ہم نے رسم محبت کو زندہ کیا ،زخم دل جیت کر، نقد جاں ہار کر
ہم سے بزم شہادت کو رونق ملی ،جانے کتنی تمنائوں کو مار کر

قید جان سے گزرنے لگے جس سمے، عقل کہنے لگی اک ذرا سوچ لے
اس کی رحمت میں پہنچے تو دل بول اٹھا، تو نے جو کچھ کیا اس کوسوبار کر

کچھ نے دعوے محبت کے دائر کیے اورمتاع دل و جان بچا لے گئے
کوئی لایا دلیل محبت مگر خون کی اک اک بوند کو وار کر

نوٹ : اگر صاحب کو کالم کے مندرجات سے اختلاف ہے تو وہ اپنی تحریر ibcurdu@yahoo.com پر بھیجیں ۔ شکریہ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے