سندہ کی مساجد میں جمعہ کیلئے سرکاری خطبہ

سندھ بھر کی مساجد میں جمعہ کے دن سرکاری خطبہ پڑھنے پر عمل در آمد کے لیئے کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے جو جلد یہ فیصلہ کرلے گی کہ کس طرح سے مساجد میں جمعہ کو سرکاری خطبہ پڑھنے پر عمل در آمد کرایاجائے ، لیکن یہ کام اتنا آسان نہیں جتنا اسے سمجھا جارہا ہے جس کی وجہ یہاں مختلف مسالک اور مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں ابھی یہ طے ہی نہیں ہوا کہ سرکاری خطبہ کس طرح رائج کیا جائےگا کیا یہ شاہی فرمان کے طرز پر ظلی سبحانی کا حکم ہوگا یا گذارش کی جائیگی طریقہ کار جو بھی ہو کئی نئے مسائل جنم لیں گے،کیوں کہ جمعہ کی نماز میں عربی خطبے سے پہلے جو مقامی زبانوں میں خطبات پڑھے جاتے ہیں وہ کئی اسلامی تہواروں ، اہم دنوں اور اچانک رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں ہوتے ہیں اور ہر مسلک سے تعلق رکھنے والے علماء اسے اپنے مسلک کے مطابق اور اپنی مقامی زبانوں میں اسے لوگوں کو سمجھاتے ہیں ، تو ایک مسعلہ تو یہ درپیش آسکتا ہے کہ حکومت سندھ اس خطبے کا متن کس زبان میں جاری کرے گی اور کیا اسے اس زبان میں ہی پڑھنا لازمی ہوگا جس میں اسے جاری کیا جائے گا یا اپنی سہولت کے مطابق مقامی زبان میں اس کا ترجمہ کیا جاسکے گا اور ترجمے کی اجازت ہوگی تو یہ بات بھی مدنظر رکھنی ہوگی کہ بعض اوقات ترجمے میں مفہوم ہی بدل دیا جاتا ہے یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بہت سی مساجد میں خاص طور پر سندھ کے دیہاتوں میں ایسے لوگ جمعہ کو مقامی زبانوں میں خطبہ کہتے ہیں جو کبھی کسی اسکول تک میں نہیں پڑھے ہوتے ہیں لیکن مذہبی معلومات اور واقعات انہیں ذہن نشیں ہوتے ہیں اور جس طرح انہیں قرآن کی آیتیں حفظ ہوتی ہیں اسی طرح جمعہ کے دن دیا جانے والا عربی خطبہ بھی زبانی یاد ہوتا ہے لیکن اگر انہیں عربی کے علاوہ کوئی تحریر دی جائے تو ان کے لیئے اسے پڑھنا ممکن نہیں ہوتا اس لیئے تحریری متن پڑھنا ان علاقوں میں ایک نیا مسعلہ ہوگا ۔

اب ان اہم اور حساس باتوں پر آتے ہیں جن سے معاملات بگڑنے کے اندیشے ہیں ، عاشورہ، عید میلادلنبی، شب براءت،گیاروھیں شریف وغیرہ کے موقع پر اسی موضوع پر خطبے دئیے جاتے ہیں جن میں ان کی افادیت اور اہمیت کے بارے میں اپنے مسالک کی مطابقت بیان کیا جاتا ہے تو کیا حاضر سرکار کی جانب سے خطبات کے ایسے متن ترتیب دیئے جانا ممکن ہے جو تمام مسلک سے وابسطہ لوگوں کے لیئے قابل قبول ہوں اور تمام مساجد میں امام حضرات اسے پڑھنے پر رضا مندی ظاہر کردیں کیوں کہ اس 14 رکنی کمیٹی میں پانچ مسالک کے علماء کرام کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اگر یہ پانچ مسالک کے علماء کرام موجودہ تمام مسالک کی نمائیندگی کرسکتے ہیں تو عین ممکن ہے کہ تمام اراکین کمیٹی اس کے متن پر اتفاق کرلیں گے اور اگر ایسا ہوگیا تو حکومت سندھ کی بہت بڑی کامیابی ہوگی اور مذہبی ہم آہنگی پیدا کرنے کا ایک سنہری باب رقم ہوگا ، اب ان تمام مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی کو بہت سوچ سمجھ اور مشاورت سے کوئی بھی حتمی فیصلہ کرنا ہوگا۔کیوں کہ خطبے کے متن پر اتفاق رائے ہوجانے کے بعد دوسرا مرحلہ یہ ہوگا کہ تمام مساجد میں ان خطبات کو پڑھا جارہا ہے کہ نہیں اور جہاں ان خطبات کو نہیں پڑھا گیا وہاں کیا کیا جائے گا ۔

بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ روایت ہے کہ کسی بھی فیصلے کا اعلان بغیر ٹھوس حکمت عملی کے کردیا جاتا ہے اور بعد میں اس کی حکمت عملی کی جاتی ہے اور اس معاملے میں بھی صورت حال بظاہر ایسی ہی نظر آرہی ہے اور ابھی تک کی اطلاعات یہی ہیں کہ کمیٹی کسی حتمی فیصلے کی جانب نہیں آسکی ہے اور کئی مسالک سے وابسطہ علماء کرام کی جانب سے کئی خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے ، اس میں کسی قسم کی دوسری رائے نہیں کہ حکومت کا یہ کہنا کہ بلکل درست ہے کہ بعض مساجد میں نفرت انگیز خطابات ہوتے ہیں جس سے مذہبی انتشار پیدا ہوتا ہے اور کسی کو حق نہیں کی مساجد کے ممبروں سے ایک دوسرے کے لیئے کافر ہونے کی باتیں کی جائیں یا واجب القتل ہونے کے فتوے دیئے جائیں ۔

ہمیں کسی بھی چیز کے بارے میں اس کے مثبت پہلوؤں کے ساتھ ساتھ منفی پہلوؤں پر بھی سوچ بچار کرنا ضروری ہوتا ہے کیوں کہ یہ ضروری نہیں کہ آپ کوئی بھی ایسا کام جو معاشرے یا ملک و قوم کی بہتری کے لیئے کرنے جارہے ہوں تو اس کے تمام نتائج بھی مثبت آئیں لہذا حکمتی عملی ترتیب دیتے ہوئے اس بات کو لازمی مدنظر رکھنا چاہئے کہ ایسا ممکن نہیں ہوا اور معاملات بہتر ہونے کے بجائے مزید پیچیدہ ہوئے تو پھر کیا کرنا ہوگا ہوسکتا ہے حکومت سندہ اور اس کی بنائی کمیٹی نے ان تمام پہلوؤں پر بغور کام کیا ہو اور انشااللہ ان کی نیک نیتی سے تمام کام خوش اسلوبی اور حسن اتفاق سے پایہ تکمیل کو پہنچ جائے ۔ لیکن خدا نا خواستہ اگر ایسا ممکن نہیں ہوا تو پھر کہیں روایتی حربے استمال نہ کیئے جائیں جیسا کہ ہمیشہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جو معاملات سلجھ نہیں پاتے ان پر پابندی لگادی جاتی ہے ۔ جیسا کہ ماضی میں کئی چیزوں پر محض اس لیئے پابندی لگادی جاتی ہیں جسے حکومت کنٹرول کرنے میں ناکام ہوتی ہے جس کی کئی مثالیں موجود ہیں موٹر سائیکل پر ڈبل سواری، عاشورہ کے دنوں میں موبائیل کا استمال اور مساجد کو سیل کرنا وغیرہ شامل ہیں ، تو اس مسعلے کی ناکامی کے بعد مجھے خدشہ ہے کہ جمعے کے دن عربی زبان کے خطبے کے علاوہ تمام خطبات پر ہی پابندی نہ لگادی جائے ۔

لیکن ہمیں اچھے کی امید رکھنی چاہیے اور حکومت کی جانب سے کوئی بھی ایسا قدم اٹھایا جائے جس سے معاشرے میں بہتری آئے اور پر امن اور بھائی چارے والی فضاء قائم ہو تو نہ صرف حکومت کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے بلکہ بھر پور تعاون بھی کرنا چاہیے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے