اگر ہم خود سے نکل کر دیکھیں تو

ایک غیر مسلم ایک پتے،ایک ذرے ایک پھول پر ریسرچ کرتا ہے اور رب ذوالجلال کی عظمت کے آگے سر جھکا دیتا ہے۔ وہ کھوجتا ہے اور پا لیتا ہے۔
سوال کرتا ہے اور جواب کی تلاش میں اپنے رب کی پیچان پا لیتا ہے۔
قرآن میں بارہا کہا گیا
ہم نے اپنی نشانیاں کھول کھول کے رکھ دی ہیں تو ہے کوئ جو غور کرے۔۔۔۔۔
اقراء۔ ۔ ۔ پڑھ اپنے رب کے نام سے۔ ۔ ۔ ۔
کھوج پر کوئ یوںہی تو نہیں چل پڑتا، ایک تشنگی ایک ادھوراپن انسان کو بے کل کرتا ہے۔ دھیان ہمہ وقت اسی طرف رہتا ہے۔ ۔ ہر وقت ہر لمحہ۔ ۔ ۔ ۔ ہیاں تک کہ ایک دن وہ ایک انجان راہ پر چل پڑتا ہے۔ جس پر کوئ نشان کوئ اشارہ نہیں ہوتا۔کوئ رہنمائ کرنے والا نہیں ہوتا سوائے اس تشنگی اور وجدان کے اس پیاس کے، اس کے سوال اسکا راستہ بناتے ہیں اور اسکی تڑپ اسکا زادِراہ ہوتی ہے۔ ایک غیر مرئ ڈور ہوتی ہے اسکی نیت اسکی پیاس کی جو اسے کنویں تک کھینچ کے لے جاتی ہے۔
انسان میں تڑپ ہونا ضروری ہے، تشنگی ہونا ضروری ہے کہ یہی کھوج، تجسس تو ابنِ آدم کو ورثے میں ملا ہے۔ جس انسان میں تڑپ نہیں وہ تو مردہ ہے۔
چاند کیسے گھٹتا اور بڑھتا ہے؟؟
پھول کیسے کھلتے ہیں؟
موسم کیسے بدلتے ہیں؟
انسانی جسم کے اسرار کیا ہیں؟
سمندر کی تہہ میں کیا ہے؟
یہی سوال تو تھے جن سے سفر شروع ہوا۔
جب تک دماغ کو محدود رکھا جائےگا سوال پیدا نہیں ہوتے، سفر شروع نہیں ہوتا۔
آج ہن جمود کا شکار ہیں تو وجہ یہی ہے ہم پر سوال نہیں کرتے، ، خود ہے دوسروں سے کیوکہ ہم پر سوال اٹھانے پر پابندی ہے۔ ہم پر کھوج کر نے پر پابندی ہے۔
قرآن کہتا ہے:
"اس نے سات زمین آسمان اوپر تلے بنائے،کیا تم رحمان کی آفرینش میں کوئ نقص دیکھتے ہو؟ ذرا آنکھ اٹھا کر دیکھ بھلا تجھکو کوئ شگاف نظر آتا ہے۔ پھر دوبارہ نظر کر تری نظر ترے پاس ناکام اور تھک کر لوٹ آئےگی۔ (سورہ الملک)
اس نے کہا بار بار دیکھو لیکن ہم نے کیا کیا۔ ۔ ۔ ۔بس قرآن پر تکیہ کر کے مان لیا۔۔
ہمارے مذہبی اور سماجی علمبرداروں نے سرداروں نے ہم سے پوچھنے کا جاننے کا حق سلب کر کے منتخب سوالات اور انکے جواب ہمارے ہاتھ میں تھماد ئیے کہ یہ سوال کئیے جا سکتے ہیں اور انکے جوابات یہ ہیں۔
کائنات کی کھوج کو قرآن سے وظائف کی کھوج میں تبدیل کردیا۔ ۔ ۔ ۔
جس معاشرے میں مکالمہ کی آذادی نہ ہو، جہاں سوال کرنے کی اجازت نہ ہو ایسا نہیں کہ وہاں سوال نہیں پیدا ہوتے۔ ۔ ۔وہاں سوال ضرور پیدا ہوتے ہیں لیکن راستہ نہ پا کر بھٹک جاتے ہیں۔ جو چیز سامنے نہ ہو اسکی سمت کیسے درست کی جا سکتی ہے؟
ہمارے مذہبی و سماجی علمبرداروں نے سوال پو پابندی لگا کر بہتے دریا کو رکا ہوا جوہڑ بنا دیا۔ جوہڑ میں کائ تو جمے گی اور نا گوار بدبو بھی پھیلے گی۔ ۔ ۔۔
بنا پیاس کے پانی بھی بے ذائقہ لگتا ہے۔ اسی طرح بغیر جستجو کے چاہے کتنے بڑے اور پیچیدہ سوالات کے جوابات مل جائیں وہ بے معنی ہی رہتے ہیں کیوکہ اس میں وہ تڑپ اور کھوج نہیں ہوتی جو اسے اہم اور قیمتی بناتی ہے۔ انسانی فطرت ہے جو اسے باآسانی مل جائے بیٹھے بٹھائے کتنا ہی قیمتی کیوں نہ ہو اسکی نظر میں ارزاں ہی رہتا ہے۔
اسی لئے اللہ نے اپنی ہر نعمت، انعام، کو تہہ در تہہ رازوں میں ملفوف کر کے ہمارے آس پاس بکھیر دیا، ، ،
کائنات کے راز سے لیکر سمندر کی تہہ، ہمارے ڈی۔این۔اے سے لیکر ہاتھ کے فنگر پرنٹس تک چھپا کرابن آدم سے کہا۔ ۔ ۔
جا تحقیق کراور مجھے ڈھونڈ لے۔ ۔ ۔۔ ۔ہمیں گائیڈ بک بھی دی جسے ہم نے غلاف میں لپیٹ کر نہایت احترام سے اونچی جگہ رکھ دیا۔
سوال اور تحقیق کے دروازے بند کر دینے سے نقصان یہ ہوا کہ ذہن اور معلومات محدود ہوتی گیئ۔ کیوکہ مکالمہ کی پابندی نے علم کو کچھ اذہان تک محدود کردیا۔ دماغوں میں گردش کرتے سوالات گھٹے اور حبس ذدہ ماحول میں محدود علم سے ہی جوابات اخذ کر لیتے ہیں یا دوسری صورت میں دماغ بغاوت کی کوشش میں بالاخر تھک ہار کر احساس سے عاری ہوجاتا ہے۔
پھر نہ وہ کچھ محسوس کرتا ہے نہ دیکھتا ہے اور نہ ہی سوال کرتا ہے۔
اس صورتحال کی عملی تصویر ہمیں آس پاس نظر آتی ہے۔ ۔ ۔۔
اگر ہم خود سے نکل کر دیکھیں تو۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے