صحافی نہیں ،انسان ہوں

میں کہانیاں لکھتا ہوں ، خبریں بناتا ہوں ۔ آپ سب مجھے ایک صحافی کی حیثیت سے جانتے ہیں کیونکہ یہی میرا کام یہی میرا پیشہ اور عبادت ہے ۔ لیکن نجانے کیوں اب اس کام سے دل اوب سا گیا ہے بہت غور کیا تو اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ میری اس بے کلی کی وجہ اصل میں معاشرے کا رویہ ہے جس نے ہم جیسے انسان دوست افراد کو محض اب صحافی سمجھنا شروع کر دیا ہے ۔ جی ہاں وہی صحافی جو اپنے مطلب کے لئے خبریں بناتے اور چلاتے ہیں ۔ عوام کی ذاتی زندگی میں مداخلت کرتے ہیں اور جو ریٹنگ کے چکر میں اپنا اصل مقام کھو رہے ہیں ۔ مجھے آپ سے اتفاق ہے لیکن سب ایک سے تو نہیں ۔ نہیں نہیں گھبرائیں نہیں کہ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ صحافی بننے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ ابھی تک مجھے اپنے صحافتی کرئیر میں تربیت کے دوران ایک استاد محترم کی بات یاد آئی کہ صحافی معاشرے کا حساس ترین فرد ہوتا ہے کیونکہ وہ معاشرتی برائیوں کو لوگوں کے خلاف ہونے والے ظلم کو باقاعدہ محسوس کرتا ہے اور پھر اس کے ہاتھ میں قلم ہو یا مائیک وہ حتی الامکان سچ بولنے اور لکھنے کی کوشش کرتا ہے ہاں مجبور ہوتا ہے اپنے اداروں کی ادارتی پالیسی کی وجہ سے ۔

میں یہ دکھ بھری داستاں کبھی نہ لکھتا کیونکہ میں نے تو سخت گرمی اور سردی میں بھی اپنا فرض بھرپور انداز سے نبھایا میں نے تو سانحہ لال مسجد کو بھی کور کیا ۔ ہینڈ گرینڈ ، آنسو گیس سب کا سامنا کیا ، مختاراں مائی جب عدالت عالیہ کا دروازہ کھٹکھٹانے پہنچی تب بھی میں وہیں تھا ۔ ملک میں سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سول سوسائٹی نے احتجاج کیا تب بھی میں نے اپنا فرض پورا کیا ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو جب شہید کر دیا تب بھی میں اس منظر کا حصہ تھا صرف یہ کہ میری آہیں اور سسکیاں اس ڈاکٹر کی طرح اندر دبی رہی گئیں جسے آپریشن تھئیٹر میں رونے کی اور اپنے جذبات پر قابو کھو دینے کی اجازت نہیں ہوتی ۔

کاش کوئی سیلاب ، زلزلے اور عمارتوں کی تباہی کی رپورٹنگ کرتے ہوئے میرے آنسو بھی دیکھ لے ۔ کاش کسی کو معاشرتی بے حسی پر میرے قلم کی جنبش ہی نظر آجائے ۔ کاش کسی مظاہرے میں مظاہرین کے ہاتھوں ظلم و ستم کا نشانہ بنتا ہوا میں ہی دکھ جاؤں کیونکہ میں بھی ایک ذی روح ہوں آپ کا دکھ دیکھتا ہوں تو لکھتا ہوں اپنے مرتے ہوئے قلم کو پھر سے اٹھانے کی کوشش کرتا ہوں ۔ میرے سینے میں بھی تو دل ہے ناں جو چیخوں اور آہوں سے بے چین ہوتا ہے تب ہی تو میری آواز سے آپ کے لئے نوحہ بلند ہوتا ہے ۔میں نے کبھی اپنے ضمیر کا سودا نہیں کیا ۔ہاں اگر سچ آپ تک پہنچانا فرض ہے تو یہی میرا قصور ہے آپ مجھے صحافی نہ سمجھئے مگر انسان تو سمجھ لیں ناں ، یقین مانیں سب برے نہیں ۔ اپنی تقصیر بتاؤں کہ وہ محض کیا ہے کہ میں آپ سے بھی زیادہ معاشرے کا حساس ترین فرد ہوں ۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے