"تحفظ خواتین بل” ریاست دشمن بل ہے

پنجاب حکومت نے حال ہی میں خواتین کے تحفظ کا جو قانون پاس کیا ہے، اہل علم و فکر نے مختلف جہات سے اس کا تجزیہ کرکے اس کی خامیوں کی نشاندہی کی ہے۔ اس قانون میں ایک اہم ترین بنیادی خامی یہ ہے کہ یہ قانون ایک بیوی اور خاندانی نظام کے لیے مہلک نتائج کا حامل ہے (جیساکہ راقم نے اپنی ایک تحریر میں بھی اس امر کی وضاحت کی ہے)۔ اس تحریر میں ہم یہ دکھانے کی کوشش کریں گے کہ اس قسم کے قوانین کے ذریعے جس خاندانی نظام کی جڑوں کو مزید کمزور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، اس ادارے کے کمزور ہوجانے کے بعد ریاست کے سامنے مسائل کا ایک سیلاب امڈ آنے والا ہے جسے حل کرنے کی صلاحیت ہماری ریاست میں بالکلیہ موجود نہیں۔ اس امر کو سمجھنے کے لئے پہلے مارکیٹ سوسائٹی کی عمومی نوعیت اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل کے تعلق کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ خاندان کا ادارہ ان مسائل کو کس طرح اپنے اندر سموتا ہے۔

مارکیٹ یا سول سوسائٹی اغراض پر مبنی تعلقات کا نام ہے، یہ معاشرت ذات کو لازما اکیلا (individualize) کرتی ہے, یعنی معاشرتی زندگی کو فرد پر منتج کردیتی ہے۔ اس کے نتیجے میں عمل صرف انفرادی ہوجاتا ہے۔ مارکیٹ نظم میں ایک فرد کا کل پیداوار میں حصہ اس بنیاد پر متعین ہوتا ہے کہ وہ نفع خوری پر مبنی پیداواری عمل میں کتنا اضافہ کرنے (نیز اس پر سودے بازی) کی کتنی صلاحیت رکھتا ہے۔ مارکیٹ صرف مستعد (efficient) لیبر ہی کو اپنے اندر سمونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس نظام میں "فرد” کی بقا و کامیابی (حصول سرمایہ) اسکی اکیلی ذات کی پیداواری مستعدی (efficiency) کا مرہون ہوتی ہے۔ نتیجتا وہ تمام لوگ جو ایفیشنٹ نہیں ہوتے، وہ براہ راست اس نظم کا حصہ نہیں بن پاتے۔ یہ طبقات معاشرے کا اکثرتی حصہ ہوتے ہیں کہ مارکیٹ معاشرے کی قلیل تعداد کو اپنے اندر سموتی ہے۔ چنانچہ بوڑھے، بچے، معذور، یتیم، بیوہ، مطلقہ، بے روزگار، (سرمایہ دارانہ علم سے) ناخواندہ، بیمار، پاگل، یہاں تک کہ مردے، الغرض ہر وہ شخص جو اس نظام میں کچھ ”بیچنے کی صلاحیت” (ability to sell) نہیں رکھتا غیر محفوظ (vulnerable) و بے یارومددگار ہوجاتا ہے۔ آبادی کی وہ اکثریت جو efficient نہ ہونے کی بنا پر مارکیٹ کا حصہ نہیں بن پاتی انکے روزگار کے مواقع ناپید ہوجاتے ہیں، مارکیٹ نظم اور سرمایہ دارانہ ریاست ذرائع کے عظیم ترین حصے کو بڑے شہروں میں منتقل کردیتی ہے۔ فرد کے اس نظام کا حصہ بننے کی کوشش میں روایتی اجتماعیتیں تحلیل ہوجاتی ہیں، یوں معاشی و معاشرتی ناہمواری کو فروغ ملتا ہے۔ عمل صرف کے انفرادی ہونے نیز خاندان اور روایتی اجتماعیتوں کی حفاظت نہ ہونے کی بنا پر یہ عظیم اکثریت غربت و افلاس کا شکار ہوگئ۔ روایتی مذہبی معاشروں میں عمل صرف ہمیشہ اجتماعی (خاندان کے لیول پر مبنی) رہا، یعنی خاندان یا قبیلہ جتنی دولت پیدا کرتا عمل صرف کے لئے سب اس میں یکساں حصہ دار سمجھے جاتے۔ اسکی جھلک ہمارے موجودہ محدود تصور خاندان (میاں بیوی اور بچے) میں بھی موجود ہے کہ گھر کے کمانے والوں اور نہ کمانے والوں کا معیار زندگی یکساں ہوتا ہے، ایسا نہیں ہوتا کہ باپ تو مرغ کھاتا ہے مگر بچے دال۔ چونکہ لوگوں کی پیداواری اور سودے بازی کی صلاحیتوں میں تفاوت ہوتا ہے لہذا سرمایہ دارانہ معاشروں میں تقسیم دولت میں بھی زبردست عدم مساوات پائی جاتی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ یہ ایک خودکار نظام کی طرح بڑھتی چلی جاتی ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب غیر محفوظ لوگ کہاں جائیں؟ جدید سرمایہ دارانہ نظام نے ان طبقات کیلئے دو آپشنز کھولے ہیں، ایک ریاست، دوئم این جی اوز اور پروفیشنل خیراتی ادارے (professional philanthropic institutions)۔ پہلا آپشن (سرمایہ دارانہ) ریاستوں کا دروازہ ہے جن سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ ان تمام ”بے کار” لوگوں کی ذمہ داری اپنے کاندھوں پر اٹھائیں جس کی یہ بالعموم متحمل نہیں ہوتیں۔ اولا اس لئے کہ آبادی کی اتنی عظیم اکثریت کو پالنے اور سرمایہ دارانہ اہداف کیلئے تیار کرنے کیلئے جس قدر ذرائع کی ضرورت ہوتی ہے دنیا کی اکثریت ریاستوں کے پاس بالعموم اور ترقی پزیر ریاستوں کے پاس بالخصوص وہ موجود نہیں ہوتے (انکی اکانومی میں اتنی وسعت ہی نہیں ہوتی کہ ٹیکس کے ذریعے اتنی خطیر قوم اکٹھی کرسکیں)، ثانیا اس لئے کہ اتنی بڑی اکثریت کو پالنے کیلئے جس قدر دیو ہیکل ریاست اور مداخلت کی ضرورت ہوتی ہے فری مارکیٹ اکانومی پر مبنی عالمی ڈسکورس ریاستوں کے پھیلاؤ پر حد بندی لگاکر اسے مشکل بناتا رھتا ہے۔ ثالثا یہ کہ ترقی پزیر ممالک کے ریاستی اداروں میں کرپشن کے پھیلاؤ اور پیشہ وارانہ صلاحیتوں کے فقدان کی بنا پر یہ انتظامی صلاحیت ہی نہیں ہوتی کہ وہ اس قدر عظیم عوام کا بوجھ ایفیشنٹ طریقے سے اٹھا سکیں۔

سرمایہ دارانہ نظام سے جنم لینے والے مظالم کے شکار طبقات کیلئے دوسرا دروازہ این جی اوز اور پروفیشنل خیراتی اداروں کا ہے۔ یہ این جی اوز و خیراتی ادارے اغراض کی معاشرت کو سہارا دے کر اسے پروان چڑھانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ چنانچہ وقت گزرنے کے ساتھ تقریبا ہر غیر محفوظ طبقے کیلئے ایک پروفیشنل خیراتی ادارہ وجود میں آنے لگتاہے۔ مثلا اولڈ ہاؤس، ڈے کئیر، پاگل خانہ، یتیم خانہ، دارالامان، معذورخانہ، خودکار معالجاتی نظام پر مبنی ہسپتال، مردے ٹھکانے لگانے کا ادارہ اور اسی طرح ‘حقوق کی جدوجہد’ (مثلا عورتوں کے حقوق، اساتذہ کے حقوق، ڈاکٹرز کے حقوق) کو فروغ دینے والی بے شمار سنگل اشو موومنٹس اور این جی اوز۔ یہ این جی اوز (الا ماشاء اللہ) کن کن کے مقاصد کے لئے کام کرتی ہیں یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں نیز ان این جی اوز کے اندر بھی اتنی صلاحیت نہیں ہوتی کہ بڑی آبادیوں والے ترقی پزیر ممالک کے مسائل کو حل کرسکیں۔ پھر یہ "فلاحی ادارے” ایک دن میں وقوع پزیر نہیں ہوجاتے بلکہ سست روی کے ساتھ معاشرتی مقام حاصل کرتے ہیں۔

برادری و خاندانی نظم پر مبنی معاشرت میں فرد کو اپنی بقا کیلئے ان اداروں کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ وہاں فرد خود کو خاندانی تعلقات میں محفوظ پاتا ہے۔ مثلا بیمار ہونے کے بعد اسے کسی ایسے خودکار معالجاتی نظام (caring system) کی ضرورت نہیں ہوتی جہاں پہنچنے کے بعد ہسپتال کا پروفیشنل عملہ خودکار طریقے سے اسکا خیال رکھے کیونکہ تیمار داری کیلئے اسکے عزیز و اقارب کا خودکار نظام موجود ہوتا ہے (بلکہ بیماری روٹھوں کو منانے اور رفع اختلاف کا خوبصورت سبب ہوا کرتا ہے)۔ مگر جب فرد اکیلا ہو تو معاشرے کے کسی فرد کو اسکی عیادت کرنے کا یارانہ نہیں، لہذا ضرورت ہے کہ اسکے معالجے کا ایسا نظام وضع کیا جائے جہاں کسی کو عیادت کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ اسی طرح مرجانے کی صورت میں فرد کو ایک تدفینی ادارے پر انحصار نہیں کرنا پڑتا کہ یہ کام خاندان کے لوگ سرانجام دیتے ہیں۔ بالکل اسی طرح ہم دیکھ سکتے ہیں کہ انسانی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ھوا کہ معاشرے کے سارے پاگلوں، یتیموں، بیواوں، معذوروں کو پکڑ پکڑ کر ایسے اداروں کے اندر جمع کردیا گیا ہو جہاں ”پروفیشنل” (ذاتی اغراض سے متحرک و مغلوب) افراد ان کا خیال رکھنے پر مامور کرد ئیے گئے ہوں۔ خاندانی نظم میں عزیز و اقارب معذور بچوں و نادار افراد کی محبت و صلہ رحمی کے ساتھ خود کفالت کرتے ہیں، یہاں تک کہ اس معاشرت میں پاگل (جھلا) بھی معاشرے کا حصہ ہوتا ہے۔ اس معاشرت میں غریب و مفلسوں کی تعداد نہایت قلیل ہوتی ہے کیونکہ عمل صرف خاندان کے اندر اجتماعی ہوتا ہے، یعنی خاندان جتنی پیداوار عمل میں لاتا ہے سب لوگ اس میں یکساں حصے دار سمجھے جاتے ہیں۔ غور کیجئے، برادری، قبائلی و خاندانی نظم کس خوبصورتی کے ساتھ ”محبت و صلہ رحمی کے جذبات” کے تحت ان تمام طبقات کو اپنے اندر سمو لیتا ہے۔

چنانچہ پاکستانی معاشرے میں خاندانی تعلقات کا وجود ریاست کے لئے بھی کسی نعمت سے کم نہیں کہ اگر یہ ادارہ کمزور ہوکر تحلیل ہوگیا تو اس کا معنی اس کے سواء کچھ نہیں کہ فی الوقت جن لاکھوں کروڑوں افراد کو خاندانی تعلقات کی چھتری میسر ہے وہ سب ریاست کی ذمہ داری بن جائیں۔ ہماری ریاست میں اس قدر افراد کو سنبھالنے کی مالی و انتظامی صلاحیت کس قدر ہے، اس کا اندزہ موجودہ ریاستی اداروں کی مستعدی کو دیکھ کر لگانا کچھ مشکل امر نہیں۔ پس پنجاب اسمبلی نے جو نیا قانون پاس کیا ہے جہاں وہ ہمارے زمینی حقائق اور معاشرتی اقدار کے ساتھ ہم آھنگ نہیں ساتھ ہی ساتھ ہماری ریاست کے لئے بھی ایسے چیلنج معاشرتی و مالی چیلنجز کو دعوت دینے والا ہے جن سے نبزد آزما ہونے کی صلاحیت ریاست میں نہ اب ہے اور نہ ہی مستقبل قریب میں اس کی کوئی امید ہے۔ لہذا پنجاب حکومت سمیت دیگر ریاستی افراد و اداروں کو بھی ہمارا یہی مشورہ ہے کہ "اپنی چادر دیکھ پر پاؤں پھیلاؤ”۔ "خواتین کے تحفظ” جیسے قوانین جس قسم کے تحقیقی اداروں اور این جی اوز کی تحقیقی کاوشوں کا نتیجہ ہوتے ہیں ان کا فکری پس منظر پاکستان جیسے ترقی پزیر ممالک کے زمینی حقائق اور اقداری نظام کے اندر نہیں بلکہ مغرب کے معاشرتی و اقداری سفر میں طے پایا ہے۔ لہذا ایسی تحقیقی کاوشوں سے خوشا چینی کرتے وقت آنکھ اور کان کے علاوہ دل و دماغ کو بھی کھلا رکھنا چاہیے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے