مظلوم کی آہ اور قدرت کا جوش

بعض اوقات انسان سوچتا کچھ اور ہوتاہے کچھ، سوچ مثبت ہوتونتیجہ بھی مبثت ہوتااورسوچ منفی ہوتو پھر قدرت کا انتقام بھی خوفناک ۔بعض مواقع پر انسان اپنی انا، تکبر، بغض، ہٹ دھرمی اور عناد کی وجہ سے اتنا مغرور ہوتاہے کہ دنیا و مافیھا کا علم ہی نہیں ہوتا، اسی کو فرعونیت کہا جاتاہے۔طاقت،عزت ، شہرت ،صحت اور دیگر قدرت کی نعمتوں کو اپنا کمال اوردائمی سمجھ کر وہ حماقت کرجاتاہے، جہاں سے نہ صرف پستی کا سفر شروع ہوتا ہے بلکہ زندگی بھر کی کمائی ہوئی عزت و شہرت لمحوں میں غارت ہوجاتی ہے اورانسان اتنی پستی میں گرتا ہے کہ پھر دیکھتا ہی رہتا ہے ۔پستی میں اپنے کئے پر پچھتاتاتوہے مگر اس وقت تک بہت ہی دیر ہوچکی ہوتی ہے۔اسی طرح کی صورتحال کا سامنا گلگت بلتستان میں 4مارچ 2016ء کو اس وقت گلگت بلتستان پولیس افیسرراجی رحمت صاحب کو بھی ہے۔

گلگت بلتستان کے علاقے داریل پھوگچ میں 8جون 2015 کو گلگت بلتستان قانون سازاسمبلی کے حلقہ جی بی ایل اے 17کے الیکشن کے موقع پرہونے والے تصادم میں متعدد افرادزخمی ہوئے ،جن میں اکثریت تحریک انصاف کے کارکن تھے اورایک بچہ 8سالہ زوہیب اللہ ولد جہانزیب خان اور بعض پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے۔ پولیس اور تحریک انصاف واقعہ کا ذمہ دار ایک دوسرے کو ٹھراتے ہیں، اس کی تحقیقات مقامی انتظامیہ نے کرنا تھی مگر افسوس کہ انتظامیہ خود فریق بن کر اس حد تک گئی کہ ان کا انتقام ان کی تذلیل کا باعث بن گیااور8سالہ بچے زوہیب اللہ ولد جہانزیب خان اور70سالہ بزرگ حیدر ولی خان ولد مصرخان اور تحریک انصاف کے امیدوار ڈاکٹر محمد زمان خان سمیت 11افرادکے خلاف مقدمہ درج کیاگیا۔بات یہی تک رہتی تو ٹھیک تھی کیونکہ تفتیش میں ملزمان کے پاس صفائی کا بھرپور موقع ہوتا ہے مگر یہاں تو تفتیش یا قانونی کارروائی انصاف کی بجائے انتقامی آگ بھجانے کے لئے کی جارہی ہے تھی، انتقام کاپہلا وار اس وقت کیاگیا جب انتخابی تنازع کے عام مقدمے میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعات شامل کی گئی اورپھر خاموشی رہی، مگر 26فروری 2016ء کواخبارات میں گلگت بلتستان کی انسداد دہشت گردی عدالت نمبر1کی جانب سے ایک اشتہار جاری کیاگیا جس میں 8سالہ زوہیب اللہ اور70سالہ بزرگ حیدر ولی خان سمیت تمام ملزمان کو مفروریا اشتہاری ظاہر کیاگیا(یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ ملزمان پولیس کو تقریباپونے9 ماہ تک دستیاب نہ ہوسکے)اوریہ لمحہ ملزمان کے لئے انتہائی ازیتناک تھا مگر انہیں کیا خبر کہ یہی اشتہاران کے لئے قدرت کی مدد ثابت ہوگا۔اشتہارکے بعد سوشل میڈیا میں اس حقیقت کا انکشاف ہواکہ بیشترملزمان نہ صرف اپنے گھروں میں موجود ہیں بلکہ 8سالہ زوہیب اللہ روز اسکول جاتاہے اور70سالہ بزرگ حیدر ولی خان مسجد میں نماز کے لئے جاتے ہیں۔

چوتھی جماعت کے معصوم زوہیب اللہ جو خود اس واقع میں زخمی ہوا تھا کو انسداد دہشت گردی کے مقدمے کا مفرورقراردینے کے عمل نے دنیا کو ہلاکر رکھ دیااور قدرت بھی 8سالہ زوہیب اللہ کی معصومیت اور70بزرگ حیدر ولی خان کی سفید ریش پر جوش میںآئی پھر وہ ہوا جس کی شاید کسی کو توقع نہیں تھی ۔میڈیا کے مطابق ملزمان نے پولیس کو خودگرفتاری پیش کی مگرپولیس نے 8سالہ زوہیب اللہ کو گرفتار کرنے سے انکار کیا اورپھر زوہیب اللہ کا والد جہانزیب خان 4مارچ کو اپنے اشتہاری بچے سمیت عدالت میں پہنچا اورانسداددہشت گردی کی عدالت نمبر1گلگت بلتستان کے انتظامی جج محترم جناب راجہ شہباز خان ملزم کی معصوم صورت دیکھ کر حیران ہوئے، جج صاحب نے پوچھا کون ہو اور کیوں آئے ہو ؟ زوہیب اللہ کے والد کہا جناب جج صاحب میں اس اشتہاری دہشت گرد کو آپ کی عدالت میں پیش کرنے آیا ہوں ۔26فروری 2016ء کو آپ کی عدالت نے اس کو اشتہاری اور مفرور قرار دیا ہے پھر عدالت کے سامنے موصوف نے 26فروری کا عدالتی اخباری اشتہار اور دیگر کاغذات رکھے ۔جج صاحب نے تفتیشی افیسر سے استفسار کیا مگر وہ تسلی بخش جواب نہ دے سکے، جج صاحب نے فوری طورپر8سالہ زوہیب اللہ کو باعزت بری کردیا اور تفتیشی افیسرڈی ایس پی راجی رحمت صاحب کو عدالت میں ہی عدالت کو حقائق سے لاعلم رکھنے پر ہتھکڑیاں پہنادی اور مزید یہ کہ آئی جی گلگت بلتستان کو محکمہ جاتی کارروائی اور اشتہارات کے تمام اخراجات تفتیشی افیسر سے وصول کرنے کا حکم دے دیا۔

اس وقت تفتیشی افیسرصاحب نہ صرف گلگت بلتستان اور پاکستان کے میڈیا بلکہ سوشل میڈیا میں عالمی سطح پرزیر بحث ہیں۔موصوف سمجھیں تو یہ قدرت کا انتقام اورمظلوم کی آہ کا یہ نتیجہ ہے۔ تفتیشی افیسر کے پیش نظر انتقام نہ ہوتاتو وہ غیر جانبداری سے اس کی تحقیقات کرتے اور کم از کم 8سالہ زوہیب اللہ اور70سالہ بزرگ حیدر ولی خان کوشامل نہ کرتے مگرہمارانظام ہی ایساہے جہاں انصاف طاقت اور ذر کی لونڈی ہے۔ یہ کہنا غلط ہے کہ ملزمان میں 8سالہ معصوم کی نامزدگی کا پولیس یا تفتیشی افیسر کو علم نہیں تھا۔سچ یہ ہے کہ ان علاقوں میں میلوں دور تک یہاں کے باسی نہ صرف انسانوں کو اچھی طرح جانتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کے جانوروں کی نسلوں، رنگ، خامی و خوبی اورنشانات تک سے واقف ہوتے ہیں ۔

اگرچہ بیشتر ملزمان زیر تفتیش ہیں مگراورپر کی مثالوں نے ہی ملزمان کو بے گاہ قراردے دیاہے اور ثابت کردیاہے کہ یہ مقدمہ صرف طاقت کا نشہ اور انتقام ہے۔امید ہے کہ زوہیب اللہ کی طرح دیگر ملزمان کو بھی انصاف ملے گااور کوئی جرم کیا ہے تو اس کی سزا بھی ملے گی ۔جس جج نے زوہیب اللہ خان کو انصاف فراہم کیا وہ اپنے کئی اہم فیصلوں کے حوالے سے معروف ہیں ،جس میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کو86سال کی سزا،جیوو جنگ گروپ کے میر شکیل الرحمان اور دیگر کے خلاف فیصلے شامل ہیں ۔ جج جناب راجہ شہباز خان بے لاگ انصاف کے حوالے سے گلگت بلتستان میں کافی اچھی شہرت رکھتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے