کرب خود آگاہی

سکون انسان کی زندگی میں بہت اہمیت رکھتا ہے سکونِ قلب ہی دراصل کائنات سے انسان کی حتمی طلب ہے لیکن کیا یہ مثبت طلب ہے؟ علم ہو یا دانش بنا اضطراب کے نہیں پیدا ہو سکتا دنیا میں جتنی بھی ادبی اور تکنیکی تخلیقات ہوئی ہیں انسان کے کمال اضطراب کی حالت میں وقوع پذیر ہوئیں اہلِ تسکین تو آنکھیں موند کر دنیا و مافیہا سے لاپرواہ ہو جاتے ہیں اس کیفیت کے وقوع کو ہم عام اصطلاح میں دینیات بھی کہہ سکتے ہیں چنانچہ ادیانِ عالم انسان کی روح کو پرسکون کرنے کیلئے ہی تو نمودار ہوئے لیکن علم و دانش اور تخلیق و اَدب صرف مضطرب لوگوں کی ہی اختراعات ہیں

بچپن میں اکثر سوچا کرتا تھا کہ یہ لفظ شاعر کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ جب شعور سنبھالا تو شعور کے ساتھ ہی شاعر ہونے کا نہ صرف لغوی بلکہ اصطلاحی مفہوم بھی سمجھ آ گیا شعر دراصل شعور سے ہے اور شعور درحقیقت ایک مسلسل اضطراب کا نام ہے عجیب مضحکہ خیز حقیقت ہے کہ انسان اسی شعور سے نجات حاصل کرنے کیلئے جذبات کا سہارا لیتا ہے اور پھر آخر میں جذبہ بھی انسان کو وادیِ شعور میں لا کر بے یارو مددگار چھوڑ دیتا ہے سچ تو یہ ہے کہ جہالت میں تسکین ہے اور اس سے بھی دلچسپ بات یہ ہے کہ انسان بہت زیادہ پڑھ لکھ کر بھی اِسی مقام پر آ جاتا ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو دنیائے علم و دانش کے مسلمہ عقلمند سقراط حکیم کبھی یہ نہ کہتے کہ "میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا” آپ نے ایک نہایت دقیق نکتہ واضح کر دیا کہتے ہیں کہ عقلمند اور جاہل دونوں ایک ہی مقام پر کھڑے ہیں فرق صرف اتنا کہ عقلمند اپنی جہالت سے آگاہ ہو جاتا اور جاہل اپنی جہالت سے آگاہ نہیں ہوتا یہاں پر بلھے شاہ جیسے زیرک صوفی دانشور کا ایک بند بیان کرنا مفہوم واضح کر دے گا

ہکو الف تینوں درکار
علموں بس کریں اُو یار

بلھے شاہ کا یہ الف دراصل لاحاصل اور بے سود جستجو کا خاتمہ ہے آپ کے نزدیک والہانہ سپردگی ہی دراصل عقلمندی کی انتہاء ہے لیکن یہاں پر ایک بات یہ بھی ہے کہ جن لوگوں کا شعور بیدار ہو جاتا ہے اُن کا جھکنا بہت مشکل ہو جاتا ہے حضرت غالب بجا فرماتے ہیں

ڈبویا مجھ کو ہونے نے
نہ میں ہوتا تو کیا ہوتا

مگر بات تو تب تھی جب میں نہ ہوتا گویا تمام انتہائی ذہین لوگ بالآخر ” میں” سے بیزار ہی ہو جاتے ہیں کیونکہ شعور انسان کو ذات کا فہم تو دے دیتا ہے لیکن تجزیہ کا اختیار نہیں دے سکتا اس لئے پھر شعور ذہین کیلئے عذاب بن جاتا ہے وہ لوگ جو تجزیہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے بہت مسرور رہتے ہیں کیونکہ اُنہیں کائنات کا ذرا ذرا سالم نظر آتا ہے اور سالمیت میں تسکین ہے اسی کو صوفیانہ اصطلاح میں وحدت الوجود کہتے ہیں لب لباب یہ کہ شعور اور ذات ایک ساتھ قائم نہیں ہو سکتے یا تو آپ خودغرض ہیں یا پھر بندہ پرور، مطلب ایک وقت میں آپ دو مقامات پر نہیں رہ سکتے

ذہین بہت حساس ہو جاتا ہے کیونکہ خود آگہی دراصل ایک انتہائی حساس ترین مقام ہے اتنا حساس کہ یہ مفلسی کا بھی مقابلہ کر سکتا ہے حضرت اقبال کی گواہی ملاحظہ فرمائیں
اے طاہرِ لاہوتی اُس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

لاہوت دراصل حسین بن منصور الحلاج کی اصطلاح ہے جس کو آپ مقامِ معرفت کی انتہاء سمجھتے ہیں یہ مقام سراپا کرب اور فراوانیِ حیرت ہے جہاں پر جستجو جہالت سے ٹکریں مارتی ہے اور اس دھکم پیل میں انسانی ذات بکھر کر ریزہ ریزہ ہو جاتی ہے اس مقام پر سلطان العارفین کا درد ملاحظہ فرمائیں
سینہ تاں میرا درد بھریا اندر بھڑکن باہیں ھُو
تیلاں باج نہ بلن مشالاں درداں باج نہ آہیں ھُو

یہ وہ آگ ہے جس میں ذہین ہر پل جلتا رہتا ہے اور کسی پل کسی طور اس جلن سے مفر حاصل نہیں کر سکتا پس ذہین سراپا کرب بن کے رہ جاتا ہے اسی اضطراب کی کیفیت میں انسان وہ غیر معمولی اُمور سرانجام دے دیتا ہے جس کے متعلق عام کیفیت میں سوچنا بھی دشوار ہو جاتا ہے اگر یہ اضطراب نہ ہو تو پھر علم و شعور کا کوئی فائدہ ہی نہ رہے اقبال نے سچ ہی کہا
عطار ہو رومی ہو رازی ہو غزالی ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحر گاہی

یار لوگ اس کا مفہوم اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں حالانکہ شعر کا مضمون واضح کر رہا ہے کہ انسان جس میدان میں بھی آگے نکل جائے اگر اُس کی رگوں میں آگہی کا درد نہیں تو گویا اُس کی تمام تر کاوش بے سود ہے
ذہین جب جستجو کی نقاہت سے آگاہ ہو جاتا ہے تو وہ پھر جذبات کا سہارا لیتا ہے یہی وہ مقام ہے جہاں سے علم عشق کی شکل اختیار کر لیتا ہے حضرت سیدی رومی فرماتے ہیں
آں علم کہ در مدرسہ حاصل گردد
کارِ دِگر است و عشق کارِ دِگراست

یہ اٹل حقیقت ہے کہ علم کی انتہاء جہاں پر ہوتی ہے وہاں سے عشق کی ابتداء ہوتی ہے اور عشق ہی پھر حتمی دانش بن جاتا ہے یہاں پر ذہین فرزانہ سے دیوانہ بن جاتا ہے اور پھر وہ اپنی طلب کے آگے سب معاشرتی و مذہبی مسلمات کو زیر کر دیتا ہے حضرت بلھے شاہ اس مقام کی بہترین تفسیر کرتے ہیں

اے عشق بلھے شاہ اَوکھا اَولّہ
صورت ہے صنم دی عرشِ معلی
بن یار دے نہ کوئی اللہ ہے
بانویں رب نال لڑناں پے جاوے

یہ وہ مقام ہے جہاں پر انسان عزم و استقلال کا پیکر بن جاتا ہے اور وہ اپنی طلب کے حصول کی خاطر کچھ بھی کر گزرتا ہے کیونکہ یہ علم و معرفت اور عشق و جنون کا بالکل آخری مقام ہے جہاں پر حسین بن منصور الحلاج نے اناالحق کا نعرہ لگایا تھا اناالحق خودی کی سب سے مدلل اور مفصل تعبیر ہے جس کا ادراک عامی کیلئے بہت مشکل بلکہ ناممکن ہو جاتا ہے علم و عقل کے پیچ و تاب ایک انتہاء اور عشق کا سوز و گداز دوسری انتہاء اگر انسان ان دونوں کیفیات میں توازن پیدا کر لے تو زندگی جنت بن سکتی ہے لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ انسان آخر کار کسی ایک جانب ڈھلک ہی جاتا ہے کیونکہ خوب سے خوب تر کی جستجو انسان کو بالآخر عذاب ہی سے دوچار کرتی ہے چاہے وہ علم و عقل کی اندوہ ناک سرنگ ہو یا پھر عشق و جنوں کی پُرخار وادی اضطراب ذہین کی میراث ہی رہتا ہے ہاں عامی ان دونوں کیفیات سے مبرا ہوتا ہے اس شرط کے ساتھ کہ وہ علم اور جذبہ کے حقائق سے دور ہو اور ایک بالکل آجرانہ زندگی بسر کر رہا ہو جس کی ترجیح صرف حصولِ دانہ ہی ہو.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے