تحفظ نسواں کون کرے؟

خبروں کا موضوع پہلے غیرت پر قتل بنا ، اسکے بعد شرمین عبید چنائے کی بنائی گئی دستاویزی فلم ، پھر عدالتوں میں ہونے والے فیصلے ، بعد ازاں اس حوالے سے کھلبلی اور کہانی پر چوری کے الزامات ۔ لیکن اس سب صورتحال میں مجھے یہ بالکل سمجھ نہیں آیا کہ کون کس کو بے وقوف بنا رہا ہے ؟ کیا خواتین کے لئے ان قوانین کے وضع کرنے سے ان کے حقوق کا تحفظ ممکن ہو جائے گا یا اسلامی نظریاتی کونسل خواتین کو ان کے رہے سہے اسلام کے مطابق دئیے گئے قوانین بھی دلوا سکتی ہے ۔ یا محض کسی ایک ڈاکومنٹری سے پاکستان کے امیج کو خراب یا ٹھیک کیا جا سکتا ہے ۔
معذرت چاہتی ہوں کہ خواتین کے حقوق کے نام پر ایک منظم سیاسی کھیل کھیلا جا رہا ہے خواہ اس کی صورت آسکر ایوارڈ ہو یا اسلامی نظریاتی کونسل کی سخت ترین شرائط اہم چیز تو ہمارے گھروں کا رویہ ہے ہماری تربیت جہاں ایک ماں بیٹی کو کم کھانا دیتی ہے جہاں بیٹے کے آتے ہی ماں دروازے پر کھڑی ہوتی ہے جہاں باپ کے آتے ہی بچیاں کونے کھدروں میں چھپنے لگتی ہیں اور جہاں بھائی غیرت کے سودے کے نام پر بہنوں کا قتل بھی کردیتے ہیں ۔

کیا میں خاتون ہو نے کے ناطے یہ سب بھول جاؤں کہ پاکستان میں اسلام کے عطا کردہ حقوق بھی خواتین کو نہیں دئیے جا رہے یہاں ہر سال ایک ہزار خواتین کاری کر دی جاتی ہیں اور پاکستان دنیا کے ان چودہ ممالک میں شامل ہے جہاں سنگساری اور رجم کی سزا دی جاتی ہے ، اسلام کی بات کرنے والو سنو کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے کسی ایک آیت کو پکڑ کے اسکی تشریح ہم جیسوں کو زیب نہیں دیتی ۔ اسلام میں تو رجم کی سزا مردوں اور عورتوں دونوں کے لئے جائز ہے تو پھر خواتین ہی کیوں مشق ستم؟ میری بحث کسی سے نہیں صرف اس سماج کے گندے قوانین سے ہے اس تنگ نظری سے ہے جو اپنے لئے تو سب جائز سمجھتے ہیں اور اپنی عورت کے لئے سب ناجائز ۔۔

سابق صدر ضیاالحق کے دور میں بنائے جانے والے حدود آرڈیننس خواہ کوئی مانے یا نہیں خواتین کے حقوق پر قدغن لگاتے رہے ۔ 2004 میں خواتین کے لئے تحفظ حقوق نسواں ایکٹ بنایا گیا اور یہ منظور بھی ہوا ۔دیکھا جائے تو خواتین کے لئے فلاح و بہبود کے تمام تر قوانین اور بل پیپلز پارٹی کے اراکین نے پیش کئے اور سابق صد پرویز مشرف کے دور میں خواتین کے حقوق کے لئے کسی حد تک کام ہوا ۔ خیر تحفظ حقوق نسواں بل کی اہم شقوں میں یہ شامل تھا کہ جبری یا قرآن سے شادی ، ونی یا سوارہ اور حق وارثت سے محرومی کے بارے میں جرائم کا تعین کیاجائے گا کہ ان مجرموں کو دس دس سال قید اور دس لاکھ جرمانہ کی سزا دی جائے گی اور یہ جرائم ناقابل ضمانت ہوں گے ۔ حالیہ دنوں میں سینیٹر صغری امام نے بھی غیرت پر قتل کے خلاف قانون سازی کے لئے ایک بل پیش کیا جس کو سینیٹ میں اتفاق رائے سے منظور کر لیا گیا جس کے مطابق پاکستان پینل کوڈ 1860,کوڈ آف کریمنل پروسیجر اور قانون شہادت آرڈر 1984میں ترامیم کی گئیں ۔پنجاب اسمبلی نے ابھی حالیہ تحفظ حقوق نسواں بل غیرت پر قتل کے حوالے سے منظور کیا اور چند اہم شقیں یہ رکھی گئیں کہ خواتین کو خرچہ نہ دینے پر مرد کو سزا ہو گی ، اسی طرح ملازمت پیشہ خواتین اپنی آمدنی اپنے شوہروں کو دینے کی پابند نہیں ہوں گی او رمارپیٹ کی صورت میں خاوند کو گھر سے بے دخل کیا جائے گا غلط اطلاع دینے پر خاتون کو تین ماہ کی قید اور پچاس ہزار روپے تک جرمانہ ہو سکتا ہے ۔

لیکن کیاعقلی اعتبار سے یہ بل درست نظر آتا ہے ؟ میرے خیال کے مطابق نہیں ۔ اسلام میں زانی اور زانیہ کے لئے سزا مقرر ہے لیکن یاد رکھئے کہ زانی کے لئے بھی ۔ ڈاکٹر یوسف قرضاوی نے 1972میں لبییا میں ہونے والی ایک کانفرنس کے حوالے سے بتایا کہ تیس سے زیادہ فقہ کی کتابوں کے مصنف الوزہرا نے کہا کہ اسلام میں رجم کی سزا تب تک تھی جب تک کوڑوں کی سزا کا حکم نہیں آیا تھا ۔

[pullquote]حاصل بحث
[/pullquote]

خواتین کے لئے قانون سازی وقت کی اہم ضرورت ہے اور ہونی چاہیے لیکن کیا خواتین کو تحفظ دلایا جائے گا ، اسکی یقین دہانی ہو گی کیا اسلام کے تقاضوں کے مطابق ان قوانین کا اطلاق کر کے زانی کو بھی سزا دی جائے گی یا صرف عورتیں ہی نشانہ بنیں گی جو شخص اتنا گر سکتا ہے کہ وہ اپنی عورت پر ظلم و تشدد کر سکتا ہے کیا وہ یہ کرے گا کہ ظلم کے بعد دو ن کے لئے گھر سے باہر چلا جائے یہاں تو خواتین کو قتل کر کے شوہر حضرات نامعلوم افراد کی طرح فرار ہو جاتے ہیں ۔ ، عورت فاؤنڈیشن کے جائزے کے مطابق 2009 میں 475، 2009 میں 604، 2010 میں 557، 2011 میں 705خواتین کو کاری کیا گیا ۔ صرف گذشتہ پانچ سال میں ایک سو تین خواتین وفاقی دارلحکومت میں کاری کی گئیں ان کا کیا قصور تھا کیا تب قوانین نہیں تھے ، آٹھ مارچ خواتین کا عالمی دن بہت اہتمام سے منایا جاتا ہے ، سمینار ہوتے ہیں ۔تقریبات ہوتی ہیں لیکن حقیقت کیا ہوتی ہے اس سب کا خراج وہ خواتین دیتی ہیں جنہیں اپنی مرضی سے شادی کا حق بھی نہیں جو کہ اسلام دیتا ہے ۔ وہ خواتین او رمعصوم بچیاں دیتی ہیں جنہیں خون بہا میں اپنے سے دگنی عمر کے مرد کے سپرد کر دیا جاتا ہے تاکہ ہر لمحہ ان کا جنسی او رذہنی استحصال ہو سکے ۔ اسکا خراج وہ معصوم بچیاں دیتی ہیں جن کو بروقت بیاہنے کا ان کے والدین کو کوئی احساس تک نہیں ہوتا ؟ تب کہاں رہ جاتے ہیں قوانین کہاں کے ضابطے موجود ہوتے ہیں ؟ جب تک قانون اندھے ہوں گے یہ خواتین یونہی بے بسی کی موت مرتی رہیں گی ۔میرا سوال صرف یہی ہے کہ تحفظ نسواں کون کرے ۔۔؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے