کیا نظام عدل میں خرابی نہیں ؟

گزشتہ دن چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس انور ظہیر جمالی نے کراچی میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ریاست سستے انصاف کی فراہمی میں حائل رکاوٹیں دور کرے، ہم جس معاشرے کا حصہ ہیں، وہاں خوف خدا کا فقدان ہے، معاشرے میں سچ جھوٹ اور حلال و حرام کا فرق ختم ہوچکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں رائج عدالتی نظام میں کوئی خرابی نہیں، یہ بہترین اور آزمودہ نظام ہے، جس کی دوسرے ممالک بھی تقلید کرتے ہیں۔

جدید ریاستی نظام کے تصور کے مطابق عدلیہ ریاست کے تین ستونوں میں سے ایک اہم ستون ہے، اس کا کام ریاست کے باقی دو ستونوں اور ان سے منسلک تمام اداروں میں نزاعات کا فیصلہ کرنا اور ان کو اپنی آئینی حدود کا پابند بنانا ہے، اس کے ساتھ ساتھ اس کے کاندھوں پر ریاست کے تمام باشندوں کو آئین میں طے شدہ حقوق کی روشنی میں عدل و انصاف فراہم کرنے کی بھاری ذمے داری بھی عائد ہوتی ہے۔ ریاستی اداروں کے تئیں عدلیہ کا کردار ایک غیر جانبدار اور کھرے نگران کا سمجھا جاتا ہے، جبکہ ریاست کے باشندوں کے معاملے میں اس کے فرائض بچوں کے باب میں باپ کی ذمے داریوں سے ملتے جلتے ہیں۔ ایک جج کے ہاتھ میں انصاف کا ترازو اور عدل کا پرچم ہوتا ہے، جبکہ عدل و انصاف معاشرے کے ہر ہر فرد یہاں تک کہ اجتماعی طور پر معاشرے کی بھی ضرورت ہے۔ اس لیے جج کی ذمے داری ہے کہ وہ نہ انصاف کے ترازو کو کسی کے حق میں جھکائے اور نہ ہی عدل کے پرچم کو کسی بھی صورت سرنگوں ہونے دے۔ کسی بھی معاشرے اور انسان کی انفرادی و اجتماعی زندگی میں عدل و انصاف کو اتنی ہی اہمیت حاصل ہے، جتنی جینے کے لیے پانی اور ہوا کی ہے، چنانچہ عدل و انصاف کا پانی کی طرح سستا اور ہوا کی طرح عام اور بلا امتیاز ہر فرد کی دسترس میں ہونا بھی انتہائی ضروری ہے۔ اگر جج اپنے فیصلوں میں کھرا اور غیر جانبدار نہ رہے اور عدالتوں میں مرافعہ کرنا آسان اور سستا نہ ہو تو لوگوں میں اضطراب بڑھتا ہے، جو ایک مرحلے پر جاکر انتشار کا باعث بن جاتا ہے۔

عظیم مسلم سیاسی مفکر نظام الملک طوسی کا یہ قول ہمارے ہاں ہر اعلیٰ و ادنیٰ کی زبان پر ہے کہ ریاست کفر کے ساتھ تو چل سکتی ہے، مگر ظلم کے ساتھ نہیں چل سکتی۔ اس قول اور عدلیہ کی ضرورت و اہمیت کے پس منظر میں پاکستان کی عدالتی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو بدقسمتی سے کوئی خوش گوار نتیجہ برآمد نہیں ہوتا۔ المیہ یہ ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر 2007ء تک تو عدلیہ اور جمہور میں کوئی جذباتی رشتہ و تعلق ہی نظر نہیں آتا۔ اس سارے عرصے میں عوامی تاثر اور احساس یہ ہوتا ہے کہ عدالتیں صرف ایک خاص اور بورژوازی طبقے کے مفادات کی نگہبانی کا فریضہ انجام دیتی ہیں اور ان ہی کے مفادات کی خاطر قانون کے شکنجے میں پرولتاری طبقے اور غریب عوام کو کسنے کی ذمے داریوں پر مامور ہیں۔ یہ تاثر در اصل کردار کے مقدمے میں ہماری لائق صد احترام عدلیہ کے خلاف نہایت بے لاگ عوامی فیصلہ ہے، جس کی بنیاد عدلیہ کی کارکردگی سے مایوسی پر ہے۔ اس حقیقت سے کوئی آنکھ نہیں چرا سکتا کہ معاشرے کے اندر آج بھی ضرورت کی جو چیز سب سے زیادہ نایاب اور مہنگی ہے وہ ہے عدل و انصاف۔ سماج میں اس کا وجود آج بھی نہ ہونے کے برابر ہے اور اگر کہیں ہے بھی تو انتہائی مہنگا ہے۔ عدل و انصاف کی اس عملی صورت حال کے باعث ملک میں سب سے زیادہ مشکلوں کا شکار عام آدمی ہے۔ اگر عدالتی نظام میں سب اچھا ہوتا اور وہ واقعی اس قدر بہتر ہوتا جیسا کہ فاضل چیف جسٹس کا خیال ہے تو اس کا اظہار عام آدمی کی حالت اور اس کے عدلیہ کے کردار پر اعتماد کے تناسب سے خود بخود ہوجاتا۔ یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ عام آدمی قدم قدم اور لمحہ لمحہ ظلم و نا انصافی کی چکی میں پس رہا ہے، طرہ یہ کہ اس پر وہ عدالت سے داد رسی کی امید بھی نہیں رکھتا، جس سے یہ حقیقت از خود واضح ہوجاتی ہے کہ ہمارا نظام عدل کردار کے آئینے میں کوئی قابل رشک تاثر نہیں رکھتا۔ اگر ہماری عدالتیں درست اور مثالی انداز میں بہ روئے کار آتیں، تو اول تو لوگوں کو ظلم و نا انصافی کا کبھی سامنا ہی نہ کرنا پڑتا اور اگر پھر بھی کوئی ایسی صورت حال سے دوچار ہوجاتا تو وہ پورے اعتماد کے ساتھ زنجیر عدل ہلا کر نہایت آسانی سے انصاف پاتا۔

اس حقیقت سے کسی کو مجال انکار نہیں کہ عدل و انصاف کے بغیر نہ ترقی ممکن ہے اور نہ ہی ذہنی و معاشی آسودگی حاصل ہوسکتی ہے۔ چیف جسٹس جناب انور ظہیر جمالی کا یہ کہنا بجا ہے کہ معاشرے میں سچ جھوٹ اور حلال و حرام کا فرق ختم ہوچکا ہے۔ یہ وہ اخلاقی برائیاں ہیں، جو معاشرے کو دیمک کی طرح کھاجاتی ہیں اور یہی برائیاں دوسروں کے تئیں نا انصافیوں اور حدود سے تجاوز کی شکل میں ڈھل کر سامنے آتی ہیں۔ ان برائیوں کا خاتمہ بھی ضروری ہے، تاہم عدلیہ کے سربراہ کی حیثیت سے جناب چیف جسٹس کا یہ مطالبہ کہ ریاست سستے انصاف کی فراہمی میں حائل رکاوٹیں دور کرے، اس بات کا غماز ہے کہ معاشرے اور نظام میں انصاف کا چلن عام نہیں ہے اور نظام عدل کو کہیں کہیں کچھ رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ بلاشبہ دیگر ریاستی اداروں کی طرح عدلیہ اور اس کے نظام میں بھی بہت سی خامیاں پائی جاتی ہیں۔ یہ عدالتی اور قانونی ماہرین ہی کا تبصرہ ہے کہ انصاف میں تاخیر انصاف کا قتل ہے۔ دوسری خامیاں اپنی جگہ ایک انصاف میں تاخیر کی خامی ہی ہمارے عدالتی نظام میں کتنا عام ہے، اس سے کون واقف نہیں ہے۔ دیوانی مقدمات تو رہے ایک طرف فوجداری مقدمات بھی اس قدر طوالت کھینچتے ہیں کہ قتل کا ایک مقدمہ فیصل ہونے تک مدعاعلیہ یعنی قاتل مظلوم بن کر الٹا مدعی و مستغیث یعنی مقتول کی پارٹی کی ہمدردی کا مستحق بن جاتا ہے۔ مہنگا اس قدر ہے کہ ایک انتخابی عذر داری کا فیصلہ 80اور 90لاکھ روپے خرچ کرنے کے بعد سامنے آتا ہے۔ کیا ایسے میں اس نظام عدل کو درست اور ہر خرابی سے پاک صاف مانا جاسکتا ہے؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے