دینی مدارس بانجھ ہوچکے ہیں

نیوزٹی وی کا اینکرپرسن ملک کے ایک بڑے دینی مدرسے کے مہتمم سے انٹرویو کر رہے تھے ، سوال جواب کی یہ نشست لمبی اوراس کی تفصیل کافی طویل ہے لیکن جس سوال وجواب نے مجھے یہ جملے لکھنے پرمجبور کیا وہ یہ تھے !

اینکر : مدارس میں جدید علوم کیوں نہیں پڑھائے جاتے ؟ تاکہ معاشرے کو ڈاکٹر ، انجینئر اور دیگر کار آمد افراد مل سکیں ؟

مہتمم صاحب : مدارس کا کام دین پڑھانا ہے اور ہم اپنا کام بخوبی کر رہے ہیں ، ہر سال ہزاروں افراد مدارس سے فارغ التحصیل ہو کر عالم دین کی سند حاصل کر رہے ہیں ۔ اگر میں آپ سے پوچھوں کہ ڈائو میڈیکل کالج ، سرسید انجینئرنگ یونیورسٹی اور دائود انجینئرنگ سے عالم دین کیوں نہیں نکلتے؟ یا بالفاظ دیگر اگر میں پوچھوں کہ ڈائو میڈیکل کالج سےانجینئر اور سرسید انجینئرنگ سے ڈاکٹر کیوں نہیں نکلتے ؟ تو آپ کا جواب یہی ہوگا کہ ڈائو میڈیکل کا کام ڈاکٹر اور سرسید انجینئرنگ کا کام انجینئر بنانا ہے، جس ادارے کا جو کام ہے وہ اسے پورا کر رہا ہے ۔ تو ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ جس طرح ڈائومیڈیکل اورسرسیدانجینئرنگ یونیورسٹی کا کام قوم کو ڈاکٹر اور انجینئر دینا ہے اسی طرح مدارس دینیہ کا کام قوم کومفتیان اورعلماکرام دینا ہے تاکہ یہ لوگ دینی حوالے سے قوم کی رہنمائی کرسکیں ۔

علما کرام اوربالخصوص اہل مدارس یقینا اپنی تاریخ بھول گئے تبھی تو الفاظ کے ہیرپھیر سے عقلی دلائل اورسطحی سی باتیں کرکے قوم کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں ورنہ مسلمانوں کی تاریخ میں جتنے بھی حکما، سائنسدان، انجینئر، ماہرین فلکیات ، ریاضی دان ، فلاسفر گز ر ے سب کا تعلق اپنے زمانے کے دینی مدارس سے رہا اور انہیں مدارس سے انہوں سے تعلیم حاصل کی۔

خالد بن یزید ، ذکریا رازی ، ابن سینا ، خوارزمی ، ابوریحان البیرونی ، الفاربی ، ابن مسکویہ ، ابن رشد ، کندی ، ابومحمد خوحبدی ، جابربن حیان اور موسی بن شاکر ویگر مسلمان محققین مدارس کے ہی فارغ التحصیل اورعلما کرام ہی تھے ، ان حضرات نے قرآن وحدیث اور اس زمانے کے مروجہ علوم پراتنی تحقیق کیں کہ ان کی ایجاد ، دریافت اور تحقیق ہی ان کی’’ وجہ شناخت ‘‘ بن گئی ۔ انہی محققین کی تحقیق آج اہل مغرب کے لئے ہرعلم وفن میں بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے ۔

یہ الگ بحث ہے کہ اس زمانے میں ریاستیں ،حکمران وقت مدارس کی سرپرستی کرتے تھے ، تاریخ کا مطالعہ بتاتی ہے کہ علماکرام کا شمار حکمرانوں کے مصاحبین میں ہوتا تھا یا کم ازکم بادشاہوں کے درباروں اپنے اپنے فن کے ماہرعلماکرام ضرورموجود ہوتے تھے۔ لیکن آج مدارس معاشرے کو علماکے علاوہ کچھ اوردینے سے بالکل قاصر ہیں ،ان علما کی تھان فراغت کے بعد کسی مسجد کی امامت وخطابت اور کسی مدرسے یا اسکول میں عربی کی تدریس پر ہی ٹوٹتی ہے اس کے علاوہ ان کے پاس کچھ نہیں ہے۔

اہل مدارس کوتسلیم کرنا ہوگا کہ مدارس بانجھ ہوچکے ہیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے