جیسے وہ ویسے ہم

” الناس علی دین الملوکھم” یعنی رعایا اپنے بادشاہوں کے دین پر ہوتی ہے۔ اور تاریخ میں ایسی بے شمار مثالیں موجودہیں کہ حاکم محکوم پر اتنا اثر انداز ہوتا ہے کہ تہذیب و تمدن یہاں تک کہ خیالات تک بدل جاتے ہیں۔ جب اسلامی حکومتیں اپنے عروج پر تھیں تو غیر قومیں اسلامی تہذیب و تمدن کے زیادہ زیرِ اثر تھیں۔ اس سے بھی زیادہ ، جتنے آج ہم مغربی تہذیب سے مانوس اور مرغوب ہیں۔ ذرا تاریخ پر نظر ڈالیں جب دنیا پر ہماری قیادت تھی اور قوت اور اقتدار ہمارے اختیار میں تھا، بڑے بڑے فرمانروا ہمیں خِراج دیتے تھے۔ اس وقت دنیا ہمارے لباس ، زبان اور علوم اِختیار کرنے میں فخر محسوس کرتی تھی۔

سسلی کا بادشاہ راجر اَول (1091-1101)عربی لباس پہنتا تھااور اس کی سرکاری زبان عربی تھی۔ سرسیہ (آج کا برطانیہ) کا بادشاہ "اوفا”کا سکہ سلامی دینار کی شکل میں تھااور اس پر عربی کی ایک مثل لکھی ہوئی تھی۔ برطانیہ کے عجائب گھر میں آپ آج بھی اسے دیکھ سکتے ہیں۔ میلان ، اٹلی کے گِرجا گھر میں آج بھی آپ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تصویر کے گرد عربی عبارت دیکھ سکتے ہیں۔ جرمن بادشاہ فریڈرک دو م کے دربار میں عربی لباس پہنا جاتا تھا۔ آکسفورڈ اور فرانس کی درسگاہوں میں عربی زبان لازمی تھی۔

لیکن پھر آہستہ آہستہ ہم محکوم ہوتے گئے۔ مغربی تہذیب اور ملحدانہ افکار کے زیرِ اثر آتے گئے۔ اور یہ سب مغربیوں کی ایک وسیع منصوبہ بندی کے تحت ہوا۔ برصغیر کی جنت میں جب انگریز شیطان داخل ہوا تو لارڈ میکالے نے تحریر کیا کہ "ہمیں ہندستانیوں کی ایک ایسی کھیپ تیار کرنا ہے جو اس وسیع رعایا کے اندر ہماری ترجمان ہو اور یہ جماعت رنگ، خون اور نسل میں ہندستانی ہی ہوگی لیکن سمجھ اور ذہنیت کے اعتبار سے مکمل انگریز ہوگی”

اور پھر پچاس سال کے اندر اندر ہی یہ عالم تھا کہ گھروں کے اندر ناخواندہ عورتوں میں بھی مغربی تہذیب کی برتری اپنی جگہ مضبوط کر چکی تھی۔انگریزی زبان اور لباس معاشرے میں عزت کا معیار بن گیا۔ جیم خانوں اور کلبوں میں جانااور شراب اور رقصstatus symbolبن گئے۔ ہمارے سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ایسا نصاب پڑھایا جانے لگا کہ کوٹ پتلون ، ٹائی اور انگریزی بولنا کامیابی کی ضمانت بن گیا۔ اور اپنی تہذیب اور ماضی باعثِ شرم ہوگیا۔ اور پھر پاکستان بننے کے بعد سے آج تک انگریزوں کے اس مشن کوہمارے حکمرانوں نے نہایت وفاداری سے آگے بڑھایا اور بڑھائے جا رہے ہیں۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستان سمیت جتنے بھی اسلامی ملک آزاد ہوئے وہ اسلام کے نام پر ہی آزاد کروائے گئے۔ وہاں انگریز کا یہ ٹارگٹ موجود ہے۔ انگریز نے لارڈمیکالے کے منصوبے پر جو کھیپ ہر ملک میں تیار کی تھی وہ اپنے اپنے ملک کے آزادہوتے ہی اقتدار پر قابض ہو گئی۔ ترکی سے لے کر انڈونیشیا تک سب ہی حکمران مغربی نظام تعلیم کے تربیت یافتہ بلکہ تربیت زدہ ہیں۔ چاہے انہوں نے مغربی ملک میں جاکر تعلیم حاصل کی ہو یا اپنے ہی ملک کے مغربی طرز کے ادارے میں۔

ترکی میں کمال اتا ترک نے حکماََاسلامی روایات کا خاتمہ کیا۔ترکی کا ایک مو‘رخ عرفان اوگا اپنی کتاب اتاترک میں لکھتا ہے ۔ ” یہ کوئ چُھپی ہوئ بات نہیں ہے کہ مصطفی کمال ایک غیر مذہبی آدمی تھا۔مصطفی کمال نے شیخ الاسلام کے سر پر قرآن مجید پھینک کر مارا تھا جبکہ وہ ایک بہت زیاد ہ قابل احترام بزرگ تھے۔ مگر اس پر کوئ احتجاج نہ ہوا۔ اس کا مطلب تھا کہ حالات بدل چکے ہیں۔”

شام کے حکمران اب بھی عیسائ فرقے کی اشتراکیت کے زیر اثر ہیں اور مصر کے شاہ فاروق کی عیاشی سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ایران کے شاہ نے اسلام سے تمام رابطے ختم کرنے کے لئے اور عوام کو اسلام سے دور کرنے کے لئے بے انتہا اقداما ت کئے۔یہاں تک کہ گلیوں اور سڑکوں پر اس نے عیسائی بادشاہ سائرس کے مجسمے نصب کرا دئیے۔

انڈونیشیا کے صدر احمد سکارنو نے جدیدترکی کے نقشِ قدم پر چلنے کی باقائدہ منصوبہ بندی اختیار کی۔آج بھی وہاں عیسائی مشنریوں کو خاص مراعات حاصل ہیں۔ تیونس1957میں آزاد ہو ااور بورقیہ جو پہلے صدر بنے،انہوں نے ممکنہ حد تک پرسنل لاء میں غیر اسلامی تبدیلیاں کیں۔محکمہ ،اوقاف ختم کر دیا۔اور اپنی ایک تقریر میں ان خیالات کا اظہارکیا ” قرآن میں تضادہے۔جسے عقل قبول نہیں کرتی۔جیسے عصائے موسیٰ اوراصحاب کحف کا قصہ”

مسلمانوں کا طرز عمل ہمیشہ ایسا کیوں رہتا ہے؟ اپنے مذ ہب ،دینی ثقا فت سے وہ کیوں شرم محسوس کرنے لگ جاتے ہیں؟اپنی دینی اقدارکیوں انہیں احساس کمتری میں مبتلا کر دیتی ہے؟ اسرائیل کو دیکھیں وہ اپنے مذہب اور مذہبی روایات پر پتھر کی طرح جما ہوا ہے۔وادی ء سینا میں اسرائیل کا جو پہلا ٹینک داخل ہواتھا اس پرتورات کی ایک آیت لکھی ہوئی تھی۔

المیہ ہمارا یہ ہے کہ کسی بھی اسلامی ملک میں جب تک آزادی کا معرکہ برپا رہتا ہے تو قربانیوں کے لیئے اور سر فروشی کے لیئے اللہ کی رضا اور اسلا م کی سر بلندی کو اپنا مقصد رکھنے والوں کو آگے کر دیتے ہیں۔اورجنگ آزادی کے رہنما مذہبی نعرے لگا کر انہیں مخالف قوتوں سے ٹکرا دیتے ہیں۔جب ان سر فروشوں کی قربا نیوں سے آزادی حاصل ہو جاتی ہے تو جنگ آزادی کے رہنما اقتدار اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیں اور تمام کام اسلام اور شریعت کے خلاف شروع کر دیتے ہیں یہاں تک کہ قربانی دینے والے یہ سوچنا شروع کر دیتے ہیں کہ انہوں نے غلطی کی کیوں کہ سب کچھ تو اس مقصد کے بر عکس ہو رہا ہے جس کے لیئے آزادی کا حصول ہوا تھا۔

لمحہء فکر یہ ہے کہ اس وقت پاکستان کے عوام پر یہی سوچ غالب آرہی ہے۔جس مقصد کے لیئے بے تحاشا خون بہا کر،گھر اور خاندان اجاڑکر،بہوبیٹیوں کی عزتیں لٹواکر پاکستان حاصل کیا گیا تھا وہ کہیں بھی نظر نہیں آتا۔آج تک(قائد اعظم کے بعد)ہمیں کوئی ایسا حکمران نہیں مل سکا جو اس ملک،مذہب اور عوام کے ساتھ مخلص ہو اور دل میں اس کا درد رکھتا ہو ۔ہمارے تمام حکمران ملک کی ترقی،عوام کی اصلاح اور دین کی سر بلندی کی تڑپ سے عاری رہے بلکہ دین ہی سے نا واقف پائے گئے۔مغربی تہذیب اور مغربی طاقتوں کے ذہنی غلام بنے رہے۔ہر حکمراں روٹی کے ایک ٹکرے کے بدلے ملک اور عوام کو بیچتا ہی رہا۔ اقبال نے جانے کتنا عرصہ پہلے ہی کہ دیا تھا کہ:”مغربی تعلیم مشرق میں مغربی افکار اور تہذیب کے لیئے نو آباد یات کی زمین فراہم کرتی ہے اور بلند معیار زندگی کی ہوس پیدا کر کے نئے نئے مسائل سے دو چار کرتی ہے۔ ذہنی انتشار اور فکری انار کی اس کی بنیاد ہوتی ہے ۔ فکرو فلسفہ ،آزادانہ غورو خوض(Free Thinking)کے نام سے ذہنی بے ربطی اور پریشان خیالی کو جنم دیتی ہے”(نقوش اقبال ازسید ابو الحسن ندوی)

جب سے پاکستان بنا ہے ہمارے حکمرانوں کے افکار ،طور طریقوں اور سیرت وکردارکے اثر سے رعایا گلتی سڑتی چلی آرہی ہے۔ہم نے ہمیشہ گوروں سے ان کی خباثت،گندگی ،بے راہ روی اور بے حیائی ہی اپنائی۔اگرچہ اُن میں خوبیاں بھی ہیں۔صنعت ہو،علم ہو یا اپنے عوام کی بھلائی وہ ہر میدان میں نقطہ ء عروج پر پہنچے ۔ساری رات کلبوں میں داد عیش دے کر بھی صبح اپنی معاشرتی ذمہ داری میں مستعد ہوتے ہیں۔مغربی تہذیب کی یلغار سے ہماری علمی استعداد ،ٹیکنا لو جی وغیرہ میں اضافہ ہوتا تو کچھ بات بھی تھی۔ ہم نے توصرف کمپیوٹر پر عریانیت سے محفوظ ہونا،کوک برگر کھا کر ہائے مام کہنا ہی ترقی سمجھ لیا۔

اس یلغار کا سب سے بڑا ذریعہ ہمارے بے حس حکمران رہے اور آلہ ء قتل میڈیا۔۔۔۔میڈیا کو جس سوچی سمجھی سازش کے ذریعے معاشرے میں منفی طور پر استعمال کیا گیا اور کیا جا رہا ہے وہ سمجھنے کی بات ہے۔پاکستان ٹی وی کاجد امجد زیڈاے بخاری ترقی پسند انسان تھا۔اس کی ترقی پسندی کو نثار فتحی نے اپنی کتاب ”پاکستان میں مغربی ثقافت کانفوذاور اس کے اسباب”میں بڑی وضاحت سے بیان کیا ہے۔وہ لکھتے ہیں:۔ ”کراچی میں جب ٹی وی نیا نیا شروع ہونے والا تھاتو بخاری صاحب نے فنکاروں،لکھنے والوں اور متوقع پروڈیوسروں کے ساتھ ایک خصوصی نشست کی اور کہا کہ ٹی وی اس صدی کا سب سے موثر آرگن ہے ۔ اور سب سے موئثر کام نئی نسل کو ماں باپ کی تربیت سے نکال کر وہ بنانا ہے جو ہم چاہتے ہیں۔ اب یہ آپ کے ہاتھ میں ہوگا کہ آپ نئی نسل کیسی پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اور دوسرا اہم مقصدیہ ہوگا کہ قو م کو شعوری طور پر اس کا احساس نہ ہواور اسے فرسودہ مذہبی تصوارت سے آزاد کرائیں اور یہ اس خوبی سے ہوکہ پتا نہ چلے کہ آپ یہ مہم چلا رہے ہیں۔ مذہبی جنوننیوں اور مُلاؤں سے معاشرے کو پاک کردیں جو قومی آزاد خیالی چیلنج کرتے رہتے ہیں۔”

یہ بات 1968کی ہے۔ اب 2014ہے۔اس ساری مہم میں بھٹو کا کردار بھی بڑا اہم رہا۔ مجھے یاد ہے انہوں نے ٹی وی سکرین پر چند خواتین کے برقعے اتروا کر انہیں "آزادی”دلوائی تھی۔ رہی سہی کثرہمارے سابق ڈکٹیٹر ، پلے بوائے ، ینگ مین مشرف صاحب نے لڑکیوں کو نیکر پہنا کر اور خود پریذیڈنسی میں بھانڈوں ، مراثیوں اور کنجروں کے ساتھ ڈھول کی تھاپ پردھمالیں ڈال کے پوری کردی۔

یہ سب ہم پر ایسا اثر انداز ہو چکا ہے کہ ہم انفرادی سطح پر بھی درندگی اختیار کر چکے ہیں۔ درندگی اس معنی میں کہ درندوں کی طرح ہماری زندگی ہر قسم کے اصول ضوابط اور ڈسپلن سے عاری ہو چکی ہے۔ شرم حیا، سچ جھوٹ، حرا م حلال ہمارے نزدیک فرق کھو چکے ہیں۔ لیکن پھر بھی ہم لاعلاج نہیں۔ نسخہ وہی ہے جس کاذکر مولانا حالی نے کیا

اُتر کر حرا سے سوئے قو م آیا
اور اک نسخہء کیمیا ساتھ لایا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے