جنابِ وزیرداخلہ، توپھرسچ بولیں؟

چودھری نثار علی خان صاحب! مَیں آپ کا معترف تو اُس زمانے سے ہوں جب آپ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین تھے۔ وزیر داخلہ کے طور پر بھی آپ کے اقدامات نے مجھے آپ کی نیک نیتی کا گرویدہ کر دیا ہے۔ بیرون مُلک سے بغیر تصدیق کے پاکستان بھیجے جانے والے افراد کے سلسلے میں آپ کے سخت رویے پر تو مَیں نے باقاعدہ لکھا تھا اور اس کے بعض پہلو اُجاگر کئے تھے۔ اب شہباز تاثیر کی بازیابی کے سلسلے میں ایک آپریشن کی خبر پر آپ کا کمیٹی کا قیام اور یہ کہنا کہ ہمیں قوم کے سامنے سچ بیان کرنے کی عادت ڈالنی چاہئے، آپ کا ایک ایسا اقدام ہے جس نے مجھے چند اور سچ آپ کے سامنے رکھنے پر مجبور کر دیا ہے۔

یہ ایک مسلمہ فارمولا ہے کہ اختیار آدمی یا اداروں کو کرپٹ کرتا ہے۔ نیب،ایف آئی اے اور پولیس کا یہی معاملہ ہے، جو لوگ اب نیب کے پَر کاٹنے کی باتیں کر رہے ہیں، نیب اُن پر ہاتھ ڈالتا ہے تو چیخیں بھی اُنہی کی نکلتی ہیں اور وہ انتقام انتقام کی دہائی دینے لگتے ہیں، لیکن جو لوگ میٹرو بس اور موٹروے سے لے کر کالا باغ ڈیم تک کی مخالفت کر سکتے ہیں، وہ نیب کو کسی قاعدے قانون کا پابند کرنے کا کریڈٹ آپ اور مسلم لیگ(ن) کی حکومت کو کیوں لینے دیں گے؟نیب ایک احتسابی ادارہ ہے۔ یہ کوئی تھانہ پولیس نہیں ہے، کسی شخص کے خلاف کارروائی اور کارروائی سے زیادہ پراپیگنڈہ اس کے شایانِ شان نہیں ہے۔ نیب کو تمام تحقیقاتی اداروں کا تعاون حاصل ہونا چاہئے، پہلے تحقیق ہو اور جب یقین ہو جائے کہ جرم ہُوا ہے تو نیب کو پکا ہاتھ ڈالنا چاہئے۔ پلی بارگین پرویز مشرف نے مخالفوں کو جھکانے کے لئے متعارف کرائی تھی، اس کا خاتمہ ہونا چاہئے۔ نیب، ایف آئی اے اور پولیس کو میڈیا سے ایک ضروری فاصلہ رکھنا چاہئے، بالخصوص اُس و قت تک کوئی خبر میڈیا تک نہیں پہنچنی چاہئے، جب تک اس کا قوم کے سامنے لانا ضروری نہ ہو جائے۔

اداروں کے میڈیا میں آنے کے شوق سے دو نقصانات ہو رہے ہیں۔۔۔ ایک تو کسی کے مجرم قرار پانے سے پہلے اُس کی بدنامی، دوسرے بعض مقدمات میں مزید تفتیش اور تحقیق کا متاثر ہونا۔۔۔ قبل ازوقت میڈیا میں خبر آ جانے سے مجرم فرار ہو جاتے ہیں یا بچاؤ کی دیگر تدابیر اختیار کر لیتے ہیں۔ نیب کو تمام معاملات ایک مُعیّنہ مدت میں نمٹانے چاہئیں، دس دس سال پینڈنگ رکھنا درست نہیں۔۔۔ خواہ نیب ہو، خواہ ایف آئی اے یا پولیس یا کوئی دوسرا قانون نافذ کرنے والا ادارہ، ان کے لئے ضروری ہو کہ پہلے تحقیقات کریں، ثبوت جمع کریں، میڈیا میں شور مچا کر ثبوت ضائع نہ کریں اور جب مقدمہ پیش کریں تواُسے پایۂ تکمیل تک پہنچا کر مجرم کو کم از کم اُس کے جرم کی سزا ضرور دلائیں، جو اہلکار اپنا پیش کیا ہوا مقدمہ ثابت کرنے میں ناکام رہے، اُسے ایک محکمانہ سزا تنخواہ میں کمی، عہدے میں کمی یا ترقی میں رکاوٹ کی صورت میں بھگتنا پڑے اور جو مقدمے کو ثابت کر کے مجرموں کو سزا دلا دے، اُس کی تنخواہ، الاؤنس وغیرہ میں اضافہ، ترقی کے لئے زیادہ مواقع وغیرہ کی صورت میں حوصلہ افزائی کا قانون ہونا چاہئے۔

جناب وزیر داخلہ آپ کو گزشتہ دِنوں ایف آئی اے کے بعض مقدمات پر اعتراضات کے بعد ایک عدالتی کمیشن بنانا چاہئے تھا۔ مَیں سمجھتا ہوں یہ بہت ضروری ہے۔ ایف آئی اے نے حالیہ دِنوں میں بعض ایسی پھرتیاں دکھائی ہیں اور لامحالہ آپ کو بھی گمراہ کیا ہے، جو محکمے کی بدنامی کے ساتھ ساتھ ہمارے ہاں انصاف اور قانون کی نیک نامی کو بھی گہنا رہی ہیں۔ا س سلسلے میں سب سے پہلے ایگزیکٹ کے کیس کی مثال دینا چاہتا ہوں۔ ایف آئی اے نے ’’نیو یارک ٹائمز‘‘ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ پر ایگزیکٹ کو نشانہ بنایا گیا۔ ایسی رپورٹوں پر اگر کارروائیاں ہوں تو پھر ذوالفقار مرزا، مصطفی کمال، ڈاکٹر صغیر اور کسی بھی دوسرے کی پریس کانفرنس پر بھی ایف آئی اے کو فوراً حرکت میں آنا چاہئے۔ آپ شاید مجھ سے زیادہ بہتر جانتے ہوں کہ جعلی چیز وہ ہوتی ہے، جس کی کوئی اصل ہو، اصل کے بغیر کوئی نقل تیار نہیں ہو سکتی۔ ایگزیکٹ پر جن جعلی ڈگریوں کے الزامات لگائے گئے ہیں، وہ کسی معروف یونیورسٹی کی نقل نہیں تھیں۔ کاغذی اور انٹرنیٹ یونیورسٹیوں کی امریکہ میں بھرمار ہے، آپ ایک بار گوگل کی سرچ میں ڈگری کا لفظ ڈالیں، پھر دیکھیں کہ کیا کیا سامنے آتا ہے اور اس کے بعد ہر روز آپ کو ایسی ڈگریوں کی کتنی پیشکشیں ملتی رہتی ہیں۔

امریکہ میں ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار کے لئے کوشاں ڈونلڈ ٹرمپ نے زمین پر باقاعدہ ایک یونیورسٹی قائم کی تھی، جو غیر معیاری ہی نہیں تھی، اس پر فراڈ کے الزامات بھی ہیں اور یہ تفتیش اس وقت چل رہی ہے، لیکن ایف بی آئی نے ڈونلڈ ٹرمپ کو گرفتار کیا ہے، نہ اُس کے دوسرے بزنسز کو بند کیا ہے۔ ہمارے ہاں ایگزیکٹ کے مالک کو ذلیل کیا گیا، اسے جعل ساز اور فراڈیا بنا دیا گیا اور میڈیا میں اُس کا تماشا لگایا گیا۔ایگزیکٹ میں اگر کچھ خرابیاں تھیں تو اُنہیں دور کرایا جا سکتا تھا، مُلک کے ایک عظیم ادارے کو ذلیل کر کے بند کرا دینا ایسا ظلم ہے جس کی تلافی ناممکن ہے۔ آپ نے کبھی سوچا ہے کہ اس ادارے کی بندش سے کتنے لوگ بیروزگار ہوئے ہوں گے اور کتنے خاندانوں پر مشکل وقت نازل ہُوا ہو گا۔آخر ان ملازموں کا کیا قصور تھا؟

ایگزیکٹ کا واحد گناہ یہ تھا کہ وہ میڈیا کے میدان میں کچھ انقلابی اقدامات کے ساتھ ’’بول‘‘ کے نام سے وارد ہو رہا تھا۔ اُس کے تجارتی حریفوں کو حقیقی معنوں میں پسو پڑ گئے تھے۔ ’’بول‘‘ نے پہلی بار اپنے ملازمین کو اپنا شراکت دار بنانے کا آغاز کیا۔ ’’بول‘‘ نے اپنے ملازمین کو اتنی اجرت دی کہ وقت پر تنخواہیں نہ دینے والے اور اپنے ملازمین کو بھیک کی طرح معاوضے دینے والے، اپنے ضلعی نمائندوں کو خود بھی کھانے کمانے اور اُنہیں بھی کھلانے کی ہدایات دینے والے میڈیا ہاؤسز کے لئے یہ ناقابل برداشت بن گیا۔ اُن کے بڑے بڑے جغادری ملازمین خزاں رسیدہ پتوں کی طرح جھڑ جھڑ کر ’’بول‘‘ میں جمع ہونے لگے۔ہمارے عام اخبارات اور ٹی وی اپنے ملازمین کو ویج بورڈ ایوارڈ کے مطابق تنخواہیں دینے میں ہمیشہ لیت و لعل سے کام لیتے ہیں، لیکن ’’بول‘‘ نے ویج بورڈ ایوارڈ سے کہیں زیادہ تنخواہیں دیں اور ہونا بھی یہی چاہئے۔ ویج بورڈ کو میڈیا ملازمین کے لئے کم از کم کی حد متعین کرنی چاہئے۔ مالکان کو اس کم از کم سے زیادہ اجرتیں ادا کرنی چاہئیں۔ ’’بول‘‘ نے ملازمین کے لئے کافی، چائے بھی مفت دینا شروع کر دی تھی۔ رپورٹروں کے لئے گاڑیاں تھیں اور ایسی میڈیکل انشورنس، جس میں میاں بیوی ہی نہیں، والدین بھی شامل تھے۔ تنخواہیں ٹائم پر ملتی تھیں۔

بزعمِ خود میڈیا کے بڑے بن جانے والے اژدہوں کو یہ کیسے گوارا تھا کہ ان مراعات کی خاطر اُن کے ملازم ’’بول‘‘ میں چلے جائیں اور جو رہ جائیں وہ ’’بول‘‘ کے ملازمین کے مطابق تنخواہیں طلب کریں۔ جناب عالی آپ کو معلوم ہے ’’بول‘‘ کی بندش سے دو ہزار تین سو (2300) ملازمین بے روزگار ہوئے ہیں، جن میں صرف چند دوسری ملازمتیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے، بیشتر گیارہ ماہ سے تنخواہوں کے لئے در در فریاد لے کر جاتے ہیں ان کے خاندان رُل گئے ہیں، دو ہزار ملازمین کے خاندانوں کے افراد کو شمار کریں، کم از کم دس بارہ ہزار لوگوں کو معاشی مشکلات میں مبتلا کر دیا گیا ہے اور یہ سب کچھ ایف آئی آے کی پھرتیوں کا نتیجہ ہے۔ آپ خود اندازہ لگا لیں کہ اس کا عذاب کس کس کے سر جاتا ہے۔اے کے ذی کا معاملہ بھی ایسا ہی تھا، جس میں محض ایک رپورٹ کو بنیاد بنا کر اے کے ذی کا نام مقدمے میں شامل کر لیا گیا۔ کس قدر مضحکہ خیز بات ہے کہ ایک ریسرچ رپورٹ کو لزام بنا کر مقدمے میں گھسیٹ لیا جائے۔ اس سے تو بیرونی سرمایہ کاروں کے لئے خوف کی سزا پیدا کی جا رہی ہے۔ ایف آئی اے جسے چاہے مقدمات میں ملوث کر لے۔

ایک پاکستانی ڈاکٹر خاتون جو لندن کے کوینز ہسپتال میں کام کر رہی ہے، ایف آئی اے نے خبروں کے مطابق اُس کی ڈگریاں جعلی قرار دے کر اُس کے ریڈ وارنٹ جاری کرا دیئے، حالانکہ ہسپتال والے کہہ رہے ہیں کہ اس کی ڈگریاں درست ہیں، تصدیق شدہ ہیں۔ ڈاکٹر کا بیان یہ ہے کہ یہ اُس کے سابق شوہر کی کارستانی ہے۔ اگر واقعی یہی بات ہے تو پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ ایف آئی اے نے ڈاکٹر کے شوہر سے ساز باز کر کے کیس بنایا اور دیارِ غیر میں کام کرنے والی ایک خاتون کو پریشان کیا۔۔۔ جنابِ وزیر داخلہ! ان اداروں کو ذمہ دار بنائیں، انہیں ان کی حدود میں رکھنا اُن کے پَر کاٹنا ہر گز نہیں ہے۔ لامحدود اختیارات،لامحدود کرپشن کی راہیں کھولتے ہیں، لامحدود اختیارات پر مناسب قانونی قدغن ہر جگہ ضروری ہوتی ہے۔ کیا آپ پارلیمینٹ کے سامنے جواب دہ نہیں ہیں، کیا وزیراعظم جواب طلبی سے مستثنیٰ ہیں اس طرح تمام محکموں کو بھی جواب دہ ہونا چاہئے اور اُن کی ذمہ داری متعین ہونی چاہئے، اگر وہ اپنی ذمہ داریاں نہ نبھائیں، اس سے کم تر کارکردگی ہو تو بھی اُن کی باز پرس ہونی چاہئے اور اگر وہ اپنے اختیارات سے تجاوز کریں تو بھی اس پر کارروائی ہونی چاہئے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے