مہاجر کیا کریں؟

انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے تھوڑے ہی عرصے بعد اِس ملک پر ایک خاص قسم کا گروہ قابض ہوگیا جس نے نہ صرف عوام کو اپنے زیرتسلط کرنا چاہا بلکہ اپنی اجاراداری کو دوام بخشنے کیلئے ایسی پالیسی وضع کیں جس کی بدولت ملک کی باگ دوڑ ان لوگوں کے ہاتھوں میں آگئی جو ملک کو اپنی جاگیر اور عوام کو اپنی رعایا تصور کرتے ہوئے اِس کے مالکِ کل بن بیٹھے۔ لہذا ملک کی خاطر جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والوں کو آزادی کے بعد بھی غلامی کی کبھی نہ ٹوٹنے والی زنجیروں میں جکڑ دیا گیا۔ اِس ڈر سے کہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑی اِن زندہ لاشوں میں جذبہ حب الوطنی کے تحت اتحاد و اتفاق نہ پیدا ہوجائے اور ظلم و ناانصافی پر کھڑی اشرافیہ کی یہ سلطنت ڈھا نہ دیں لہذا تصادم کی سوچ کو پروان چڑھاتے ہوئے قوموں میں اختیارات و وسائل کی تقسیم غیر منصفانہ طور پر کی گئیں تاکہ قومیں ہمیشہ آپس میں دست وگریباں رہیں اور کسی طور ایک ملت کے خود کو پیش نہ کرسکیں۔

وسائل کی تقسیم اور حقوق کی فراہمی اصولی بنیادوں پر نہ ہونے کے سبب قوموں کے اندر احساسِ محرومی نے جنم لینا شروع کیا اور جب یہ احساس شدت اختیار کرنے لگا تو قوموں کا آپس میں ٹکراؤ شروع ہوگیا جس کا فائدہ اقتدار و اختیارات پر قابض یہی مخصوص ٹولہ اٹھاتا رہا ملک و قوم کی بدقسمتی یہ رہی کہ ایسے عناصر کو ہمیشہ ریاستی اداروں کی سرپرستی حاصل رہی جس کے باعث اشرافیہ کا یہ ٹولہ 68 سالوں سے کبھی جمہوریت کا نام لیکر تو کبھی آمریت کا خوف دلاکر ملک کی غریب و مظلوم عوام کا خون چوستا آرہا ہے۔ جب کبھی غریب و مظلوم عوام نے اپنے حقوق کیلئے آوازِ حق بلند کرنا چاہی اسے فلفور سازشوں اور ریاستی جبر کے ذریعے دبانے کی کوشش کی جاتی رہی۔ اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا جب عوام اپنے حقوق کی آخری جنگ لڑنے ریاست کے سامنے ڈٹ گئے جبکہ اس وقت بھی اشرافیہ نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ریاستی جبر سے کام لیا جس کے نتیجے میں ملک دولخت ہوا۔

جو قوم حضرت قائداعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ کے شانہ بشانہ تحریک پاکستان کی جدوجہد میں پیش پیش تھی جس قوم نے جدوجہد آزادی کے دوران سب سے زیادہ جانوں کا نظرانہ پیش کیا انھیں اسی مفادپرست ٹولے نے بغاوت پر مجبور کردیا۔ بجائے اسکے کہ ٹھوکر کھانے کہ بعد ماضی سے سبق سیکھتے اپنے رویوں میں تبدیلی لاتے آج بھی قوموں کا استحصال کیا جارہا ہے چار اکائیوں کی پاداش میں دیگر قوموں کے وقار کو مجروح کرنا کہاں کی حب الوطنی ہے۔

آج ملک میں موجود ہر مظلوم طبقہ اپنے حقوق کی پامالی پر نوحہ خوانی کرتانظرآتاہے۔ اِنھی مظلوم طبقات میں سے ایک بانیانِ پاکستان کی اولادیں ہیں جو کب سے اپنے جائز حقوق کی جنگ لڑ رہی ہے لیکن اقتدار کے نشے میں دھت اشرافیہ بجائے انکے جائز مطالبات کو تسلیم کرتے ہوئے انکی محرومیوں کو دور کرے انھیں تقسیم در تقسیم کرنے کے فارمولے پر عمل پیراں ہے آج بھی بھائی کے ہاتھ بھائی کے خون سے رنگے جانے کی ترکیبیں آزمائی جارہی ہیں خدارا بند کرو یہ خون کی ہولی کھیلنا 68 سالوں سے جاری اِس خونی کھیل کا شکار ہوتے آرہے ہیں تین نسلیں خون میں نہا چکیں ہیں لیکن پھر بھی تمھاری پیاس نہیں بجھتی اب بس کردو اب نسلوں کو پروان چڑھنے دوانھیں پڑھنے دو میری قوم کے جوانوں کو باغی مت بناؤ یقین کرو مہاجر کچھ نہیں چاہتا ملک کی تقسیم نہ صوبے کی تقسیم،مہاجر تو اِس ملک کی ترقی میں شانہ بشانہ کھڑے ہوکر اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہتا ہے، ملک کی تعمیروترقی کیلئے خود کو اسکا اہل بنانا چاہتا ہے۔

مہاجر بھی پاکستان کا اسی طرح ایک معزز شہری ہے جس طرح ایک پنجابی، سندھی، بلوچی یا پٹھان ہے یہ بھی دیگر کی طرح اپنے اکثریتی علاقوں میں اپنے اتنظامی امور چلانے کا حق اور اختیار چاہتے ہیں جو کہ بالکل جائزمطالبہ ہے تاریخ گواہ ہے قوموں میں تصادم کی اصل وجہ اُنکے حقوق کی پامالی ہے تحریکِ پاکستان سے لیکر سقوطِ ڈھاکہ تک کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں۔ اِس حوالے سے مہاجر قوم سے اتنا کہنا چاہیں گے کہ اپنے خلاف ہونے والی سازش کے پیشِ نظر اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھنے کی ضرورت ہے سازشی عناصر اب کھل کر اِس قوم کے اتحاد کو ریزہ ریزہ کرنے کیلئے عملی طور پر میدان میں آچکا ہیں۔

سازش گہری ہے لہذا مثبت سوچ کے ساتھ نہایت صبروتحمل سے اسے ناکام بنانے کی ضرورت ہے منتشر نہیں ہونا کیونکہ انتشار کی صورت میں سازشی عناصر کو اپنے مقاصد میں تقویت ملے گی۔قائداعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ کے اس فرمان (اتحاد،تنظیم،یقین محکم) کوذہنوں میں رکھتے ہوئے اپنا نظریہ پیش کرنے کی ضرورت ہے۔میں اِس حوالے سے پاکستان کے مثبت سوچ کے حامل سیاسی رہنما جن میں سابق صدر جناب جنرل پرویز مشرف سندھ دھرتی کی عظیم شخصیت جناب سائیں پیر پگاڑا سے کہنا چاہونگا کہ وہ آئیں آگے بڑھیں اورسندھ میں مبینہ سیاسی صورتحال اور تصادم کی فضاء کے خاتمے کیلئے اپنا مثبت کردار ادا کریں تاکہ ملک سے انتشار و بدامنی کا خاتمہ ہوسکے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے