میرا کہنا یہ ہے

دوستوں کے سامنے ایک سوال رکھا تھا کہ لکھنے والا عالم دین سیکولر لوگوں کے ہاں راحت کیوں محسوس کرتا ہے ؟اسے غامدی لوگوں کی رفاقت کیوں اچھی لگتی ہے ؟

دوستوں نے مختلف آراء دیں کسی نے کہا کہ پیسہ… کسی نے احساس کمتری اور کسی نے کیا اور کسی نے کیا جواب دیا..چلیں ہمیں بھی پڑھ لیں..پڑھنے میں حرج ہی کیا ہے ؟ باتیں بری لگیں تو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیں اچھی لگیں تو دماغی کھوپڑی میں بٹھا دیں.

ایک بات بطورِ تمھید کے پلے باندھ لیں کہ انسانی فطرت میں سوال کرنا قدرت نے رکھا ہے آپ بچوں کو دیکھ لیں وہ بھی سوال کرتے ہیں لیکن بعض بچے ایسے سوالات کرتے ہیں کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے..آپ خدا کی بات کریں تو بچے پوچھتے ہیں خدا کون ہے ؟کہاں ہے ؟کیاکرتا ہے ؟ یہ سوال عموما آپ نے سنے ہونگے ؟ ایک بچہ جو شعور کی پہلی سیڑھی بھی نہیں چڑھا وہ سوال اٹھاتا ہے تو کیا یہ ممکن ہے کہ شعور کی منزلیں طے کرنے والا ایک ذہین شخص سوال نہ کرے؟سوال تو اٹھتے ہیں..جب سوال اٹھیں تو جواب کیسے دینے چاہیے ؟اس پہ ہم نے نہیں سوچا..ہم نے سوالات کا دروازہ بند کر دیا ہے ہم نے طے کر رکھا ہے جو لوگ پہلے سوچ کے چلے گئے بس سوچیں وہی تھیں مزید سوچنا بند.

کیا یہ طریقہ ٹھیک ہے ؟

ہم تو اسلام کے نام لیوا ہیں اسلام کہتا ہے سوچو عقل سے کام لو .. ہم نے کہا کہ عقل کا شریعت میں کیاکام ؟ سرکار کے دروازے پہ جائیں کہ وہاں کیسے کیسے سوالات اٹھائے گئے اسلام کے رہبر نے کبھی برا منایا ؟ آپ سوالات کو چھوڑیں یہ دیکھیں کہ حضور کے سامنے مری ہوئی اشیاء لائی جاتیں اور کہا جاتا کہ انہیں زندہ کرو اور کملہ پڑھاؤ ہم تب مانیں گے حضور نے یہ بھی کیا..کیا آج اس چیز کی اجازت کوئی رہنماء دے سکتا ہے ؟ نہیں تو کیوں دے سکتا ؟ اگر دے سکتا ہے تو کون ہے ؟ آپ سے بہتر کون جانتا ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر حضرت عمر نے سوال اٹھائے حضور یہ کیسی شرائط ہیں ؟ کیا حضرت عمر سے جو سلوک کیا کیا آج وہ سلوک ایک سوال اٹھانے والے سے روا رکھا جاسکتا ہے ؟ اگر کوئی کارکن سوشل میڈیا یاکسی مجلس میں جماعت کے متعلق یا مذہبی موضوع پہ سوال پوچھ لے تو کہا جاتا ہے کہ یہ فورم نہیں ہے جبکہ اسلام کی طرف دیکھیں کہ حضرت عمر سے مجمع میں کھڑا ہو کے سوال پوچھاجاتا تھا یہ دو چادریں کہاں سے لائی ہیں آپ نے ؟ حضرت عمر جواب دیتے ہیں وضاحت کرتے ہیں ..کیا وہ کھلا فورم نہیں تھا؟کیا آج اس طرح ممکن ہے ؟ یہ اجازت ہم نےچھین لی ہے اگر کوئی مجمع عام میں یہ گستاخی کر دے تو کیا اسکی گردن نہیں دبوچ دی جائے گی؟

معذرت کے ساتھ عرض کر رہا ہوں کہ یہ روش سیکولر اور غامدی حلقہ کے لوگوں نے اپنا لی ہے.. وہ نمود نمائش والے ہی سہی لیکن سوال اٹھانے سے ہرگز نہیں روکتے..یہ طریقہ انہوں نے لے لیا اور ہم نے چھوڑ دیاہے …
دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ اگر کوئی ہم سے اختلاف کر دے تو اس سے قطع تعلقی کر لیتے ہیں اسے دیوار سے لگا کر چھوڑتے ہیں اگر ایک قدم روایتی موضوع پہ اٹھ جائے تو باقی سارے قدم ہمارے رویے اٹھوا دیتے ہیں جبکہ سیکولر لوگوں کے ہاں ایسا نہیں ملے گا.

حضور صلی اللہ علیہ وسلم پہ گند ڈالنی والی عورت بیمار ہوجائے حضور عیادت کو چلے جاتے ہیں جبکہ یہ مثالیں دینے والے بندے کو بیمار کر دیتے ہیں مجبوراً لکھ رہا ہوں فرنود عالم سیکولر سہی غامدی سہی سبوخ سید غامدی سہی سیکولر سہی آپ ان سے اختلاف کریں جب ملاقات کا کہیں تو بانہیں پھیلائیں کھڑے ملیں گے لاکھ اختلاف کریں لیکن رنجش کا شائبہ بھی نہیں پائیں گے..اوریاد آیا کہ سیکولر ازم کے استاد جناب وجاہت مسعود صاحب کی تصویر آپ نے شاد مردانوی کیساتھ دیکھی ہو گی کہ وجاہت مسعود صاحب کا ہاتھ شاد مردانوی کے گلے میں تھا اتنا بڑا عالم اور ایسا اخلاق ہمارے ہاں ملتا ہے ؟جذباتی نہ ہونا ٹھنڈے دماغ سے بتانا:

شاد مردانوی مولوی ہے اور مسعود صاحب سیکولر حلقوں کا بڑا نام.. اگر ہمارا کوئی رہنما اس طرح بانہیں کسی سیکولر نوجوان کے گلے میں ڈال دے تو ہم نے اسے بھی سیکولر بنا دینا ہے..ایک تواختلاف چھوٹا اورپھر کرم یہ ہوا کہ اخلاق کا دامن بھی چھوٹ گیا.راہ و رسم بھی گئی بول چال بھی تیل لینے چلی جاتی ہے.. میرے آقا نے گفتگو سے کبھی انکار نہیں کیا اختلاف کے باوجود غیرمسلموں سے بھی راہ ورسم رکھے ہمارے ہاں مولانا شیرانی اہل تشیع لوگوں سے بیٹھ جائے یا مولانا طارق جمیل امام بارگاہ سے ہو آئے تو ہم انہیں کافر بنا کے چھوڑتے ہیں..آج یہ وقت آگیا ہے کہ لوگ ڈر کے مارے کسی فریق مخالف کے ساتھ اس وجہ سے نہیں بیٹھتے کہ کہیں فتوی نہ لگ جائے..شیرانی صاحب یا مولانا فضل الرحمن کو چھوڑیں مولانا لدھیانوی کا کیا حال کیا گیا؟؟آپ سیکولر لوگوں کو کافروں سے بھی بدتر جانیں لیکن وہ اپنی سائیٹ پہ اسلامی صفحہ کھولتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ مذہبی موضوعات پہ لکھیں.. کیا ہم اپنے جرائد اور رسائل میں ایسے لوگوں کو گوارہ کر سکتے ہیں جو سیکولرازم کی بات کرے؟؟فرق تو ہے نا…!!!

ڈائیلاگ والا بندہ قیدی بن کے تو نہیں رہ سکتا وہ دیکھتا ہے کہ یہاں دم گھٹتا ہے تو وہ آزاد پنچھی بن جاتا ہے…یہ آزاد پنچھی کون بناتا ہے فیصلہ خود کیجئیے…
تیسری چیز ہے خود کو ہی ٹھیک سمجھنا میں قربان جاؤں اپنے استادوں کی فراست پہ واللہ کمال لوگ ہیں..آپکو معلوم ہے کہ ہمارے ہاں فریق مخالف کانام لینا بھی جُرم ہے مولانا زاہدالراشدی کے مدرسے کانتیجہ اس وجہ سے روک دیا جاتا ہے کہ الشریعہ رسالہ ہر ایک کو کیوں کوریج دیتا ہے دجالی میڈیا پہ گلہ کرنے والے اپنے ایک عالم سے یہ سلوک کرتے ہیں اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ رسالہ مکمل عمار خان ناصر کے قبضے میں چلا جاتا ہے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے