شجر بے سایہ

ایسا کیوں ہوتا ہے؟ہر انسان دوسرے کے برابر کیوں نہیں؟ کیوں اتنا فرق ہے طرز زندگی میں ؟ ایک رہے محل میں اور دوسرا جھونپڑے کو بھی ترسے ۔۔ ایک پر من و سلویٰ اترے اور وہ اپنے بھوکے بھائی کا سوچے بغیر اپنا شکم بھر لے اور دوسرا خالی پیٹ بھی مسکراتا رہے ۔

کیوں ہے انسانوں میں یہ فرق ۔۔ بھوک تو سب کو ایک جیسی لگتی ہے پھر سب ایک جیسا کھا کیوں نہیں سکتے؟ سر پہ سائبان ہر شخص کی ضرورت ہے، ایک بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اسے کیا معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی محل میں اترے گا ، یا پھر اس کی آنکھ کوڑے کے ڈھیر میں کھلے گی تو ایسا کیوں نہیں ممکن کہ سب ایک سے گھروں میں رہ سکیں ۔

میں تو حدیث نبویﷺ سننے کے باوجود اپنے بھائی کے بھوکا ہونے کے باوجود خود سیر ہوکر کھانا کھاتا ہوں ، اپنے بچوں کے لیے تو دنیا کی ہر چیز لا کر دینے کے لیے الٰہ دین کے چراغ کا جن بن جاؤں لیکن اپنے کسی بھائی کے گھریلو حالات جاننے کے باوجود اس کے لیے کچھ کرنے سے قاصر پاؤں اپنے آپ کو ۔۔۔

میں بھی کیا کروں ؟ ایک انسان ہوں فرشتہ تو نہیں ، گندگی بھری ہے جسم میں بھی اور سوچ میں بھی ۔۔۔ مٹی سے گندھے ہوئے جسم سے کیا توقع کی جاسکتی ہے ؟ اس ذہن میں خیال بھی تو شیطانی بھرے ہوتے ہیں ۔۔ جانتے ہیں کہ مٹی سے پیدا ہونے والے جسم نے جانا بھی مٹی میں ہے اور وہ بھی خالی ہاتھ پھر بھی سب کچھ سمیٹ کر رکھتے ہیں ۔۔ وہ جس کو اگلے لمحے کا علم نہیں وہ ایک سو برس کی تیاریاں کرتا ہے ۔۔ اے بندے تیری کیا اوقات۔۔ لیکن وہ دوسرے کو اس کی اوقات یاد دلانے کی جستجو میں لگا رہتا ہے ۔

بچوں کے لیے باپ سب سے بڑا سپر مین ہوتا ہے مگر اسے کیا علم کہ وہ جسے سپر مین سمجھ رہے ہیں وہ اندر سے کس قدر کھوکھلا ہوچکا ہے اس معاشرے کی برائیوں کی دیمک کا شکار ہونے کے بعد ۔۔ وہ تو بچہ ہے اس نے خواہش کرنی ہے فرمائش کرنی ہے ۔۔ پوری ہوتی دیکھ کر وہ یہ کہتا ہے کہ میرا باپ ہر کام کر لینے کا اہل ہے اس لیے یہ سپرمین ہی ہے ۔۔ اسے کیا معلوم اس بے چارے باپ پر کیا بیتی ہوگی ان فرمائشوں کو پورا کرتے ۔۔ کتنے جتن کیے ہوں گے ۔

پھر وہ بچہ جب خود باپ بنتا ہے تو اپنے باپ پر اسے اور بھی پیار آنے لگتا ہے ، اسے معلوم ہوتا ہے کہ جس چیز کی شکایت اس کے دل میں تھی وہ بہت چھوٹی سی تھی ۔۔ اگر وہ چاہے بھی تو اپنے باپ کے کیے کا احسان نہیں اتار سکتا ۔۔ آج یہ سطریں لکھتے ہوئے میں بھی یہ مانتا ہوں کہ میرے والد نے جو کچھ کیا اپنی اولاد کے لیے ہم اس کا آدھا بھی اپنی اولاد کے لیے کرنے کے اہل نہیں ۔۔
وہ عظیم تھے ، انہوں نے اپنی ہر چھوٹی بڑی خواہش کا گلا گھونٹ کر ہماری خواہشات کی تکمیل کی، اپنے لیے کئی برس کپڑے نہ بنوائے ہوں مگر ہمارے لیے بہترین لباس کا انتخاب کیا ۔

اے اللہ ۔۔ اگر ایسے والدین دیئے تھے تو پھر ان کو واپس کیوں لے لیا، اب تو عادت پڑ گئی تھی فرمائشیں کرکے اسے پورا ہوتے دیکھنے کی ، وہ فرمائش پوری کرنے والوں کا سایہ کیوں چھین لیا ۔۔ میں تو آج بھی وہی بچہ بنے رہنا چاہتا ہوں جس کی جائز و نا جائز خواہشات پوری ہوتی ہوں ، آج میں اتنا بے بس کیوں ہوں ۔۔ میں اپنے والدین کی طرح کا حوصلہ کیوں نہیں پاتا کہ دکھوں کو دل میں لپیٹ کر ہونٹوں پر مسکراہٹ لا سکوں ؟

کاش میں بھی ایک سایہ دار درخت بن سکوں ، کاش اے کاش

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے