نالج کاریڈور

پاکستان میں یہ تو ہرذی شعور جانتا ہے کہ وفاقی حکومت چین کے ساتھ مل کر اقتصادی راہداری کے منصوبے پر کام کر رہی ہے،جنہیں منصوبے کے بارے میں زیادہ ادراک نہیں تھا انہیں اس منصوبے کو ؛گیم چینجر؛ قرار دینے والوں نے بعض اقدامات کے ذریعےخود ہی اس قدرمتنازع بنا دیا کہ یہ چین پاکستان اقصادی راہداری کی بجائے چین پنجاب اقتصادی راہداری پکارا جانے لگا اور یوں زبان زد عام ہو گیا۔ چھوٹے صوبوں کے تحفظات کے باوجود اس اقتصادی راہداری منصوبے کو تو پایہ تکمیل تک پہنچنا ہی ہے کیوں کہ اس کی ؛حفاظت؛کی ذمہ داری آہنی ہاتھوں نے لے لی ہے، یہی وجہ ہے کہ راہداری کو صوبے سے گزارنے پر سرعام دھمکیاں دینے والے اب نجی محفلوں میں صرف زیر لب بڑبڑانے پر مجبور ہو چکے ہیں ۔ شنید یہ بھی ہے کہ اس راہداری سے متعلق تمام تر امور کی باگ دوڑ سنبھالنے کے لیے جلد ہی ایک "مقتدر”اتھارٹی عمل میں لائی جا رہی ہے تاکہ نہ تو اس منصوبے پر چوں چراں کا کوئی احتمال باقی رہے اور نہ ہی حکومتوں کی تبدیلی سے اس پر کوئی آنچ آئے۔ اس مجوزہ "مقتدر” اتھارٹی کے بارے میں آئندہ کبھی تفصیلات بیان کروں گا کیوں کہ آج کا موضوع وہ کاریڈور ہے جو پاکستان امریکہ کے اشتراک سے قائم کرنے کا خواہاں ہے اور جس کے بارے میں کم لوگ ہی جانتے ہیں۔ وفاقی حکومت نے اسے پاک یو ایس نالج کاریڈور کا نام دیا ہے۔ چین پاکستان اکنامک کاریڈور کی طرح اس کاریڈور کے روح رواں بھی وفاقی وزیر منصوبہ بندی جناب احسن اقبال ہی ہیں جنہیں حال ہی میں یو این ڈی پی نے رکن ممالک کے درمیان ترقیاتی اہداف مکمل کرنے کے پروگرام کے نگران کے طور پر ؛چیمپئن منسٹر؛ مقرر کیا ہے۔ پاک یو ایس نالج کاریڈور کی جزئیات پر تفصیلی بات چیت وزیر اعظم نواز شریف کے گزشتہ سال دورہ امریکہ کے دوران ہوئی تھی ۔ نالج کاریڈور منصوبے کے تحت امریکہ کے تعاون سے سال 2025 تک 10 ہزار پاکستانیوں کو پی ایچ ڈی کرائی جائے گی۔

سرکاری تخمینے کے مطابق ملک بھر میں قائم ہونے والی نئی یونیورسٹیوں،اضلاع کی سطح پر ان کے کیمپسز اور سب کیمپسز اور موجودہ اداروں کے لیے آئندہ نو سال میں تقریبا دس ہزار پی ایچ ڈی افراد درکار ہوں گے تاہم ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے لیے یہ بھی ضروری قرار دیا گیا ہے کہ یہ کسی معیاری ادارے سے حاصل کی جائے۔ چونکہ دنیا بھرکی یونیورسٹیوں کے درمیان کی جانے والی درجہ بندی میں امریکہ کی درسگاہیں سب سے بہترہیں اس لیے وفاقی حکومت کی کوشش ہے کہ پاکستان سے اعلی تعلیم کے لیے بیرون ممالک بھجوائے جانے والے افراد اعلی ترین ڈگری بھی انہی بہترین امریکی اداروں سے حاصل کریں۔ ویژن 2025 کے خالق چیمپئن منسٹر نے تمام صوبوں اور دیگرفریقین کی مشاورت سے تیار کی جانے والی اس دستاویز میں جو سات اہداف مقرر کئے ہیں ان میں اولین ترجیح انسانی ترقی کو ہی دی ہے اور یہ بھی اعتراف کیا ہے کہ اس عرصے تک اگر پاکستان کو اپر مڈل انکم کمانے والے ممالک کی صف میں شامل کرنا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ تعلیم کے شعبے میں سرمایہ کاری کو بڑھایا جائے اور خصوصا اعلی تعلیم میں ایسے افراد پیدا کئے جائیں جو جددید دور کے تقاضوں کے مطابق نالج اکانومی میں بھرپور کردار ادا کر سکیں۔

ویژن 2025 کی دستاویز کے مطابق گزشتہ ایک عشرے میں پاکستان کی فی کس آمدنی صرف تین فیصد کی شرح سے بڑھی جبکہ بنگلہ دیش،بھارت،چین ،جنوبی کوریا اور سری لنکا جیسے ممالک میں فی کس آمدنی کی شرح میں چھ سے نو فیصد اضافہ ہوا۔ یہ بھی باور کرایا گیا کہ اگر پاکستان نے اسی ڈگر پر اپنا سفر جاری رکھا تو آئندہ تیس سال میں پاکستان کی فی کس آمدنی انڈونیشیا کے مساوی تیس ہزار ڈالرز تک پہنچے گی تو تب روس کی پندرہ ہزار،پرتگال کی اکیس ہزاراور اسپین کی تیس ہزار ڈالرز تک پہنچ چکی ہو گی۔ صورتحال کو اپنے حق میں کرنے کے لیے وفاقی حکومت نے منصوبہ بندی کی ہے کہ تعلیم کے شعبے کے لیے مختص کیے جانے والے وسائل کو قومی آمدنی کے چار فیصد تک بڑھایا جائے گا جبکہ اعلی تعلیم کی سطح پر انرولمنٹ کی شرح کو بتدریج سات فیصد سے بڑھا کر بارہ فیصد تک لایا جائے گا۔ پاکستان کی سماجی اوراقتصادی ترقی کو یقینی بنانے کے لیے بلا شبہ نالج کاریڈور بھی ایک گیم چینجر ہی ہے لیکن یہاں کچھ حقائق کا ادراک کرنا بھی ضروری ہے تاکہ اس منصوبے کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کی جا سکیں۔

سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ دس ہزار پی ایچ ڈی افراد پید اکرنے کے لیے ضروری ہے کہ اعلی تعلیم کی سطح پر داخلے کی شرح بھی اسی تناسب سے بڑھائی جائے ۔ موجودہ شرح جو بمشکل سات فیصد ہے اس میں اتنی بڑی تعداد میں افرادکو ڈاکٹریٹ کی ڈگری دلوانا تقریبا نا ممکن ہے۔ بھارت میں یہ شرح 18 فیصد اور ملائیشیا میں 42 فیصد تک ہے۔ خود سوچیں جب بنیاد ہی مضبوط نہیں ہو گی تو اس پر عالی شان عمارت کیسے تعمیر کی جا سکتی ہے ۔ جس ملک میں اڑھائی کروڑ بچے اسکول کے نام سے نا آشنا ہوں،پرائمری سطح پر داخلے کی شرح 68 فیصد ہو، مڈل کی سطح پر یہ شرح 22 فیصد اور ہائی اسکول کی سطح پر صرف 13 فیصد ہو، 19 فیصد لڑکیاں اس لیے ہائی اسکول سے تعلیم کو خیر آباد کہ دیں کیوں کہ ان کے والدین ان کی تعلیم بوجھ اٹھانے کی سکت نہیں رکھتے۔

سیکنڈری سطح پرصرف داخلہ لینے والی خوش نصیب لڑکیوں کی شرح صرف 29 فیصد ہو،جس ملک کے پرائمری اسکولوں میں سے ایک تہائی میں صرف ایک استاد ہو اور جس میں صرف ایک صوبے میں گھوسٹ اسکول ہزاروں کی تعداد میں ہوں، جہاں 48 فیصد اسکولوں میں چار دیواری سے باتھ روم تک بنیادی سہولیات بھی میسر نہ ہوں، جس ملک کے گریجوایشن کرنے والے بھی 75 فیصد ایسے ہوں جو عالمی معیار کے مطابق ملازمت کے اہل نہ ہوں،جس کی مجموعی شرح خواندگی اپنا نام لکھنے اور پڑھنے کی اہلیت رکھنے والوں کو شمار کر کےبھی 58 فیصد ہو اور جو اقوام متحدہ کی طرف سے سونپے گئے میلینئیم ڈویلپمنٹ گولز کو بھی حاصل کرنے میں ناکام ہو جائے وہاں نالج کاریڈور کے تحت 10 ہزار افراد کو پی ایچ ڈی کرانا دن میں خواب دیکھنے کے مترادف ہی ہے۔ ویسے پاکستان میں تو بعض ایسے پی ایچ ڈی افراد بھی پائے جاتے ہیں جن کے بارے میں ڈاکٹر ہود بھائی نے کہا کہ انہیں کوئی ریسرچ پیپر پڑھنا پڑ جائے تو وہ مضحکہ خیز حد تک غلط ہوتا ہے لیکن نام نہاد عالمی جرنلز میں تحقیقاتی مقالے شائع کرانے والے ایسے افراد نہ صرف خود کو ڈاکٹر بلکہ پروفیسر ڈاکٹرکہلاتے ہیں۔ یہاں وفاقی حکومت سے گزارش ہے کہ چین پاکستان اکنامک کاریڈور کی طرح پاک یو ایس نالج کاریڈور کو بھی اٹھارویں ترمیم کی آڑ میں صرف وفاق اور پنجاب تک محدود نہ رکھے بلکہ اس سے استفادہ کرنے کے لیے ملک بھر کے طلباو طالبات کو بلا امتیاز یکساں مواقع فراہم کئے جائیں۔

نالج کاریڈور کی تمام تر جزئیات کو حتمی شکل دے کر اس کی مناسب تشہیر کی جائے تاکہ مطلوبہ اہلیت کے افراد اس سے بھرپور فائدہ اٹھا سکیں۔ پی ایچ ڈی پروگرام کے لیے افراد کے انتخاب کا طریقہ کار وضع کرتے وقت پسماندہ علاقوں کے کوٹہ کو بھی ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ امیدواروں کے انتخاب کے لیے جو بھی کمیٹی یا بورڈ تشکیل دیا جائے اس میں تمام صوبوں اور فاٹا سمیت دیگر تمام اکائیوں کو نمائندگی دی جائے۔ تمام صوبوں کی مشاورت کے ساتھ پرائمری سے پوسٹ گریجوایشن کی سطح تک تعلیم کے فروغ کے لیے انقلابی اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ بڑی تعداد میں ایسے قابل افراد مل سکیں جو ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر کے ملک کی ترقی اور خوشحالی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ آخر میں دعا گوہوں کہ چین پاکستان اکنامک کاریڈور کی طرح پاک یو ایس نالج کاریڈور بھی کامیابی سے ہمکنار ہو۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے