تحفظ نسواں بل، مذہبی جماعتیں اورمفتی عبدالقوی کا نیا فتویٰ، موضوع کی مکمل خبر

[pullquote]تحفظ نسواں بل فوری واپس لیا جائے، مذہبی قائدین[/pullquote]

مذہبی جماعتوں نے پنجاب میں حال ہی میں منظور کیے جانے والے تحفظ نسواں ایکٹ کو فوری طور پر واپس لینے اور اسلامی نظریاتی کونسل کے مشاورت سے نیا قانون لانے کا مطالبہ کیا ہے۔

یہ مطالبہ لاہور میں جماعت اسلامی کے ہیڈکوارٹر منصورہ میں مختلف مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں کے اجلاس کے بعد مشترکہ اعلامیے میں کیا گیا۔

یہ اجلاس خواتین کو گھریلو تشدد سے تحفظ دینے کے لیے منظور کیے جانے والے قانون اور ممتاز قادری کی پھانسی سمیت مخلتف امور پر غور کے لیے بلایا گیا تھا۔

اپنے افتتاحی کلمات میں جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق کا کہنا تھا کہ مذہبی جماعتیں خواتین پر ہر قسم کے تشدد کے خلاف ہیں۔ لیکن پنجاب اسمبلی نے جو بل منظور کیا ہے اس سے معاشرے میں طلاق کی شرح میں اضافہ ہو گا، اور اس بل کے خلاف سب سے پہلے آواز بھی خواتین نے اٹھائی ہے۔

’موجودہ بل تشدد کے خاتمے کے لیے نہیں بلکہ خاندانی نظام کی بربادی کے لیے ہے۔ اس بل سے گھر کی حرمت اور خلوت ختم ہو گی جس کا حق پاکستان کے آئین میں دیا گیا ہے۔‘

سراج الحق کا مزید کہنا تھا کہ ’آئین کا تقاضا ہے کہ ہمارا گھریلو نظام شریعت کے مطابق ہو، حکومت اس کے برعکس کام کر رہی ہے۔ اس بل کو ختم کرنا ہے اور حکومت کو مجبور کرنا ہے کہ اسے واپس لے۔‘

Ulama Meeting WPB

اجلاس کے اختتام پر جاری کیے گئے اعلامیے میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ تحفظ خواتین سے متعلق موجودہ قوانین پر سختی سے عمل کروایا جائے۔ حکومت 27 مارچ سے پہلے نئے قانون کو واپس لے ورنہ 1977 جیسی تحریک جنم لے سکتی ہے۔ علما سیکیولر اور لبرل نظریات کا مقابلہ مل کر کریں گے۔

اس سلسلے میں دو اپریل کو اسلام آباد میں مذہبی رہنماؤں کی کانفرنس بلائی جائے گی جس میں مستقبل کے لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا۔

اعلامیے میں ممتاز قادری کی پھانسی کی بھی مذمت کی گئی اور مطالبہ کیا گیا کہ توہین مذہب کے جرم میں جیلوں میں بند مجرموں کے مقدمات کا فیصلہ قانون کے مطابق جلد کیا جائے۔

اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ دہشت گردی کو مدارس سے جوڑنے کا عمل بند کیا جائے اور مدارس اور مساجد پر لگائی گئی نامناسب پابندیاں ختم کی جائیں۔

اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری کرے اور دہشت گردی کے خلاف قومی لائحہ عمل کی تمام شقوں پر عمل درآمد کیا جائے۔

کانفرنس میں نیا قانون لانے کے لیے وفاقی اور صوبائی سطح پر مذاکراتی کمیٹیاں بنانے پر اتفاق کیا گیا۔

[pullquote]پنجاب اسمبلی کا منظور شدہ نسواں بل واپس لیا جائے،حنیف جالندھری[/pullquote]

کراچی…….وفاق المدارس کے ناظم اعلیٰ قاری حنیف جالندھری نے مطالبہ کیا ہے کہ پنجاب اسمبلی کا منظور شدہ تحفظ نسواں بل واپس لیا جائے، اگرحکومت خواتین کے حقوق کاتحفظ چاہتی ہے تو وراثت،جبری شادی ، قرآن سے شاد ی اور تین طلاقوں جیسے بنیادی مسائل پرعلما کی مشاورت سے قانون سازی کی جائے۔

قاری حنیف جالندھری نے جامعہ بنوریہ سائٹ کراچی میں مفتی محمد نعیم کے ساتھ نیو زکانفرنس کی۔ قاری حنیف جالندھری نے کہاکہ علما اور دینی جماعتیں حقوق نسواں بل کو مسترد کرچکے ہیں، حکومت یہ قانون واپس لے اور خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لئے علما کی مشاورت سے نیا بل لائے۔

مفتی محمد نعیم نے اس موقع پر کہا کہ تحفظ نسواں بل سے خواتین کو تحفظ ملنے کے بجائے طلاق کی شرح میں اضافہ ہوگا۔انہوں نے 3 اپریل کو لاہور میں استحکام مدارس پاکستان کانفرنس کے انعقاد کا اعلان بھی کیا۔

[pullquote]’خواتین کےبل کی منظوری پر نواز شریف بھی برہم‘[/pullquote]

مولانا فضل الرحمان نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وزیراعظم اس قانون پرخود بھی برہم ہیں اور منظوری سے پہلے وہ اس سے لاعلم تھے۔

’وزیراعظم سے اس قانون کے لیے مشاورت نہیں کی گئی۔ انھوں نے شہباز شریف کو کہا کہ اس معاملے پر کم از کم پارٹی کے اندر تو بات چیت ہونی چاہیے تھی جو نہیں کی گئی اور اتنا بڑا ہنگامہ کھڑا کر دیا گیا ہے۔ اب اس مسئلے کو حل ہونا چاہیے۔‘

مولانا فضل الرحمان نے اجلاس کو بتایا کہ وہ وزیراعظم کی لاعلمی پر حیران ہوئے لیکن انھیں خوشی بھی ہوئی کہ نواز شریف اس معاملے کو حل کرنا چاہتے ہیں۔

[pullquote]حکومت پنجاب نے تحفظ نسواں قانون کا نوٹی فکیشن روک لیا[/pullquote]

لاہور……حکومت پنجاب نے تحفظ نسواں قانون کا نوٹی فکیشن روک لیا، قانون میں علما کی مشاورت سے ضروری ترامیم کی جائیں گی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اعلیٰ سطح کے اجلاس میں تحفظ نسواں بل کا نوٹی فکیشن روکنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، پنجاب اسمبلی سے یہ بل منظور ہونے اور گورنر کے دستخط کے باوجود نوٹی فکیشن جاری نہیں کیا گیا، محکمہ قانون کی طرف سے نوٹی فکیشن کے اجرا تک قانون پر عمل نہیں ہو سکتا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پنجاب کے وزیراعلیٰ نے علما کی مشاورتی کمیٹی تشکیل دے دی ہے ۔ کمیٹی کی سفارشات آنے پر قانون میں ترامیم کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔

[pullquote]کراچی میں تحفظ نسواں بل کی حمایت میں منفرد وال چاکنگ [/pullquote]

ادھر کراچی کے طلبہ و طالبات کے ایک گروپ نے خواتین کے حقوق کے لیے ایک منفرد انداز اپنایا جس میں انھوں نے شہر بھر کی اہم شاہراہوں کی دیواروں پر خواتین کے حق میں پیغامات لکھ ڈالے۔یہ پہلی بار ہوا ہے کہ کسی نوجوان گروپ نے خواتین کے حقوق میں کوئی مہم چلائی ہو اور اتنے عام مگر حساس نوعیت کے مسائل کی جانب توجہ دلائی ہو۔

کراچی کی ایک طلبہ تنظیم ‘نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن’ کے طلبہ گروپ نے شہر بھر کی دیواروں پر خواتین کے حق میں مختلف نعرے لکھ کر اور تصاویر بنا کر ان دیواروں کو عورتوں کے لیے بولنے پر مجبور کردیا ہے۔ نوجوانوں کا کہنا ہے کہ مہم کا مقصد عوام کو یہ بتانا ہے کہ خواتین کو ان کا حق دیا جائے۔مہم کے دوران شہر کی دیواروں پر گھریلو تشدد حیوانیت ہے، پدر شاہی نظام نامنظور، گھریلو تشدد نامنظور، قائد ہے عورت، ہم لیں گے آزادی، ہے حق ہمارا آزادی، جیسی تحاریر لکھی گئی ہیں۔

اس کے علاوہ دیواروں پر خواتین کے اسکیچز بھی بنائے گئے ہیں جن میں مرد کو عورت پر ہاتھ اٹھاتے دکھایا گیا ہے جس کے نیچے مردوں سے مخاطب ہوتے ہوئے لکھا ہے کہ "کہیں یہ آپ تو نہیں۔”طلبہ تنظیم نے خواتین کو بنیادی اور برابر کے حقوق دلوانے، ان پر ہونے والے گھریلو تشدد اور انہیں درپیش دیگر مسائل مختلف اسکیچز اور نعروں اور تحاریر کے ذریعے عام آدمی تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔

نوجوانوں کے اس گروپ میں شامل لیلی رضا کے مطابق "اکثر سڑکوں پر جو وال چاکنگ ہوتی ہے وہ نفرت انگیز تحریریں ہوتی ہیں۔ کبھی کوئی مثبت پیغام نہیں جارہا ہوتا تو اسی لیے ہم نے ان مقامات کو بہتر پیغامات کے لئے چنا ہے۔ ہم نے سوچا کیوں نہ دیواروں کو حقوق نسواں کے لیے استعمال کیا جائے۔ ان تحریروں کی روشنی میں اگر خواتین بھی دیکھیں کہ وہ اس قسم کا تشدد برداشت کررہی ہیں تو اس کے خلاف آواز اٹھائیں،اور اگر کوئی مرد یہ پیغامات پڑھے تو اس پر بھی اس کا اچھا اثر ہو۔”ترجمان نیشنل اسٹوڈنٹ فیڈریشن مزمل افضل نے گفتگو میں کہا کہ "ہمارے معاشرے میں خواتین کے ساتھ ناانصافی کی روش سی چل پڑی ہے، کراچی جیسے شہر میں بھی خواتین کو اپنے حقوق حاصل نہیں۔ خواتین کے لیے بنائے گئے قوانین پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوتا، ہر عورت کسی نہ کسی نا انصافی اور ہراساں ہونے کا سامنا کررہی ہے، ہم نکلے ہیں کہ ان چیزوں کو بدلا جاسکے۔

نوجوانوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے خواتین پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھائی ہے اور گریفٹی آرٹ کے ذریعے عوام کو یہ بتایا ہے کہ خواتین کے خلاف ہونے والے تشدد کو ختم کیا جائے۔کراچی کے نوجوانوں نے شہر کی اہم شاہراہوں آئی آئی چندریگر روڈ، صدر ٹاون، ایم اے جناح روڈ، ایم آر کیانی روڈ، یونورسٹی روڈ، گلشن اقبال اور دیگر مقامات پر اپنی مہم چلائی ہے۔

[pullquote] عورتیں بھی "معاہدہ” والی شادی کرسکتی ہیں، مفتی عبدالقوی کا نیا فتوی [/pullquote]

مفتی عبدالقوی نے ایک نیا فتوی دے دیا ہے ، ایک نیوز چینل کے پروگرام میں ان کا کہنا ہے پاکستان کے موجودہ قانون اور ثقافت یا سوچ کی وجہ سے برصغیر میں مرد دوسری شادی نہیں کرسکتے ، دوسری شادی کی بات آئے تو اچھے بھلے گھر برباد ہوجاتے ہیں ، اسی طرح خاتون کی طلاق یا کسی دوسری صورت میں مرد سے علیحدگی ہوئی اور بچے بڑے ہوگئے ہیں تو وہ کھلم کھلاشادی نہیں کرسکتی ، اس کو دوگواہان کی موجودگی میں ایک معاہدے کی صورت میں شادی کی اجازت ہے ۔مزید تفصیلا ت نیچے دی گئی وڈیو میں ملاحظہ فرمائیں-

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے