سوال جن کے جواب نہیں

اُس کے لہجے میں زہر بھرا تھا ، زبان الفاظ نہیں آگ اگل رہی تھی ، طوائف کا یہ انداز میں نے پہلی بار دیکھا تھا ، میں اپنے پروگرام کے لیے اس کا انٹرویو کرنے آیا تھا ، خوبصورت ،شہر کی مشہور معروف طوائف مانی جاتی تھی

میرا سوال ابھی مکمل بھی نہیں ہوا تھا کہ وہ تڑپتے بولی ، ہم طوائفوں کے ساتھ اپنی مثالیں آپ شرفاء صرف اسی لیے دیتے ہو نا کہ شاید ہم اس کرہ ارض پر گھٹیا ترین مخلوق ہے اور تمہارا قبیح ترین عمل کو اس طرح کوئی نہ کوئی جواز مل جاتا ہے، واہ صاحب واہ

بھوکی شیرنی کی طرح جھپٹنے کے انداز میں غرائی ، بابو جی آج سوال آپ نہیں میں کروں گی اور جواب بھی میں نہیں آپ دیں گے۔

ایک بات بولوں ، ہم اس ملک مین بسنے والے کروڑون انسانوں کی طرح منافق نہیں ، یہ کام سرعام اور ببانگ دہل کرتی ہیں ، لیکن آپ بتائیں کہ کیا آج کے دور کے صحافی ، وکلاء ، جج، سیاستدان ، جرنیل ، سرکاری افسران ، ڈاکترز سب کی قیمتیں مقرر نہیں ہیں ، کیا وہ اپنے پیشے کی طوائفیں نہیں
اگر نہین تو پھر ہزاروں خود ساختہ ہیرو بنے بیٹھے بونے کس طرح ایک پراپرٹی ٹائیکون کی انگلیوں پر دیوانہ وار محو رقص ہیں۔

ہاں وہی پراپرٹی ٹائیکون جس کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اکثر یہ کہتا ہے کہ مجھے صرف بریگیڈئر صاحب کے ہاتھ کی بنی کافی پسند ہے، اور کبھی خودساختہ انقلابی لیڈر کو فون کر کے "ریاست ہو گی ماں کے جیسی” نغمے کو سنانے کی فرمائش کرتا ہے ، اور بعد از اپنے موبائل کا سپیکر آن کر کے ارد گرد بیٹھے لوگوں کو سنواتا بھی ہے ، اور پر فریب نظروں سے دیکھتا ہے، یہ تو آپ نے مجھے خود ہی بتایا تھا نا۔

چلو اسے چھوڑیں مجھے یہ بتائیں کہ نیوز چینلز جو دن بھر میرٹ میرٹ کا لاگ الاپتے ہیں ان میں کوئی میرٹ ہے ، کیا وہ خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کی فیکٹریاں نہین بن چکے ، اور پھر کیسز دبا دیئے جاتے ہیں۔

مین نے پہلو بدلا تو بولی ! ایسے نہیں صاحب ابھی سنتے جاؤ ، کیا پروموشنز کے لیے نام نہاد شرفاء اپنی بیویوں کو خصوصی پارٹیوں میں ساتھ لے کر نہیں جاتے۔

کیا یونیورسٹیوں ، کالجوں کی جوان لڑکیاں دولتمند صنعتکاروں اور سیاستدانوں کی خوابگاہوں کی زینت نہین بنتیں کہ جن کی اپنی بیویاں کسی اور کی خوابگاہ میں ہوتی ہیں۔

کیا شوگر ڈیڈی اور شوگرماما کی اصطلاح میں ہونے والا کام وہ ہی نہیں جو ہم کرتی ہیں
ذرا سنتے جائیں ، نوکریوں کے نام پر عزتوں کا کھلواڑ معمول کی بات نہیں
ہمارے دل تو نام نہاد شرفاء کے ان رازوں کے امین ہیں کہ اگر بول دیں تو کہرام مچ جائے
تھوڑا توقف لیتے بولی ، صاحب ذرا حو صلے سے سنیں ، طوائف اس لیے طوائف نہیں کہ وہ مردوں کے گرد طواف کرتی ہے ، وہ اس لیے طوائف ہیں کہ اس کی رگوں میں کسی سردار ، چوہدری ، شیخ ، خان ، سید ، رانے یا کسی اور ریئس زادے کا خون طواف کر رہا ہوتا ہے ، اور جب اس خون کا اپنا نام کوئی نہیں دیتا تو پھر وہ انہی مردون کا طواف کرتی ہے۔

ہے کوئی آپ کے پاس ان سوالوں کا جواب ، مجھے خاموش دیکھتے بولی ، مجھے علم تھا کہ نہیں ہو گا ، کسی کے پاس بھی ان سوالوں کا جواب نہیں کیونکہ یہ وہ حقیقت ہے کہ جس سے شریف کہلانے والا ہر فرد نطریں چراتا ہے۔

اور پھر مین نے وہاں سے اٹھنے مین ہی عافیت جانی ، ایک بار میرے استاد نے کہا تھا ، پر اعتماد طوائف سے بچنا اس کے سوالوں کا جواب ڈھونڈتے خود پٹری سے اتر جاؤ گے ،
سچ بولوں تو یہ وہ سوال ہیں کہ جن میں سے اکثر کے جواب واقعی دہلا دینے والے تھے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے