ذمہ دار صحافت،تجدید وإحیاء

گذشتہ پیر کو مقامی ہوٹل میں پاکستان عربک لینگویج بورڈ کے زیر انتظام ‘‘جدید صحافت اور ہماری ذمہ داریاں ’’کے عنوان پر ایک روزہ ورکشاپ کا اہتمام کیاگیا،جہاں راقم نے اپنے صدارتی خطبے میں جومعروضات پیش کیں،ان کا خلاصہ إفادۂ عام کے لئے یہاں قارئین کے نذر ہے:

 

اسلام میں دعوت وتبلیغ کا انحصار جن عوامل پر ہیں،ان میں سے اکثر کا تعلق صحافت سے ہے،آپ ﷺ کی ہفتہ واری مجلس، جمعے ،عیدین،نکاح وغیرہ کے خطبات،مراسلات وارشاداتِ نبوی ﷺ اور ان سب سے بڑھ کر قرآن کریم بجائے خود مکتوب ومقروؤ شکل میں،یہ سب کیا ہیں،یہ آگاہی ہیں،جسے آج میڈیا کہتے ہیں،ایک عالم دین یا مذہبی آدمی کا جتنا مضبوط تعلق میڈیا سے ہوگا،اتنا ہی وہ اپنے پیغام کے پہنچانے میں مؤثر ہوگا،لیکن مسئلہ یہ پیدا ہوتاہے کہ میڈیا میں کچھ ایسے عناصر اور رجحانات ہیں ،جن کے حوالے سے ہمارے بزرگوں کو شدید تحفظات ہیں،یہ تسلیم ہے، مگر صالح عناصر اگر یوں ہی دوری اختیار کرینگے،تو اصلاح کیسے ممکن ہوگی،سیرتِ نبویﷺ کے تناظر میں ہمیں ان سب مواقع ومقامات پے جانا پڑے گا،حکمت عملی سے متأثر کن کردار بھی ادا کرنا پڑے گا،یہ ہمارا دعوتی وتبلیغی فرض بنتاہے،شتر مرغ بن کر بیٹھے رہنے سے تو مسائل حل نہیں ہوں گے،ہم سمجھتے ہیں کہ دینی مدارس کے طلبہ ہوں یا کوئی بھی پڑھاکو قسم کے لوگ ہوں ،ان کی بہترین کھپت میڈیا میں ہی ہے،عربی آتی ہو،تو اخبار وتحقیقات کی ایک عظیم دنیا آپ کے سامنے ہوگی،انگریزی آتی ہو،تو کیا کہنے،میگزین ہو،اخبار ہو یا ٹی وی ،کمپیوٹر،موبائل کی کوئی سکرین ہو،پوری دنیا آپ کے ہاتھوں میں ہے،نظریاتی میدانوں میں معرکہ آرائیاں بہادر نوجوانوں کے انتظار میں ہیں۔

الغزو الفکری ایک باقاعدہ مضمون کے طور پرعرب دنیا میں نصاب کا حصہ ہے،یعنی نظریاتی جنگ،یہ وہ جنگ ہے، جو دین بیزار لوگ غیر فوجی وسائل کے ذریعے مسلمانوںکو مسخر کرنے اور ان کے عقائد، افکار، رسم و رواج ، اخلاق، اور زندگی گزارنے کے اسلامی ڈھانچے کو یکسر بدلنے کیلئے لڑتے ہیں۔ تاکہ مسلمان اپنے انفرادی تشص سے محروم ہوجائیں، اور انہیں زندگی کے تمام شعبوں میں اغیارکی تقلید کرنا پڑے ۔

اس جنگ میں ظاہری وجود کو نشانہ نہین بنایا جاتا، بلکہ دین، سوچ، فکر، معاشرتی رسم و رواج ،اقداراور اخلاق کوہدف بناکر کاری ضرب لگائی جاتی ہے، کیونکہ یہی وہ باطنی عوامل ہیں، جو کسی قوم کے افراد کو اپنے ظاہری اور معنوی وجود بچانے اور حملہ آوروں کا مقابلہ کرنے کے لئے جنگ کی صف اول میں کھڑا کرتے ہیں۔ چنانچہ جب بھی ان نظریاتی قوتوں کو آہستہ آہستہ منظم طریقے سے ختم کیا جاتا ہے، تو دشمن کے ساتھ ظاہری لڑائی کا تصور خودبخود ختم ہوجاتا ہے، جس کے نتیجہ میں فاتح قوم یعنی دشمن ہر قسم کے مالی و روحانی نقصان سے محفوظ رہتا ہے۔ اور بغیر کسی عسکری لڑائی کے اسے اپنا مقصود بھی ہاتھ آجاتا ہے۔
اس غیر فوجی جنگ میں جو وسائل بروئے کار لائے جاتے ہیں ، وہ بھی نظریاتی اور فکری ہوتے ہیں، مثلاً، استاد، کتاب، درسگاہ، اسکول، کالج، یونی ورسٹیز،علمی تحقیقات، کتب خانے، اخبارات، رسائل، جرنلزم، ادبی لیٹریچر، معاشرتی علوم، علاج معالجہ کے ادارے، شفاخانے، ہسپتال، سیروتفریح کے مقامات، پارک، کلب، نائٹ کلبز، ہوٹلز، ساحل سمندر، میڈیا، ریڈیو ،ٹیلی ویثرن، سینماگھر، ویب سائٹس،ویب پیجز،ویڈیو کلپس،امیجز،تھیٹر، فلمیں بنانے والی کمپنیاں،انٹیلیجنس ادارے، این جی اوز،کارٹونسٹ،سیاسی شخصیات، سیاسی جماعتیں، جنسی خواہشات کی تکمیل کے مواقع اور انکی تشہیر، فیشن، اور عریاںاشتہارات، اور ہر وہ چیز جس میں عورت کا استعمال ہو ۔ اور اسی قسم کے دیگر ذرائع جن کے پیچھے نہایت ماہر اور تربیت یافتہ لوگ ہوتے ہیں، جن کا کام ہی، نظریاتی اور فکری اپداف کو اپنی مرضی کے مطابق مندرجہ بالا ذرائع کے ذریعے پھیلا کر عام لوگوں کی فکری اور نظریاتی اساس کو تبدیل کرنا ہوتا ہے،اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نظریاتی جنگ کا میدان اتنا وسیع ہے کہ انسانی زندگی کے تمام شعبوں کا احاطہ کرتی ہے ،

آج اگر ہم اپنے چاروں طرف نظر دوڑائیں ، تو ہمیں ہر طرف ، ہر شعبہء زندگی میں ایک ہی چیزنظر آتی ہےوہ یہ کہ ہمارا دشمن دن رات صرف ایک ہی جنگ جیتنے میں مصروف نظر آتا ہے، اسے آج کے مسلمان سے کوئی خطرہ نہیں، بلکہ اسکی فکری اساس، اور نظریاتی پہچان یعنی اسلام سے خطرہ ہے،تو ابنائے بھی اسلام اس جنگ کے لئے تیار ہیں،اگر ہیں تو پھر میدان میں آئیں،نظریاتی دلائل کی روشنی میں بھرپورمقابلہ کیجئے،اچھی طرح یاد رکھیں ،وہ زمانہ گیا،کہ آپ کے ایک فتوے کی وار سے بڑے بڑے بُت گرجایا کرتے تھے،اب وہ اتنے مضبوط اور آپ اتنے کمزور ہیں کہ بلاٹھوس دلیل اور بڑھکیاں مارنے کی وجہ سے وہ ہمیں گرانے کو ہیں،خوش فہمیوں اور خوش گمانیوں سے نکل کر حقیقت پسندانہ انداز میں پوری طرح تیار و ہوشیار ہوکر حکمتِ عملی بنایئے۔

حقیقت یہ ہے کہ نظریاتی جنگ کے اس محاذ پر ہماری پسپائی نے اہل اسلام کو بہت نقصان پہنچایا ہے،اس کا مداویٰ اب یوں ہوگاکہ آپ ایک باوقار اور ذمہ دارانہ انداز میں میدانِ صحافت کا انتخاب کریں،اپنا لوہا منوایئے،بے جا فتوی بازیوں کا زمانہ اب نہیں رہا،یہاں اخبار سے جنگ کا آغاز ہوتا ہے،پہلے خبر کی تہ تک جایئے،خبر ایک وہ ہے،جو آپ نے اصول حدیث میں پڑھی ہے اور ایک خبر دنیائے میڈیا کی ہے،وہ یہ ہے،جس کی تقسیم کے طریقے یکسر بدل گئے ہیں۔ موبائل فون اور دیگر موبائل آلات جنہیں انٹرنیٹ سے [جوڑا] یا کنیکٹ کیا جا سکتا ہے، اب ہر لمحے اور ہر جگہ موجود ہیں، اس لیے اطلاعات و معلومات کے صارف اور موجدکے درمیان فرق دھندلا پڑ گیا ہے ،بلکہ بعض صورتوں میں تو بالکل ہی ختم ہو گیا ہے، جیسے جیسے اطلاعات اور معلومات کے ذرائع میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، یہ خدشہ بھی بڑھتا جا رہا ہے کہ شہریوں کو ملنے والی معلومات جن کی روشنی میں وہ عمل کر رہے ہیں، ممکن ہیں مسخ شدہ یا غلط ہوں۔

اس ماحول میں، شہریوں کو قابلِ اعتبار اور صحیح معلومات فراہم کرنے والی صحافت کی ضرورت ہے، تا کہ وہ اپنی بستی کو اور پوری دنیا کو سمجھ سکیں اور اپنے معاشرے کے بارے میں سوچ سمجھ کر فیصلے کر سکیں،بنیادی طورپرصحافی ایسے اخلاقی معیار اپنانے کی کوشش کرتے ہیں اور اُن پر کاربند رہتے ہیں، جن سے اُنہیں اس بات کو یقینی بنانے میں مدد ملے کہ ان کے کام سے سچائی، بھلائی،شفافیت اور کمیونٹی کی اقدار کا بول بالا ہو رہا ہے۔ جب وہ ایسا کرتے ہیں تو ایک صحافی انفرادی طور پر اور وہ تنظیمیں جو ان کے کام کو شائع کرتی ہیں، اپنی پیشہ ورانہ مہارت اور دیانتداری میں عوام کا اعتماد حاصل کر لیتی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کوئی صحافی اعلیٰ ترین اخلاقی معیاروں کی کس طرح پاسداری کرسکتا ہے؟

آپ میں بیشترنے خبر کی تحقیقات اصول حدیث میں پڑھی ہیں، آپ حضرات ان اصولوں کے اظہار سے جو صحافت کی بنیادی اقدار کا نچوڑ ہیں، اخلاقی معیاروں کا ہر جگہ بول بالا کرسکتے ہیں۔ عام طور پر ان میں یہ چیزیں شامل ہوتی ہیں:

• سچائی کا کھوج لگائیں اور ممکنہ حد تک اسے پوری طرح سامنے لائیں۔

• طاقتور افراد کو جوابدہ ٹھہرائیں۔

• کمزور اور بے سہارا لوگوں کی آواز بنیں۔

• اپنے صحافیانہ طریقوں کے بارے میں شفاف رہیں۔

• واقعات کے بارے میں اپنی سوچ منصفانہ اور جامع رکھیں۔

• جب ممکن ہو، مفادات کے ٹکراؤ سے بچیں اور مسابقاتی وفاداریوں کو ظاہر کریں۔

• نقصان کو جتنا کم کر سکیں، کریں۔ خاص طور سے کمزور اور بے سہارا لوگوں کے سلسلے میں۔

• اُن سے دور رہیں جو اپنے مفاد کے فروغ کی خاطر اور سچائی کو مسخ کرنے کی غرض سے اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہیں۔

• تمام دوسرے مفادات کو بالائے طاق رکھ کر، اپنی وفاداریاں ان شہریوں کے لیے وقف کر دیں جن کی آپ خدمت کرتے ہیں۔

• اطلاعات کی تصدیق کی کوششوں میں چوکنے اور منظم رہیں۔

• عوامی بحث وتمحیص اور تنقید کے لیے ایک فورم قائم کریں۔

اس فہرست کا مقصد بنیادی اصولوں کی ایک مثال دینا ہے، لیکن یہ کوئی حتمی فہرست نہیں ہے۔ ہر نیوز روم اور صحافیوں کی انجمن کو اپنے اصولوں کی نشاندہی کرنا چاہیئے، جس سے انہیں اپنے مشن اور صحافت کے طریقوں کے لیے رہنمائی مل سکے۔ جب کوئی صحافی ایک بار اپنے بنیادی اصولوں کی وضاحت کر لیتا ہے، تو پھر اچھے اخلاقی فیصلے کرنے کے لیے قیادت، ناقدانہ اندازِ فکر، سوالات پوچھنے، کسی مخصوص صورتِ حال کے لیے متبادل راستوں کی نشاندہی کرنے، اور بالآخر ایسا متبادل راستہ اختیار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جو اس کے صحافیانہ مقصد کو بہترین انداز سے پورا کر سکے۔

مثال کے طور پر، بہت سے صحافی یہ معلوم کرنے کے لیے کہ سرکاری لین دین میں کیا ہو رہا ہے، گمنام ذرائع سے اطلاعات حاصل کرنے پر انحصار کرتے ہیں۔ فرض کریں، کوئی شخص آپ سے رابطہ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ایک منتخب سیاست دان کسی مقامی کاروباری ادارے سے رشوت لے رہا ہے، اور اس کے عوض وہ منافع بخش سرکاری ٹھیکے، اس کاروباری ادارے کو دلوا رہا ہے۔ صحافی اور اس کے ساتھی اپنے کام کا آغاز ان سوالات سے کریں گے:

• اس اطلاع کی چھان بین کرنے میں ہمارا صحافیانہ مقصد کیا ہے؟ اِس سے شہریوں کو کیا فائدہ ہوگا؟

• ایسی بدعنوانی کو بے نقاب کرنے کے پیچھے اس ذریعے کا کون سا مقصد کار فرما ہے؟

• کیا ایسی دستاویزات عام طور سے دستیاب ہیں جن سے اس دعوے کی تصدیق ہوتی ہو؟

• کیا اطلاع دینے والا ذریعہ، کسی قسم کی دستاویزات یا دوسرے ثبوت تک رسائی حاصل کر سکتا ہے؟

• ہمیں اس ذریعے کی نوعیت اور اِس کی معلومات کو کیسے بیان کرنا چاہئِے، اور ہم اس کی شناخت کو اپنے قارئین وناظرین سے خفیہ کیوں رکھ رہے ہیں؟

• ہمیں اس اطلاع کی تصدیق کرنے کے لیے دوسرے ذرائع کہاں سے مل سکتے ہیں؟ کیا ان کا نام لیا جائے گا؟

• اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ ہماری کہانی مکمل ہے، ہمیں دوسری کس قسم کی رپورٹنگ کرنا چاہیئے؟

• کہانی کے ذریعے کو گمنام رکھنا ہماری ساکھ کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسے شاذونادر ہی خفیہ رکھنا چاہیے اور ایسا صرف بہت اہم واقعات میں کرنا چاہیئے۔

• اگر ہم کسی گمنام ذریعے سے کوئی اطلاع شائع کرتے ہیں، تو اس کی تائید دو دوسرے ذرائع سے کی جانی ضروری ہے۔
آپ کے لئےاس قسم کے رہنما اصول بہت مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ لیکن چونکہ ہر ممکن صورتِ حال کے لیے رہنما اصول فراہم نہیں کیے جا سکتے، اس لیے ان سے ٹھوس اخلاقی فیصلہ سازی میں تو مدد لی جا سکتی ہے، لیکن وہ ناقدانہ اندازِ فکر کا متبادل نہیں ہو سکتے۔

جدید دور کے صحافیوں کو اکثر اِس سوال کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ ایسی اطلاعات اور معلومات کا کیا کیا جائے، جو خیالات و تصورات کی مارکیٹ میں، شاید سوشل میڈیا کے ذریعے متعارف تو کرا دی گئی ہیں، لیکن یہ مصدقہ نہیں ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ موبائل فون پر کوئی متنازعہ ویڈیو یا فوٹو ہو، کوئی دستاویز ہو ،جس میں بدعنوانی کا الزام لگایا گیا ہو، یا کوئی ایسا بیانیہ ہو، جو مقبول ہو گیا ہو۔ جب کسی کمیونٹی میں شہری ایسی اطلاعات پر بڑے پیمانے پر تبادلۂ خیال کر رہے ہوں ،جس کی جانچ پڑتال یا تصدیق نہ کی گئی ہو، تو صحافیوں کو صحیح صورتِ حال بتانے کے لیے اقدام کرنے چاہئیں۔ ایسی صورتِ حال میں آپ اس قسم کے سوالات پوچھ سکتے ہیں:

• ہم اس اطلاع کی تصدیق یا تردید کے لیے، کیا کر سکتے ہیں؟

• عام لوگوں میں سمجھ بوجھ میں اضافے کی خاطر، ہم حقائق کو کس طرح بے نقاب کر سکتے ہیں یا سیاق وسباق فراہم کر سکتے ہیں؟

• دوسرے لوگوں کی فراہم کردہ ناقص معلومات کو درست کرنے کے لیے، ہم پر کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟

• اس اطلاع کی وصولی کی اطلاع دیتے ہوئے، ہم اپنی اعتمادی اور بے اعتمادی کی کس طرح وضاحت کر سکتے ہیں؟

کسی صحافی میں اعتماد اور مہارت اس احساس سے پیدا نہیں ہوتے کہ اس کے پاس تمام سوالات کے جوابات موجود ہیں، بلکہ اس کے لیے صحافیانہ اور اخلاقی اقدار کے بارے میں واضح سمجھ بوجھ کا ہونا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ اس میں ایسے اچھے سوالات پوچھنے کا شعور ہونا چاہیے جو متبادل حل اور سچائی کے نئے راستے سامنے لا سکیں۔’’(مأخوذ ازپوائنٹر انسٹیٹیوٹ مع تغییر وإضافات)۔

حضرت علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں: ۔
قلب میں سوز نہیں، روح میں احساس نہیں۔
کچھ بھی پیغامِ محمدﷺ کا تمہیں پاس نہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے