معلومات تک رسائی کا قانون آسان تر بنانے کیلیے پنجاب انفارمیشن کمشن کا تاریخی فیصلہ

پنجاب انفارمیشن کمشن نے معلومات تک رسائی کے ایک کیس میں اداروں کی طرف سے شہریوں کو معلومات تک رسائی کے لیے استعمال کیے جانے والے تاخیری حربوں کوواضع اندازمیں ناکام بناتے ہوئے معلومات کی رسائی کے قانون کو مزید آسان بنا دیا ہے اور کہا ہے کہ معلومات کے حصول کے لیے ادارے شہری کی شناخت کی بجائے مانگی گئی معلومات کا جائزہ لیں کہ وہ قانون کے دائرہ کار میں ہے یا نہیں۔

کمشن نے کھل کرکہا ہے کہ پاکستان کے کئی شہری شناختی کارڈ ز کے بغیر ہیں مگر ان کے معلومات تک رسائی کے بنیادی حق سے انہیں محروم نہیں کیا جاسکتا اور یہ کہ کوئی شہری اپنا نام ای میل ،فون نمبر اور پتہ دے دے تو اس درخواست کو نامعلوم تصور نہیں کرنا چاہیے۔

پنجاب انفارمیشن کمشن کی طرف سے بدھ کے روز تین صفحات پر مشتمل تفصیلی حکمنامہ جاری کیاگیا جس پر چیف انفارمیشن کمشنر پنجاب مظہر حسین منہاس، انفارمیشن کمشنر مختار احمد علی اور انفارمیشن کمشنر احمد رضا طاہر کے دستخط موجود ہیں۔ پنجاب انفار مشن کمشنر سے لاہور کے ایک شہری ڈاکٹر نیئر نے قائد اعظم سولر پاور پرائیویٹ لمٹیڈ کے خلاف رجوع کیا تھا ۔ڈاکٹر نیئر نےقائد اعظم پارک لاہور میں نصب سولرسیلز کی تفصیلات اکتوبر 2015میں معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت مانگی تھیں مگر ادارے کی طر ف سےمعلومات فراہم نہ کی گئیں ۔

حال ہی میں 28جنوری 2016کو جب معاملہ پنجاب انفارمیشن کمشن کے سامنے پہنچا تو کمشن نے قائداعظم سولر کے چیف ایگزیکٹو اور ہیومن ریسورس ونگ کے مینجر محمد خرم شہزاد کو 3فروری کو طلب کیا اور حکم دیا کہ شہری ڈاکٹر نیئر کو مانگی گئی معلومات فراہم کی جائیں۔ مگر اس کے باوجود کو ئی جواب نہ دیا گیا۔ جس پر کمشن نے دوبارہ 16فروری کو ایک تحریری یاد دہانی کرائی گئی جب دوبارہ جواب نہ آیا تو ادارے کے سربراہ کو 3مارچ کو اپنا انفارمیشن افسر بھیجنے کا حکم دیا گیا ۔

سماعت کےد وران ادارے کے ہیومن ریسورس ونگ کےمینجر محمد خرم شہزاد بھی موجود تھے جنہوں نے تحریری طور پر دلیل دی کہ شہری نے قانون میں طے کردہ طریقہ کار کے تحت معلومات کے حصول کے لیے درخواست نہ دی ۔ اس پر کمشن نے فوری طور پر ہیومن ریسورس مینجر کو شہری کی درخواست پر 11مارچ تک فیصلہ کرنے کی ہدایت کی ۔ مگر 11مارچ کو موصوف ایک بار پھر کمشن کے سامنے پیش ہوئے اور اس بار دلیل دی کہ شکایت کنندہ شہری نے اپنی درخواست ای میل کے ذریعے ارسال کی تھی جو کہ معلومات تک رسائی کے قانون میں درج طریقہ کار سے مطابقت نہیں رکھتی اور یہ کہ شہری نے نہ تو اپنا شناختی کارڈ نمبر دیا اور نہ ہی اپنا پتہ اس لیے درخواست پر عملدرآمد نہیں کیا گیا۔

کمشن کے استفسار پر موصوف نے تصدیق کی کہ انہیں ای میل انکی آفیشل ای میل پر ملی تھی ۔ کمشن نے پوچھا کہ کیا مانگی گئی معلومات ، معلومات تک رسائی کے قانون کے دائرہ کار میں نہیں آتیں ، تو مذکورہ افسر نے کہا کہ ایسا نہیں ہے اور انہیں معلومات دینے میں کوئی اعتراض نہیں اگر مذکور ہ شہری (درخواست کنندہ ڈاکٹر نیئر) اپنی شناختی کارڈ کی نقل دے کر اپنی شناخت واضع کردے ۔

اس ساری صورتحال پر کمشن نے فیصلہ دیا کہ مدعا علیہان نے شہری کو معلومات تک رسائی کے جائز حق سے محروم رکھا اور معلومات تک رسائی کے قانون کی روح سے متصادم عمل کرتے ہوئے غیر ضروری تکنیکی پہلو نکال کر معلومات کی فراہمی میں تاخیر بھی کی ۔ اس قانون کی روح کے مطابق تمام پبلک باڈیز کو معلومات تک شہریوں کو آسان ، تیز ، جلد اور سستی رسائی دے ۔ اداروں کی ویب سائیٹس یا ای میل کا کوئی فائدہ ہی نہیں اگر وہ شہریوں کو معلومات فراہم نہیں کرسکتیں۔ معلومات کے حصول کے لیے شہری سادہ کاغذ پر درخواست دے سکتےہیں اس کے لیے فارم پر کرنےکی ضرورت بھی نہیں۔

اپنے حکم میں پنجاب انفارمیشن کمشن کے ارکان نے یہ بھی واضع کیا ہےکہ بغیر شناختی کارڈ کے حامل شہریوں کو بھی معلومات تک رسائی کے حق سےمحروم نہیں کیا جاسکتا ۔ کمشن کا کہنا ہے کہ اگر کوئی شہری اپنا نام فون نمبر اور پتہ دیتا ہے تو اسے نامعلوم نہیں قرار دیا جاسکتا لہذا تمام اداروں کو اسے معلومات بہم پہنچانا ہوگی ۔

کمشن کا کہنا ہےکہ تمام ادارے موثر انداز میں معلومات شہریوں کو ظاہر کریں صرف وہ معلومات نہ دی جائیں جو کسی کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے