ملی یکجہتی کونسل، وقت کا ضیاع

ملی یکجہتی کونسل پاکستان میں تمام مذہبی مسالک کی جماعتیں شامل ہیں، ملکی سطح پر یہ بہت بڑا مذہبی اتحاد ہے۔ کونسل کے زیرِ اہتمام پروگرام ہوتے رہتے ہیں، بندہ کو کئی بار شرکت کا موقع مِلا ہے۔اِس حوالے سے اپنی چند معروضات کو پیش کرنا چاہتا ہوں۔

مجموعی طور پر، سبھی دینی مسالک کی جماعتوں کی شرکت کے باوجود یہ اتحاد کوئی بڑا کام انجام دینے سے یکسر ناکام رہا ہے۔ کونسل نے زیادہ زور ”ردِعمل“ کی سیاست پر دیا ہے۔ وحدتِ امت ہو یا دیگر معاملات، کونسل کی کارکردگی متاثر کُن نہیں ہے، بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ چند افراد اور جماعتوں نے اِسے اپنے تحفظ کا ذریعہ بنا رکھا ہے، اِس اتحاد میں شامل بڑی جماعتیں، باقی جماعتوں کو اپنے مفادات کی خاطر استعمال کرتی رہتی ہیں۔ ایک مذہبی جماعت کے سربراہ نے ایک ایشو پر اِسی پلیٹ فارم سے حکومت کو للکارا، جب انھیں مذاکرات کے لیے بلایا گیا تو موصوف اکیلے چلے گئے، جس پر کونسل کے صدر نے تشویش کا اظہار کیا۔ ابھی تک کونسل حزب اختلاف کا سا کردار ادا کررہی ہے، ممتاز قادری کی پھانسی کا معاملہ ہو یا تحفظ نسواں بل، کونسل نے پریشر گروپ کا کام کیا ہے، یہ کوئی مثبت اور تعمیری کام نہیں کر پائی، یہ مظاہروں تک محدود ہے۔

ملی یکجہتی کونسل بہت سے مثبت اور تعمیری کام انجام دے سکتی ہے، اِسے ردِعمل کی سیاست اور پریشر گروپ والا کردار ختم کرنا ہوگا۔ ملک میں مختلف مسائل پر اِسے بہترین تجاویز دینی چاہئیں۔ قوم کو آگاہی کا سلسلہ شروع کرنا چاہیے۔

وقت کے ساتھ تمام مسالک کے علماء نے پرانے فتاویٰ سے جان چھڑالی، جیسے حرمتِ تصویر، حرمتِ سپیکر وغیرہ، ایسے میں ایک دوسرے کے خلاف دیئے گئے ”کفر/ارتداد/شرک/بدعت“ کے فتاویٰ کے خاتمے کے لیے یہ کونسل بہترین کردار ادا کر سکتی ہے، اِسے یہ کام ترجیحی بنیادوں پر انجام دینا چاہیے، سبھی دینی مسالک کی جماعتیں اِس میں شریک ہیں۔

معاشرہ سازی اور معاشرتی فلاح کے حوالے سے بھی کونسل کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، ملک میں کرپشن، منشیات فروشی، ناخواندگی کے خلاف کونسل کو رضاکارانہ آگہی مہم چلانی چاہیے۔

ملک میں بنیادی حقوق سے محروم طبقوں جیسے خانہ بدوش، مذہبی اقلیتوں، خواجہ سراوغیرہ کے حقوق کے حوالے سے اسلامی موقف کی وضاحت اور تشہیر کا کام کونسل کو انجام دینا چاہیے،کونسل ایسے امور پر حکومت اور عوامی سطح پر اپنی سفارشات کی تشہیر کرے۔

ابھی ”تحفظِ نسواں بِل“ کے حوالے سے بھی کونسل کا کردار انتہائی منفی ہے، اِس کے اکثر ممبران نے بل کا مطالعہ ہی نہیں کیا جبکہ مخالفت براے مخالفت میں یہ حضرات پیش پیش ہیں۔ اسلام نے عورتوں کو بے پناہ حقوق سے نوازا ہے، یہ بات بھی ہم جانتے ہیں کہ وطن عزیز میں عوتوں پر تشدد اور ان کی تحقیر کی جاتی ہے، کونسل نے اسلام کی رُو سے حقوقِ نسواں سے آگاہی کی مہم کبھی نہیں چلائی۔دم توڑتی مذہبی سیاست کو بچانے اور حکومت سے مختلف مفادات حاصل کرنے کی خاطر کونسل کبھی ممتاز قادری کا معاملہ اٹھاتی ہے تو کبھی تحفظِ نسواں بِل کا شور۔

اِس جماعت میں شامل سبھی مذہبی گروہوں کے سنجیدہ علماء کرام کو غور کرنا ہوگا کہ ایسے ”ردِ عمل“ کی سیاست سے مذہب بے زاری میں اضافہ ہی ہوگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے