“تم فکر نہ کرو” مصطفیٰ کمال

ہمارے کلچر میں شروع سے ہی خواتین کے احترام کو خاص اہمیت حاصل ہےجو لوگ خواتین کا احترام کرتے ہیں اس سے ان کے گھر کے ماحول اور تربیت کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ ہر معاشرے میں اچھائیاں اور برائیاں دونوں ہی ہوتی ہیں اور ہمارے معاشرے کی قابل فخر باتوں میں سے ایک خواتین کو عزت دینا ہے

میں ان چند لوگوں میں سے تھی جو مصطفیٰ کمال کے واپس کراچی آنے کی خبر پر حیران ہونے کے بجائے خوش تھی ۔۔۔ میرا اندازہ کہہ لیں یا خواہش؛ ایسا لگ رہا تھا کہ شاید اب کراچی کی حالت بدلنے کا ارادہ کر لیا گیا ہے، اب شاید ہمیں بھی ٹوٹی ہوئی سڑکوں، ابلتے گٹروں، کچرے کے ڈھیر اور سڑکوں پر باقاعدہ سایہ دیتے تاروں سے نجات ملنے والی ہے۔ گرین لائن کے اعلان کے بعد سابق ناظم کراچی کی آمد کا سن کر کراچی ، اسلام آباد جیسا دکھنابھی شروع ہو گیا تھا مگر پھر پریس کانفرنس کے بعد ان کی واپسی کے خالص “سیاسی” ہونے کا انکشاف ہوا۔

انیس قائم خانی اور مصطفیٰ کمال نے سب سے پہلا دعوت نامہ میڈیا کو بھیجا اور آج تک اپنے ہر نئے کارڈ کو شو کرنے کے لئیے بھی ہمارا ہی سہارا لیا جا رہا ہے۔لیکن انتہائی افسوس کی بات ہے کہ اسی میڈیا سے جب ایک خاتون صحافی نے ان سے انٹرویو کیا تو مصطفیٰ کمال نے ان سے گفتگو کا انتہائی غیر مہذب رویہ اختیار کیا۔ کیپٹل نیوز سے صدف عبدالجبار اپنی صحافتی ذمہ داریاں پوری کر رہی تھیں، سوال کر رہی تھیں ۔سوال جو لوگوں کے ذہن میں ہیں ۔۔۔کیا مصطفیٰ کمال کو علم نہیں تھا کہ ان کی واپسی پر ان سے یہ سوال کئے جائیں گے؟؟ وہ اگر کسی سوال کا جواب نہیں دینا چاہیں تو یہ ان کا حق ہے لیکن انہیں یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی بھی صحافی سے اس بد تہذیبی سے بات کریں۔

ہو سکتا ہے مصطفیٰ کمال کی تربیت، میرا مطلب سیاسی تربیت ، ایسی رہی ہو لیکن حیرت مجھے اپنی صحافتی تنظیموں پر ہو رہی ہے، پریس کلبز کیوں خاموش ہیں؟ پی ایف یو جے کی جانب سے کوئی بیان سامنے کیوں نہیں آیا؟ کیا اس لئے کہ وہ ایک لڑکی تھی یا اس لئے کہ وہ ایک جونیئر صحافی تھی؟؟؟ ابھی اگر کسی سینئر صحافی کے ساتھ سابق ناظم کراچی نے اس انداز سے بات کی ہوتی )جو کرنے کی جرات شاید وہ خودبھی نہ کرتے(، تو بھی کیا ہم اسی طرح خاموش رہتے؟؟ میرا سوال تمام صحافتی تنظیموں اور نیوز میڈیا سے ہے کہ ہم کیوں اپنے جونئیرز کو ، اپنی لڑکیو ں کو وہ تحفظ اور حمایت نہیں دے رہے جودی جانی چاہیئے۔ کب تک ہماری خواتین اپنی صحافتی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے دوران اس قسم کی تذلیل سہتی رہیں گی۔ کبھی مظاہرین ان پر پتھر اور لکڑیاں پھینکتے ہیں ، تو کبھی آوازیں کستے ہیں ، پانی پھیکتے ہیں ،۔۔ مگر یہاں تو حدہوگئی ، ایک سیاستدان ، جس نےمیڈیا کے ذرئعیے ہی اپنے سیاست میں آنے کا اعلان کیا، اب وہ بھی ہماری خاتون ساتھی کے ساتھ نازیبا رویہ اختیار کر رہا ہے اور ہم ۔۔خاموش ہیں۔

مصطفیٰ کمال ، “آپ فکر نہ کریں” میں آپ سے یہ سوال نہیں کروں گی کہ خواتین کا احترام آپ نے سیکھا نہیں یا بھول گئے ہیں؟

“آپ یہ ٹینشن بھی نہ لیں” کہ ہم آپ کے “ضمیر جاگنے” کے بعد آپ سے بردباری کی توقع رکھیں گے البتہ یہ ضرور کہوں گی کہ ہمارے ملک میں ہر بچے کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ سب سے “آپ“کہ کر بات کرنی چاہئیے، “تم” کہنا بری بات ہے۔۔ آپ کو بھی ضرور یہی سکھایا گیا ہو گا پرکہیں ضمیر کے جاگتے جاگتے آپ اپنی یہ تربیت تو نہیں بھلا بیٹھے؟؟

ہماری خاتون ساتھی کو بار بار “تم” کہ کر پکارنے اور اس سے نامناسب انداز سے بات کرنے سے آپ کا قد خاصہ چھوٹا ہو گیا ہے۔

صحافتی تنظیموں سے میری گذارش ہے کہ چاہے کوئی بھی ہو، ہمیں کسی کو اس بات کی اجازت نہیں دینی چاہیئے کہ وہ ہماری کسی بھی خاتون ساتھی کی اس طرح بے عزتی کریں۔

میں نے بہت کوشش کی کہ ایک مرتبہ ہی سہی، مصطفیٰ کمال کو “تم ” کہ کر مخاطب کروں، لیکن پھر خیال آیا کہ فرق کیا رہ جائے گا لیکن پھر بھی مصطفیٰ کمال صاحب، اگر آپ کی دل آزاری ہوئی ہو تو میں معذرت چاہتی ہوں، کیونکہ میری تربیت تو یہی سکھاتی ہے کہ اگر کسی کو بات ناگوار گذرنے کا گماں بھی ہو تو معافی مانگنے سے مقام بڑھتا ہی ہے، گھٹتا نہیں۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے