پہاڑ خور

میرا بھائی ڈمپر میں بجری بھر رہا تھا ۔اوپر سے پہاڑ کا تودا گرا ،دوسری طرف بلاسٹنگ کر کے پہاڑ اڑایا جارہا تھا ۔سبھی مزدور لاعلم تھے کہ تھوڑی دیر میں بلاسٹنگ ہونے والی تھی ۔لیکن میرا بھائی اس کی ذد میں آگیا اور موقع پر ہی جا ں بحق ہو گیا ۔کرش مشین کے مالک فورا پہنچ گئے اور ثابت کر دیا کہ غلطی میرے بھائی کی ہی تھی ۔اس کے دو معصوم بچے ہر روز بے بسی سے پاپا ،پاپا کرتے اسے تلاش کرتے ہیں جو منوں مٹی تلے چلا گیا ۔یہ کہانی ایک مزدور کی نہیں ، ایسے واقعات کئی بار ہوتے ہیں لیکن رپورٹ کرنے والا کوئی نہیں ۔

اسلام آباد سے جی ٹی روڈ پر ٹیکسلا کی جانب جائیں تو نکلسن کی یادگار کے دونوں اطراف مارگلہ کی پہاڑیاں تباہی کی داستان سنانے لگتی ہیں ۔یہاں ہزاروں مزدوروں کے شب و روز انہیں پہاڑیوں کو اڑانے میں صرف ہوتے ہیں ۔ایک طرف یہ پہاڑ ان کی روزی روٹی کا ساماں ہیں ،تو دوسری جانب انہیں اپنے پیاروں سے چھین کر لے جاتے ہیں۔پیشہ جنونی ہے ،لیکن عام مزدوری کی نسبت پیسے تھوڑے اچھے مل جاتے ہیں ۔

کبھی شہر ان پہاڑوں کے حصار میں ہوا کرتے تھے ۔لیکن پھر سب بدلتا گیا ۔یہ سب راتوں رات نہیں ہوا ، دہائیاں ہو گزریں اس کاروبار کو ۔مارگلہ کی پہاڑیوں میں رات بھر بارود بھرا جاتاہے ۔پھر صبح سے شام بلاسٹنگ ہوتی ہے ۔دھماکوں کی دھمک میلوں دور تک سنی جاتی ہے ۔اگلہ مرحلہ کرشنگ کا ہے ،پہاڑ پاش پاش ہوکر سمینٹ ، ریت اور بجری کے ڈھیروں میں تبدیل ہو گئے ہیں ۔بس راج ہے جنگل کے قانون کا ۔

گرد آلود فضائیں ماحول میں زہر گھول رہی ہیں ۔رہائشی گلے ،سینے سمیت کئی انفکشنز میں مبتلا ہیں ۔بارہا آواز بھی اٹھائی لیکن سنے کون ؟ اس طاقت ور مافیا سے ٹکر کون لے ؟

جی ٹی روڈ کی بائیں جانب مارگلہ ہلز پنجاب حکومت جب کہ دائیں جانب پہاڑیاں مارگلہ ہلز نینشل پارک کا حصہ ہیں ۔سپریم کورٹ نے اکتوبر 2013 میں نینشل پارک میں پہاڑوں کی کٹائی کو غیر قانونی قرار دے کر اسے روکنے کا حکم دیا تھا ۔کچھ عرصہ تک سرگرمیاں کم ہوگئیں لیکن آہستہ آہستہ کاروبار پھر سے چلنے لگا ۔مارگلہ ہلز پر درختوں اور پہاڑوں کے کٹاو پر سپریم کورٹ نے مارچ 2015 میں بھی فیصیلہ دیا ۔متعلقہ شعبوں کو حکم دیا گیا کہ عدالتی فیصلوں کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کاروائی کریں ۔ اس سب کے باوجود عدالتی احکامات صرف کاغذوں تک ہی محدود رہے ۔مارگلہ ہلز بلاسٹنگ کا یہ دھندا ایک انڈسٹری کی شکل اختیار کرگیا ہے ۔

بجلی کی ترسیل کے لئے لاکھوں وولٹیج کی ٹرانسمشن لائنز دستیاب ہیں ۔ان کا بل بھی لاکھوں میں آتا ہے ، لیکن کیابلوں کی ادائیگی ہوتی ہے ؟ اس بات کا جواب دینے والا وہاں کوئی نظر نہیں آتا ۔اس بہتی گنگا میں کون کون ہاتھ دھو رہا ہے ۔آئیسکو ، واپڈا ، محکمہ معدنیات ، وزارت موسمیات ، سی ڈی اے اور نجانے کتنے ۔۔؟ دھندا پوری طاقت سے چل رہا ہے ۔بھتہ ،رشوت ،ملی بھگت ،چوری ، سکہ کھرا ہو یا کھوٹا اس سلطنت میں سب چلتا ہے ۔
مقامی شہری بتاتے ہیں کہ یہاں کی بڑی سیاسی شخصیات کے پلانٹس لگے ہیں جن پر کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکتا ۔

مارگلہ ہلز پر بلاسٹنگ اور اس کے بعد کرشنگ سے ہونے والی آمدن نے اس کاروبار کے مالکان کو ارب پتی بنا دیا ۔جی ٹی روڈ کے دونوں اطراف تقریبا 50 ٹرک اور ڈمپر سمینٹ اور بجری بھر بھر کے دن میں پندرہ چکر لگاتے ہیں ۔ٹرک کی اوسطا یومیہ آمدن ڈیڑھ لاکھ جب کہ ڈمپر کی ایک دن کی آمدن 3 لاکھ روپے ہے ۔پندرہ پھیروں کے 67 لاکھ 50 ہزار روپے بنتے ہیں ۔عیدیں اور قومی تہوار کی چھٹیوں سمیت ہر جمعہ مزدور چھٹی کرتے ہیں ۔سالانہ اوسطا 2 ارب 3 کروڑ 85 لاکھ روپے کی غیر قانونی کمائی جاری ہے ۔

فطرت کے شاہکار ان حسین پہاڑیوں کے کٹاو نے ماحولیات کے ساتھ قومی ورثے کو بھی شدید نقصان پہنچا یا ہے ۔کٹی پھٹی نوکیلی چٹانیں فطری ،جغرافیائی اور دفاعی اہمیت کھوتی جارہی ہے ۔۔ انسانوں اور جنگلی حیات کو تحفظ دیتے پہاڑ بس کچھ عرصے کے مہمان دیکھائی دیتے ہیں ۔

ان علاقوں میں اب زلزلے بھی زیادہ آتے ہیں ۔ماہرین کہتے ہیں کہ پہاڑوں کے کٹاو کے بعد آنے والے دنوں میں موسمیاتی تغیرات کی نشانیاں بھی کھل کر سامنے آئیں گی ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے