’شیر اور عقاب کی کرکٹ‘

کچھ باتیں جو بھارت اور پاکستان میں رہتے ہوئے بالکل نارمل محسوس ہوتی ہیں وہی باتیں باقی دنیا کو عقل سے ماورا لگتی ہیں۔ مثلاً 1999 میں کرگل کی چوٹیوں پر لڑائی بھی چھڑی ہوئی تھی اور بھارت اور پاکستان کرکٹ ورلڈ کپ میں مانچسٹر کا میچ بھی کھیل رہے تھے۔ چھکا کوئی بھارتی کھلاڑی مارتا اور ہزاروں میل پرے چھکے کی خوشی میں ٹھائیں بھارتی توپ سے ہوتی۔ وکٹ کوئی پاکستانی کھلاڑی لیتا اور دراس کی بلندیوں پر مورچہ بند پاکستان کی ناردرن لائٹ انفنٹری کا کوئی جوشیلا اپنی جی تھری کا رخ بھارت کی طرف کر کے خوشی کا ایک برسٹ چلا دیتا۔
محض ایک کھیل یا سرحدوں کی رقابت؟ پاکستان، انڈیا کا میچ دیکھنے کون کون آئے گا؟

اس میچ میں بھارت کے ایک سو اٹھائیس رنز کے جواب میں پاکستان ساڑھے پینتالیس اوورز میں صرف 180 رنز ہی بنا پایا لیکن ہار کے غم اور جیت کی خوشی میں کرگل میں اس دوران سینکڑوں گولیاں چل گئیں۔

دنیا کو تو یہ سادہ سی بات بھی گنجلک لگتی ہے کہ بھارت اور پاکستان دو طرفہ کرکٹ سیریز کھیلنے سے انکار کے لیے اگر سو بہانے کر سکتے ہیں تو پھر ورلڈ ٹی ٹوینٹی 2016 جیسے مقابلوں میں ایک دوسرے سے کھیلنے کے لئے مرے کیوں جاتے ہیں۔

کولکتہ میں بھارت اور پاکستان کا پہلا گروپ میچ تو آج ہے مگر دونوں طرف کا میڈیا پچھلے چوبیس گھنٹے سے بخار میں یوں پھنک رہا ہے گویا اس ورلڈ ٹی ٹوینٹی میں دو ہی ٹیمیں ہیں یعنی بھارت اور پاکستان اور باقی ٹیمیں بطور چیئر لیڈر شریک ہیں۔

اگر میڈیا کی آنکھ سے آج کے میچ کو دیکھا جائے تو یہ مقابلہ کرکٹرز کے درمیان تھوڑا ہے۔ پاکستانی ٹیم شاہینوں (عقاب) پر مشتمل ہے ۔جبکہ بھارتی ٹیم میں شیر کھیل رہے ہیں۔

باقی دنیا اس منطق میں پھنسی ہے کہ عقاب کیسے شیر کو پنجوں میں پھنسا لے جائے گا اور بے پر کا شیر اڑتے عقاب کا شکار کیسے کرسکتا ہے۔مگر یہ بھارت اور پاکستان ہے بھئیا ۔ یہاں سب چلتا ہے۔اپنی عقل مت لڑاؤ۔یہاں شاہین ہار جائے تو اسے چیل اور شیر کو گیدڑ بنتے دیر نہیں لگتی۔

پاکستان ہو کہ بھارت دونوں جانب کے تماشائی کی نفسیات یہ ہے کہ بھلے کالے چور سے ہار جاؤ مگر ایک دوسرے سے نہ ہارو۔اسی نفسیات کا فضل ہے کہ ایک دن شاہد آفریدی بوم بوم ہے اور دوسرے دن وہی آفریدی شیم شیم ۔ورات کوہلی جیت جائے تو کوہلی مہاراج کی جے اور ہار جائے تو مردہ باد ۔۔۔

بس جیت چاہئے ، ہارنے والے کا کوئی سگا نہیں۔ روم کے کولوسئیم میں گلیڈی ایٹرز اور بھوکے شیروں کی لڑائی دیکھنے والے مجمعے سے لے کر کولکتہ کے ایڈن گارڈن کی 66ہزار نشستوں پر اچھل اچھل کے آسمان سر پر اٹھانے والوں تک کوئی تماشائی نہیں بدلا۔ بس دور بدلا ہے۔اور بھارت اور پاکستان کے تماشائی کا دماغ پڑھنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔

تماشائی بھی کرے تو کیا کرے کہ اس کی فرسٹریشن زدہ زندگی تو ویسے ہی مسائل کے ہاتھوں ہاری ہوئی ہے اور اگر کرکٹ ٹیم بھی ہار جائے تو پیچھے بچا کیا؟

آج کے جنونی میچ کا کوئی بھی نتیجہ نکلے سب سے زیادہ خوشی پاکستانی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان کو ہوگی ۔جن سے کم ازکم اگلے اڑتالیس گھنٹے تک کوئی نہیں پوچھے گا کہ پرویز مشرف کا اب کیا ہوگا ؟

تھینک یو آفریدی ، تھینک یو راحیل شریف۔

بشکریہ بی بی سی اردو

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے