انتہا پسندی اورمتبادل بیانیہ

پاکستان میں غالباً پہلی دفعہ مختلف مگر صاحب الرائے حلقوں میں یہ بحث چل نکلی ہے کہ انتہاپسندی اور دہشت گردی کے بارے میں قومی بیانیے پر نظرثانی کی اشد ضرورت ہے۔ اکثر حلقوں کا متفقہ خیال ہے کہ جب تک قومی بیانیہ (مروجہ) بدلتے حالات کے تناظر میں تبدیل نہیں کیا جاتا، شدت پسندی کی کوکھ سے دہشت گردی جنم لیتی رہے گی اور تمام تر ریاستی اقدامات کے باوجود یہ ناسور کم تو ہو سکتا ہے مگر ختم کبھی نہیں ہو گا۔ کسی بھی مزاحمتی تحریک یا ریاست مخالف سرگرمی کی جڑیں کہیں نہ کہیں موجود ہوا کرتی ہیں۔ ہم لاکھ کہیں کہ اسلام امن کا مذہب ہے اور اسے زبردستی دوسروں پر اپنے اپنے افکار یا نظریات کے مطابق مسلط نہیں کیا جا سکتا مگر حقیقت تو یہی ہے کہ بعض دیگر مذاہب کی طرح اسلام کو اپنے اپنے بیانیے اور نظریات کے مطابق مختلف ادوار میں بعض قوتیں استعمال کرتی آئی ہیں اور آج پاکستان سمیت متعدد دیگر ممالک اور معاشروں کو بھی ایسے ہی عناصر کے فکری بیانیے یا نظریات کے منفی نتائج اور اثرات کا سامنا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام ہی کی بنیاد پر پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ تاہم اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ جن لیڈروں نے پاکستان کے لئے ایک مربوط ریاستی نظام وضع کیا تھا، ان میں اکثر سیاسی شعور‘ عالمی سیاست اور عوامی خواہشات کی دولت اور ادراک سے مالامال تھے۔ ان لیڈروں کی تعلیمات‘ تقاریر اور ابتدائی ریاستی اقدامات سے یہ نتیجہ اخذ کرنا قطعاً مشکل کام نہیں ہے کہ وہ ایک فلاحی اسلامی ریاست کے خواہاں تھے اور ان کی ریاستی ڈیزائننگ میں ایک ایسے پاکستان کا خاکہ بالکل نہیں تھا جہاں اپنے نظریات کو سیاسی یا ریاستی سطح پر دوسروں پر مسلط کرنے کا مقصد یا ارادہ موجود ہو۔ دوسرے معاشروں کی طرح پاکستان کے اندر بھی اس تصور یا مذہبی وابستگی کی غلط تشریح کی گئی کہ پاکستان ایک تنگ نظر یا شدت پسند رویے یا نظریئے کے فروغ کے لئے قائم ہوا ہے۔ اس تشریح کی تشہیر کے لئے ایسے بہت سے طاقتور مذہبی حلقے میدان میں کود پڑے جن کا معاشرے میں کافی اثر رسُوخ تھا اور بعض کو ان مذہبی نظریات یا تحاریک کی مسلسل آشیرباد بھی حاصل رہی جن کی پشت پر یہ فلسفہ پوری قوت کے ساتھ موجود تھا کہ پاکستان میں شدت پسندی پر مشتمل ریاستی اور معاشرتی ڈھانچہ تشکیل دیا جا سکتا ہے۔ اندرونی عوامل کے ساتھ ساتھ خارجی نظریات سے جڑے ایک نظریاتی اتحاد کی جڑیں ہمارے بعض حکمرانوں کی معاونت کے باعث گہری ہوتی گئیں کہ مجوزہ شدت پسندی پر قائم اس نظریاتی تصور یا خواہش نے بعد میں ایک باقاعدہ بیانیے کی شکل اختیار کر لی ہے اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان اس کے باوجود ایک سخت گیر اسلامی ریاست کے طور پر متعارف ہونے لگا کہ عوام نے مذہبی جماعتوں کو کسی بھی الیکشن میں پانچ یا سات فیصد سے زیادہ ووٹ نہیں دیئے۔ اگر ملک کے عوام واقعتا ایک سخت گیر اسلامی پاکستان کے حامی ہوتے تو پارلیمانی تاریخ کا انڈیکس سیکولر اور جمہوریت پسند سیاسی قوتوں کے بجائے مذہبی جماعتوں کی ترجمانی کرتا نظر آ رہا ہوتا۔ تاہم عوام نے تمام انتخابات کے دوران مذہبی قوتوں کو مسترد کیا حالانکہ ہم جس شدت پسندی یا بیانیے کی بات کر رہے ہیں، مذہبی جماعتوں کا طرز عمل اس سے بالکل مختلف بلکہ بہتر رہا ہے۔ کیونکہ ان کو نہ چاہتے ہوئے بھی عوام کے رجحانات اور خواہشات کا تھوڑا بہت ادراک تھا۔

آج ہم مذہب اور ریاست کے اشتراک پر مشتمل جس بیانیے کا سامنا کر رہے ہیں، شواہد اور تجربات تو یہ بتاتے ہیں کہ اس کو کبھی بھی سیاسی قوتوں‘ عوام اور اشرافیہ کی اکثریت کی حمایت حاصل نہیں رہی۔ چند ایک لیڈروں کی پالیسیوں‘ کوششوں یا خواہشوں کو پورے ملک‘ معاشرے یا ریاست کی پالیسی کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ المیہ یہ رہا ہے کہ اہل ریاست نے باہمی فاصلوں‘ بدگمانیوں یا غیر سنجیدگی جیسے عوامل کے باعث اصل بیانیے کی اہمیت ترویج اور تشہیر پر کبھی توجہ نہیں دی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اقلیت کی خواہشات پر مبنی ایک مبہم اور خطرناک بیانیے کو بوجوہ فروغ ملتا رہا اور ہم ایک خطرناک جنگ کا شکار ہو تے گئے۔ ریاست کی یہ ضرورت بھی ہوتی ہے اور مجبوری بھی، کہ وہ اجتماعی عوامی یا قومی سوچ یا خواہش پر مشتمل رویے اور پالیسیاں اپنائے کیونکہ عوام کی رائے اور مرضی کے بغیر نہ تو ریاست ترقی کر سکتی ہے اور نہ ہی کوئی مضبوط سیاسی نظام تشکیل دیا جا سکتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی یہ راستہ اپنایا گیا تاہم بعض قوتوں یا حلقوں کے بیانیے کو قومی رائے یا خواہش کا نام دیا گیا اور احتجاجی سوچ کو پس منظر میں ڈالنے یا رکھنے کی روش اپنائی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک مخصوص ذہنیت نے تشدد کے ذریعے نہ صرف معاشرے کو لپیٹ میں لئے رکھا بلکہ یہ ذہنیت ریاستی امور اور اذہان پر بھی اثر انداز ہونے لگی ۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم ماضی کی غلطیوں کارونا روتے ہیں مگر حال کے معاملات اور مستقبل پر کوئی توجہ نہیں دے رہے۔

تاریخی حقائق کے تناظر میں اگرمختصراً یہ کہا جائے کہ بحیثیت قوم پاکستانیوں کا مزاج ہمیشہ جمہوری اور سیاسی رہا ہے تو یہ غلط بالکل نہیں ہو گا۔ پاکستان کے اداروں کی بھی کوشش رہی ہے کہ اس کی معتدل شکل مضبوط ہو اور یہ ایک فلاحی اسلامی ریاست ہو۔ تاہم بعض قوتوں کے نظریات نے بوجوہ معاشرے اور ریاست کو شدت پسندی کی جانب مائل کرنے کی کوششیں جاری رکھیں اور جب یہ کوششیں عوام کے ایک گروہ میں مقبولیت حاصل کر چکیں تو ان قوتوں نے بندوق ‘ تشدد اور جبر کے ذریعے اپنے نظریات مسلط کرنے کا راستہ اپنا کر ریاست اور سوسائٹی دونوں کے خلاف اعلان بغاوت کر دیا۔ شدت پسندی کے نظریات کی کوکھ سے جنم لینے والی جس دہشت گردی کا ہم کئی برسوں سے سامنا کر رہے ہیں، اس کے پیچھے یہی پس منظر اور کوششیں کارفرما ہیں اور اس کوشش کے پیچھے اسی بیانیے کا ہاتھ ہے جس کا ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں۔بعد از خرابی بسیار کے مصداق پاکستان کے مقتدر اور عوامی حلقے اب اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ شدت پسندی اور انتہا پسندی کا خاتمہ کئے بغیر دہشت گردی کا راستہ روکنا مشکل ہے۔ اسی سوچ کے تناظر میں کوشش کی جا رہی ہے کہ دہشت گردی سے متعلق اقلیت کے مروجہ بیانیے کو تبدیل کرنے کے لئے اقدامات کئے جائیں تاکہ اس مرض کی تشخیص کے بعد اس کا مستقل علاج بھی ڈھونڈا جا سکے۔

نیشنل ایکشن پلان ایک ایسا قومی فیصلہ یا مسودہ ہے جس میں قومی اتفاق رائے سے اس بات کا عزم ظاہر کیا گیا ہے کہ بعض عملی اقدامات کے علاوہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے فکری تبدیلیاں بھی لائی جائیں گی اور اس کے ساتھ ساتھ عوام کو یہ پیغام بھی دیا جائے گا کہ شدت پسندی کے ذریعے اپنے نظریات کو دوسروں پر مسلط کرنے کی تمام کوششوں کی سختی کے ساتھ حوصلہ شکنی کی جائے گی۔ اگر نیشنل ایکشن پلان کے 20نکات کا جائزہ لیا جائے تو اس سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ زیادہ توجہ اس امر پر ہی دی گئی ہے کہ معاشرتی‘ سیاسی اور ریاستی سطح پر مشترکہ کوششوں اور اقدامات کے ذریعے دہشت گردی کی وکالت کرنے والے نام نہاد مذہبی بیانیے کو تبدیل کیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ ریاستی رٹ کی بحالی اور قانون کی بحالی کے لئے طاقت کا استعمال بھی کیا جائے۔ درحقیقت نیشنل ایکشن پلان کے 20میں سے چھ نکات ایسے ہیں جو کہ بالواسطہ یا بلاواسطہ بیانیے ہی سے متعلق ہیں۔ تاہم افسوسناک امر یہ ہے کہ معاشرے‘ اہل ریاست‘ میڈیا اور سول ادارہ جاتی نظام نے نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کا تمام کام فورسز پر چھوڑ دیا ہے۔ حالانکہ فورسز کا مینڈیٹ اور کام بالکل الگ نوعیت کا ہے اور انہوں نے قومی قیادت اور عوام کے فیصلوں کے مطابق اپنے اختیاراور مینڈیٹ کے اندر رہ کر فرائض انجام دینے ہوتے ہیں۔ اگر گزشتہ دو سال کے واقعات‘ پالیسیوں اور اقدامات کا جائزہ لیا جائے تو ثابت یہ ہوتا ہے کہ فورسز نے اپنے حصے کا کافی کام تو کر دیا ہے تاہم معاشرے کے دیگرسٹیک ہولڈرز اپنے اپنے حصے کا کردار ادا کرنے میں یا تو ناکام رہے ہیں یا جو کام انہوں نے کیا ہوا ہے وہ ناکافی یا نامکمل ہے۔ ماہرین کے مطابق جو لوگ شدت پسندی کی جانب مائل ہیں یا ہو رہے ہیں ان کو اسلام‘ جہاد یا قتال کا صحیح مفہوم سمجھانا کسی بھی ادارے یا گروہ کا کام نہیں ہے بلکہ اس کے لئے اجتماعی کوشش ناگزیر ہے۔اس مقصد کے حصول کی سب سے بڑی ذمہ داری علماء پر عائد ہوتی ہے کیونکہ مذکورہ بیانیے کا بنیادی تعلق مذہب یا اس کے ایک جزو سے ہے جس کی غلط یا نامکمل تشریح کی جا رہی ہے۔ تاہم افسوس کی بات یہ ہے کہ علماء یا دیگر دینی حلقے خوف‘ مصلحت یا کسی اور وجہ سے اپنا یہ فرض سرانجام دینے میں ناکام رہے ہیں حالانکہ متعدد اسلامی حلقے یا اکابرین متعدد بار اس بیانیے کے نتائج کا خود بھی شکار ہوتے آئے ہیں۔

ان مذہبی حلقوں کو اچھی طرح علم ہے کہ نامکمل یا جانبدارانہ مروجہ بیانیے کے اثرات اور نتائج کتنے منفی اور خطرناک ہیں۔ اس کے باوجود وہ درست اور درکار بیانیے کی تشریح اور تشہیر کے اپنے فریضے سے غافل ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ یہ حلقے اکثر مواقع پر مناسب اور درکار ریاستی اقدامات پر تعاون کے بجائے مزاحمت کا راستہ اختیار کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اس ضمن میں مدارس کے نصاب یا طریقہ کار میں اصلاحات کی حکومتی کوششوں کی مثال دی جا سکتی ہے۔ جس کے دوران مذہبی حلقے ریاست کے مدمقابل کھڑے ہونے میں دیر نہیں لگاتے حالانکہ ان کو اچھی طرح علم ہے کہ ریاست کی ذمہ داریاں کیا ہوتی ہیں اور عوام کے تحفظ کے لئے ریاست کو کس حد تک جانا چاہئے۔ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ ریاست کسی کو بھی یہ اجازت نہیں دے سکتی کہ اس کی رٹ کو چیلنج کیا جائے یا بندوق کے زور پر اپنے نظریات دوسروں پر ٹھونسے جائیں۔ اس بات کا بھی سب کو علم ہے کہ اگر ریاست ایسے معاملات میں اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر پاتی تو اس کا وجود خطرے میں پڑ جاتا ہے اور عوام کا اس پر اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ اس کے باوجود اگر علماء یا مذہبی حلقے اپنے فرائض سے غافل ہیں تو یہ ایک المیہ ہی ہے۔

قومی بیانیے کی تشریح یا تشہیر میں سیاسی قوتوں کا بھی بنیادی کردار ہوا کرتا ہے۔ کیونکہ یہ عوام کے جذبات کی ترجمانی کرتی ہیں۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ مذہبی حلقوں کے مقابلے میں اکثر سیاسی جماعتوں کا کردار کافی بہتر ہے تاہم اس کو بھی درپیش چیلنجز کے تناظر میں اطمینان بخش قرار نہیں دیا جا سکتا۔ محض کسی ایجنڈے یا فیصلے کی تائید سے نتائج برآمد نہیں کئے جا سکتے۔ اس کے لئے کھلے ذہن کے ساتھ میدان عمل میں آنا پڑتا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ مذہبی قوتوں اور فورسز کے ساتھ ساتھ مین سٹریم سیاسی قوتیں بھی اپنا کردار ادا کریں۔ میڈیا اور سول سوسائٹی کا رول بھی انتہائی اہم ہے۔ اگرچہ ماضی کے مقابلے میں اب کی صورت حال نسبتاً بہتر اور مثبت ہے، تاہم رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لئے جن کوششوں کی ضرورت ہے وہ نظر نہیں آ رہیں۔

اس میں دو رائے ہیں ہی نہیں کہ اگر فورسز‘ سول قیادت‘ سیاسی جماعتیں‘ مذہبی فورمز اور میڈیا جیسے ستون جینوین متبادل بیانیے کے معاملے پر فوکس کر کے ایک پیج پر آ جائیں تو نہ صرف یہ کہ ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ ہو جائے گا بلکہ شدت پسندی اور انتہاپسندی کی وہ جڑیں بھی ختم ہو جائیں گی جن سے وقتاً فوقتاً نئی ’’فصلیں‘‘ تیار ہو کر نکل آتی ہیں اور ہمیں ہر بار مختلف کارروائیوں کے ذریعے بڑے نقصان کے بعد ایک نئی فصل کو پھر سے کاٹنا پڑتا ہے۔ اگر کسی کا یہ خیال ہے کہ محض فورسز کی کارروائیوں سے اس مسئلے کا حل نکل آئے گا تو یہ درست نہیں ہو گا۔ ماہرین اس ضمن میں درج ذیل تجاویز پیش کرتے ہیں۔

-1 اس اہم قومی معاملے پر مذاکروں‘ مباحث اور سیمینارز کے ذریعے اس بات کا عملی جائزہ لیا جائے کہ اس نوعیت کے بیانیے اور شدت پسندی اور دہشت گردی کا آپس میں کتنا گہرا تعلق ہے۔

-2اس معاملے پر غور کیا جائے کہ اسلام ‘ جہاد اور ایک فلاحی ریاست کے بارے میں ہمارے ہاں جو تصورات اور نظریات موجود ہیں، آیا زمینی حقائق اور تاریخی تناظر میں وہ درست بھی ہیں یا نہیں۔

-3اس رویّے پر نظر ثانی کی جائے کہ سیاسی‘ مذہبی اور علمی حلقے واقعتا اپنا کردار ادا کر بھی رہے ہیں یا نہیں۔ آیا دہشت گردی سے نمٹنا صرف ریاست اور فورسز کی ذمہ داری ہے یا معاشرے کو بھی آگے آنا پڑے گا۔

-4ان مراکز کو ڈھونڈ کر عوام کے سامنے رکھا جائے جہاں سے مخصوص حالات کے باعث شدت پسندی پر مشتمل نظریات متعارف ہوئے اور اس رویّے نے عملی شکل پاکستان یا افغانستان میں اختیار کر لی۔

-5ان عناصر کا ریاستی سطح پر نتائج کی پروا کئے بغیر سخت محاسبہ کیا جائے جو کہ شدت پسندی کے تابع بیانیے کا دفاع کر رہے ہیں یا اس کا حصہ دار بنے ہوئے ہیں۔ یہ بات بھی یقینی بنائی جائے کہ کسی خوف یا مصلحت کو رکاوٹ نہ بننے دیا جائے۔

-6کاؤنٹر ٹیررازم کے اقدامات کے ساتھ ساتھ کاؤنٹر نیریٹو کی کوششوں پر نہ صرف یہ کہ فوکس کیا جائے بلکہ اس مقصد کے لئے ریاستی سطح پر یورپی ممالک کی طرز پر ایک بجٹ بھی مختص کیا جائے تاکہ ایک مسلسل عمل اور مانیٹرنگ کے ذریعے مطلوبہ مقاصد حاصل ہو سکیں۔

[pullquote]مضمون نگار ممتاز صحافی اور تجزیہ نگار ہیں۔[/pullquote]

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے