یوم پاکستان کا پیغام

تحریک پاکستان کے پس منظر میں کئی قابل قدر اورقابل ستائش ایام ہیں ،ان میں سے 23 مارچ 1940 ء کا وہ بابرکت اور تاریخی دن ہے جس کے دامن پر برصغیر کے مسلمانوں کی عزت ،عظمت ،وقار اور سربلندی کے خوشنما پھول سجے ہیں،جو علامہ محمد اقبال ؒ کے خواب کی تعبیر تھا،1930 ء کو اٰل انڈیامسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کے صدارتی خطبے میں علامہ محمد اقبال ؒ نے بڑی وضاحت کے ساتھ مسلمانان ہند کی منزل کی نشاندہی کی ،کہ مسلمانوں کی منزل ایک علیحدہ مملکت ہی ہے۔

تحریک پاکستا ن صرف چند برسوں کا قصہ نہیں ہے بلکہ یہ عزم و ہمت ،وفا و قربانی کی ایک سچی داستان اور طویل داستان ہے،پاکستان اسی دن وجود میں آ گیا تھا جس دن ہندوستان میں پہلے ہندو نے اسلام قبول کیا تھا،عظیم فاتح و محسن ہندمحمد بن قاسم ؒ نے اسلام کے آفاقی پیغام کو ذات پات میں تقسیم برصغیر کی قوموں تک پہنچایا اور انہیں وحدت اسلامی میں پرو کرمضبوط قوت بنا ڈالا تھا، مسلم فاتحین ،مغلیہ دور حکومت میں بھی اقلیتوں اور دیگر مذاہب کو حقوق اور معاشرے میں مناسب مقام عطا کیا جاتا رہا۔افرنگی دور میں پے درپے رونما ہونے والے واقعات،انگریز کا مسلمانوں کو اپنا اصل حریف سمجھنے اور ہندووں کے گٹھ جوڑ کی وجہ سے وسیع پیمانے پر مسلمانوں کے مالی ،جانی نقصان اورحقوق کے معاملے میں جانب داری برتنے کی وجہ سے مسلم قائدین یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ مسلمانوں کو اپنے تشخص اور پہچان کے لیے الگ قوت کی صورت میں حقوق کی جدوجہد کرنی ہو گی۔یہی وہ نقطہ آغاز تھا جو تصور پاکستان سے مطالبہ و قرارداد پاکستان تک اور پھر تحریک و قیام پاکستان پر منتج ہوا۔

19مارچ 1940 ء لاہور میں پولیس اور علامہ مشرقی کی خاکسار تحریک کے رضاکاروں کے درمیان تصادم کے نتیجہ میں 50کارکن شہید ہوئے،لاہور کی فضا سوگوار تھی مسلمان شدید غم و غصہ کی کیفیت میں مبتلاء تھے،جب کہ اٰل انڈیا مسلم لیگ نے 22مارچ کو سالانہ اجلاس پہلے سے طے شدہ تھا، طے شدہ ترتیب کے مطابق 22مارچ قائداعظم کی زیر صدارت اجلاس شروع ہوا،نوابزادہ سر شاہ نواز ممدوٹ نے خطبہ استقبالیہ دیا ،قائداعظم ؒ نے صدارتی خطبہ دیتے ہوئے کہا کہ لفظ قوم کی ہر تعریف کی رو سے مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں،اس لحاظ سے ان کا اپنا علیحدہ وطن،اپنا علاقہ اور اپنی مملکت ہونی چاہیے،ہم چاہیے ہیں کہ آزاد اور خود مختار قوم کی حیثیت سے اپنے ہمسائیوں کے ساتھ امن اور ہم آہنگی کے ساتھ زندگی بسر کریں،اور اپنی روحانی ،ثقافتی ،معاشی ،معاشرتی اورسیاسی زندگی کو اس طریق پر زیادی سے زیادہ ترقی دیں جو ہمارے نزدیک بہترین ہو،اور نصب العین سے ہم آہنگ ہو۔اسی روز رات آٹھ بجے نواب زادہ لیاقت علی خان نے قائد اعظم ،سرسکندر حیات خان اور دوسرے دو ارکان پر مشتمل کمیٹی میں قرارداد کا مسودہ پیش کیا ۔

قائداعظم کی ہدایت پر مولانا ظفر علی خان نے قرارداد کا اردو میں ترجمہ کیا ۔ 23مارچ کی شام ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں کے اجلاس عام میں شیر بنگال مولوی فضل حق نے قرار داد پیش کی کہ مسلمان اقلیت نہیں بلکہ دنیا کے ہر مروج معیار کے مطابق ایک قوم ہیں ،ہم بنگال ،پنجاب،صوبہ سرحد ،سندھ اور بلوچستان میں اکثریت میں ہیں ، اس لیے ہمارے ساتھ باقی اقلیتوں جیسا سلوک نہیں کیا جاسکتا ،ہندوستان کے مسئلے کا حل یہی ہے کہ اسے آزاد مملکتوں میں تقسیم کردیا جائے،صرف اسی طرح ہندوستان میں امن وامان قائم ہو سکتا ہے۔
قراردادلاہور کی تائید چودھری خلیق الزمان،ابراھیم اسماعیل چندریگر،مولانا ظفر علی خان، اورنگزیب خان ، سرعبداللہ ہارون سمیت12 لیگی راہنماؤں نے تائید کرکے متفقہ طور پر منظور کیا ۔قرارداد کی منظوری کے بعد قائد اعظم نے ایک حسرت بھرا جملہ کہا کہ اے کاش!آج اقبال زندہ ہوتے تو وہ یہ دیکھ کر بے حد خوش ہوتے کہ بالآخر ہم نے وہی کچھ کیا جو وہ چاہتے تھے۔

اگلے دن ہندو اخبارات نے قرارداد لاہور کو "پاکستان کی قرارداد” کہہ کر مذاق اڑایا،اور قائد اعظم نے یہ کہہ کر بات کی وضاحت کردی "tتھینک یوہندو پریس "آپ نے میری مشکل آسان کردی ،جس بات کو سمجھانے میں مجھے ایک عرصہ درکار تھا وہ آپ نے ایک رات میں واضح کردیا۔پاکستان کا وجود بارگاہ الٰہی سے مقدر ہو چکا تھا، یہ قرارداد چھ کروڑ مسلمانان ہند کی آواز بن چکی تھی ،اس قرارداد سے اسلامیان ہند کی منتشر افرادی قوتیں اور ذہنی صلاحیتں بیدار اور مستحکم ہوئیں،مسلمانوں نے ہرقیمت پر اسے حقیقت کا روپ دینے کی ٹھان لی۔

1940 سے 1947 تک کے سات برسوں میں بلاشبہ برصغیر کے مسلمانوں نے کئی دہائیوں کا سفر طے کیا،اور یہ ثابت کردیا کہ جب کوئی قوم ثابت قدمی اور حریت کے جذبے سے سرشار ہو،اتحاد ،ایمان ،نظم و ضبط کا دامن پکڑے، قیادت مخلص ہو تو پھر کوئی رکاوٹ حصول منزل میں رکاوٹ نہیں بن سکتی ہے۔14اگست 1947 ء کا سورج آزادی کی نوید لے کر طلوع ہوا،اور کرہ ارض پر عالم اسلام کی پہلی اور دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت ظاہر ہوئی،دوقومی نظریہ کی بنیاد پر بننے والی اسلامی جمہوریہ پاکستان مسلمانوں کی امیدوں کا محور و مرکز قرارپایا ،جہاں اسلام کا بول بالاہو اور سب کی پہچان صرف پاکستانی ہو ۔
قیام پاکستان کے خواب کو تعبیرمسلمانوں کے جذبے ،اتحاداور عزم سے ملی،لاکھوں مسلمانوں نے ہجرت کرکے پاک مٹی کو اپنا مسکن بنایا ،اسے سنوارااورتعمیر کیا یہاں تک کہ پاکستان دنیا کے نقشے پر پہلی اسلامی طاقت کے صورت میں نمایاں ہوا۔یوم پاکستان کے موقع پر ہمیں پھر اسی عزم ،جذبہ اتحاد واتفاق اور تنظیم اورایمان کی قوت سے استحکام وطن کے لیے جدوجہد کرنے کا عہد کرنے کے ساتھ ساتھ قومی ،لسانی، مذہبی اور سیاسی تفریق سے بالا تر ہو کر ایک پاکستانی کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرناہو گا،قومی اتحاد و یکجہتی یوم پاکستان کا پیغام ہے اور وقت کی آواز بھی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے