حسنی مبارک اور جنرل پرویز مشرف

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی پریس کانفرنس میں جنرل پرویز مشرف کا نامECLسے نکالنے کی بات قوم کو آگاہ کر رہے تھے۔ کہ دوفعتاً خیال مصر کی جانب گھوم گیا۔ یونیورسٹی میں طالب علموں کو مشرقِ وسطیٰ کی سیا سیاست پڑھاتے ہوئے اکثر پاکستان اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک میں مماثلت تلاش کر رہتا ہوں ۔اور یوں مصر کی سیاست ذہن میں ابھر آئی ۔بلاشبہ اگر مشرقِ وسطیٰ کی پچھلی دہائی پر طاہرانہ نظر دوڑائی جائے تو اہم ترین واقعہ 2011میں عرب بہار کا ہے۔ جمہوریت انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کے لئے یہ تحریک تیونس سے شروع ہوئی اور مصر تک جا پہنچی ۔حُسنی مبارک ایک سابقہ فوجی افسر تھے جو 1981 میں مصر کے صدر انور ساددات کی شہادت کے بعد اقتدار پر برا جمان ہوئے۔

انہوں نے انتیس سال اپنے زور بازو اور آمرانہ جبر کے ذریعے مصر پر حکومت کی۔ ریاست کے وسائل اپنے خاندان اور کاروباری مفادات کے تحفظ میں بے دریغ خرچ کیے۔

دو ہزار گیارہ میں جمہوریت اور سیاسی حقوق کے حصول کے لئے چلنے والی عوامی تحریک نے قائرہ کے اسکوئر کو مسلم دنیا میں جمہوریت کی علامت بنا دیا۔ آٹھارہ روزہ اس تحریک میں لاکھوں لوگ دن رات تحریر سکوئر پر دھرنا دئیے بیٹھے رہے اور یوں حکومت کا نظم و نسق اور کاروبار زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا ۔

آمرانہ حکومتوں کا خاصا بے دریغ تشتدد اور خوف کی فضا پیدا کرنا ہوا کرتا ہے لہذا آٹھارہ روزہ تحریک کے دوراں حسنی مبارک حکومت نے نو سو لوگوں کا قتل عام کیا اس میں سیاسی کارکن ،صحافی ، وکیل ، خواتین ، بچے اورہر طبقہ فکر کے لوگ شامل تھے۔یہ تمام تر آمرانہ ہتھکنڈے بھی عوام کو تحریر سکوئر سے منتشر ہونے پر مجبور نہ کر سکے نتیجۃ عوام کی طاقت کے سامنے آمرانہ قوتوں کو شکست ہوئی اور یوں حسنی مبارک استعفیٰ دے کر رخصت ہوئے۔

حسنی مبارک کے استعفیٰ کے بعد مصر کی تاریخ کے پہلے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد ہوا۔ اور یوں اخوان المسلمین کے رہنما محمد مرسی صدر منتخب ہوئے ۔مصر کے صدر مرسی آئین سازی اور جمہوری اداروں کو تشکیل دینے میں مصروف عمل تھے ۔

مرسی حکومت نے حسنی مبارک کا تحریر سکوئر کی تحریک کے دوران نو سو افراد کے قتل کا ٹرائل بھی شروع کیا اسکے علاوہ سابق مصری صدر پر بد عنوانی اور اختیارات کے نا جائز استعمال کے مقدمات بھی شروی ہوئے ۔ اور یوں انہیں گرفتار کر لیا گیا۔

بین الاقوامی قوتوں اور مقتدر حلقوں کو یہ گوارہ نہ تھا لہذا 2013 میں جنرل سیسی نے جمہوری حکومت کا خاتمہ کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کر لیا ۔
صدر مرسی اور ان کی پارٹی کے اہم رہنماوں اور ہزاروں کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا۔

جنرل سیسی کے اقتدار میں آنے کے بعد مصری عدالت نے حسنی مبارک کو بیماری کے پیشہ نظر قائرہ کے فوجی ہسپتال میں منتقل کر دیا ۔ اور یوں 2015 میں مصر کی اعلیٰ عدالت کے ایک فیصلے کے مطابق حسنی مبارک کو رہا کر دیا گیا ۔

مصری عدالت کے جج محمود الرشیدی کے تحریری فیصلے کے مطابق حسنی مبارک بوڑھے ہو چکے ہیں اور تمام جہانوں کے مالک اللہ تعالیٰ پر وہ یہ فیصلہ چھوڑتے ہیں ۔ نہ جانے کیوں مصر کے جج کے یہ ریمارکس پڑھ کر چوہدری نثار علی خان کی پریس کانفرنس ذہن میں آگئی اور اس کے ساتھ ہی ماضی کے دو حکمرانوں جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف کے خطابات بھی ذہن میں ابھر آئے ۔جنرل ضیاالحق اکثر و بیشتر افغان جنگ کے دوران پاکستان کو عالم اسلام کا قلعہ قرار دیتے ۔ اور مسلم دنیا میں اسے اہم مقام دلانے میں اپنی کوششوں کا تذکرہ کرتے اور پھر یادِ ماضی میں جنرل پرویز مشرف کی وہ تقریر بھی ذہن میں نمودار ہوئی جس میں وہ ترکی کو پاکستان کا رول ماڈل قرار دیتے ۔

تاریخ کی کتابوں سے یہ بات ثابت ہے کہ اقبال اور قائد اعظم پاکستان کو جدید جمہوری ،اسلامی اور فلاحی ریاست بنانا چاہتے تھے۔لیکن جنرل (ر) پرویز مشرف کے بیرون ملک فرار ہونے کے بعد یوں محسوس ہوا ،کہ پاکستان اقبال اور قائد اعظم کے خوابوں کے بر عکس مصر بن گیا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے