ہولی، رنگوں اور خوشیوں کا تیوہار

ہولی موسم بہار میں منایا جانیوالا ہندو مت کا مقدس مذہبی اور عوامی تہوار ہے۔ یہ پھاگن کے مہینے (مارچ-اپریل) میں چاند کی پندرھویں تاریخ کو منایا جاتا ہے۔اس دن اہل ہنود ایک دوسرے پر رنگ پھینک کر محظوظ ہوتے ہیں، گھروں کے آنگن کو رنگوں سے نقشین کرتے ہیں اور بہار کو خوش آمدید کرتے ہیں ۔

لائے اس بت کو التجا کر کے
کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے

[pullquote]ہاں! کیوںکہ اس بار کی ہولی ہر سال سے اس لیے بھی مختلف ہے کہ اس بار حکومت وقت نے اس کو قومی تہوار قرارد دیا ہے، 68 سال بعد اس خواہش کو عملی جامہ پہنایا گیا ۔[/pullquote]

لوگوں کی التجا سن ہی لی گئی اور پاکستان میں بسنے والی مذہبی اقلیتوں کو پاکستان کے آئین(سماجی معاہدے) کی ایک اور کڑی سے جوڑا گیا۔

ویسے تو ہولی پوری دینا میں موسم بہار کی آمد کی نوید کےطور پر منایا جاتا رہا ہے، برصغیر میں مذہبی عقیدت سے اور ترقی پسند لوگوں کے لیے یہ ایک ثقافتی تہوار ہے۔ اگر اس کو منطق کی عینک لگا کر بھی دیکھا جائے تو سچ میں ہولی اس خطے کا ثقافتی تہوار ہے۔

ہندو مت کی تاریخ سے مورخین نے یہ دلائل بھی دیئے ہیں کہ ہولی کی شروعات ملتان سے ہوئی، اس کے شواہد ملتان کے پرہلاد مندر سے ملتے ہیں جو کہ اس وقت خستہ حالی میں آخری سانسیں لے رہا ہے، سب سے بڑی ستم ظریفی یہ ہے کو وہ پرانا پرھلاد مندر اوقاف والوں نے کچھ نائیوں اور کیٹرنگ والوں کو لیز پر دے دیا ہے۔ جہاں یہ حال اپنی تاریخی ورثے کے ساتھ کیا جائے، اور ہر اس ورثے کو باہر کے حملہ آوروں کی ثقافت کا لبادا پہنا کر مسخ کر دیا جائے ۔ جہاں رام باغ کو آرام باغ، امر کوٹ کو عمرکوٹ، لائل پور کو فیصل آباد اور نیروں کوٹ کو حیدرآباد کیا جائے ، جہاں امن سے رہنے والے کو ڈرپوک، غلام اور کمینہ کہاجائے، اور ہر حملہ آور کو ہیرو بنا کر پیش کیا جائے ایسے میں بھلا لوگ کس طرح اپنے مذھبی اور ثقافتی تھوار منا سکتے ہیں!

برحال ہولی تو پوری دینا کے لیے رنگوں کا تہوار ہے،اب ہولی سندھ، ھند، برصغیر کی سرحدیں پار کر کے امریکا، یورپ سے ہوتی ہوئی آسٹریلیا کے گوروں تک پہنچ گئی ہے، مختلف کمپنیاں اسے اپنے ورکرز کے ساتھ ایک جشن کے طور پر مناتے ہیں! مگر پاکستان میں بسنے والے ہر ہندو کیلئے یہ عذاب سے کم نہیں رہی، جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے میں نے کوئی بھی ہولی خوشی کےطور نہیں منائی، ہر سال سندھ میں ہولی پر کہیں نہ کہیں توہین رسالت ص کے فتوے لگتے رہے ہیں، مندر توڑے گئے ہیں، یا تو لوگوں کو مارا گیا ہے، 2014 میں بھی میرے گاؤں کے کچھ بچوں پر توہین رسالت ص کا الزام لگایا گیا ۔۔۔۔۔۔!

مزے کی بات تو یہ ہے کہ ھم اتنے منافق ہیں کہ ہم کافروں کی دی ہوئی امداد اور بھیک تو مزے سے کھا لیتے ہیں مگر کسی کا تہوار منانے یا خوشیوں میں شریک ہونے سے ہمارے ایمان ڈگمگا جاتے ہیں! جہاں مذاہب امن کا درس دیتے ہیں وہیں انہیں مذاہب کو ماننے والے مذاہب کی بنیادی تعلیمات کی دھجیاں اڑاتے ہیں، محض اپنی ذاتی دشمنیاں پالنے کے لیے۔

اس وقت میں ایک اور وضاحت کرتا چلوں کہ ہندوازم کسی مذہب یا عقیدے کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک علاقائی پہچان ہے، باقی قدیم ھند میں رہنے والے لوگوں کو ھندو کہا جاتا رہا، جس طرح اب ریاستی لیول پر سندھی، پنجابی، بلوچ اور پختون کی پہچان ہیں، باقی ھندو کو اگر زیادہ باریکی سے دیکھا جائے تو یہ تہذیب کا نام ہے جس میں اسلام سے قبل، جین مت، بدھ مت، سناتھن دھرم، اور سکھ مت کے مذہبی عقائد کے لوگ تھے، جو تہذیبی، ثقافتی طور پر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔آج بھی برصغیر کے مختلف لوگوں میں مذہبی عقائد تو مختلف ہیں، مگر کافی ساری ثقافتی چیزیں ایک ہی ہیں۔

ہولی کو تاریخ میں مذہب کے ساتھ جوڑنا ایک الگ بات ہے مگر جب ہولی کی شروعات ہوئی تو اس وقت ہندوازم صرف مذہبی عقیدہ نہیں تھا بلکہ ایک پوری تہذیب کا حصہ تھا۔ میرا یہ کامل یقین ہے کہ ثقافت بہت بڑی اور پرانی ہے اور مذاہب ان ثفاقتوں کا ایک چھوٹا سا حصہ ہیں، آپ تمام مذاہب کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، مذہب کی تاریخ انسان کی تاریخ سے پرانی نہیں ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے جو بھی تہوار شخصیات کے علاوہ کسی رسم، اور موسم کی آمد کے لیے منائے جاتے ہیں وہ تہوار اور دن کبھی بھی کسی ایک مذہب کا نہیں ہوسکتا۔ اس لیے میری نظر میں ہولی ایک علاقائی اور ثقافتی تہوار ہے، رنگوں سے کھیلنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم خوشیوں کو خوش آمدید کہتے ہیں ۔ خوشی اور غم کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، ہاں مگر انسانوں سے ازلی رشتا ضرور ہوتا ہے۔

بہرحال ریاستی طور پر ہولی کی چھٹی کرنے کی منظوری دینا اچھی پیش رفت ہے، سندھ حکومت کا فیصلہ باعث فخر ہے جس نے ہولی کے موقع پر چھٹی کا اعلان کیا ۔

امید کرتا ہوں کہ اس سال ہولی ہماری زندگی کے رنگوں کو مزید رنگین بنائے ۔ اس ملک میں ہمیشہ ہولی خوشیوں کے رنگ لاتی رہے، ریاست بنا کسی امتیاز کے تمام شہریوں کو برابری کی بنیاد پر تحفظ فراہم کرے اور ثقافتی سرگرمیاں اور تیز کرے ، ثقافت کے رنگ ہی انتہا پسندی کو کم کر سکتے ہیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے