وہ شہردلِ بربادکہاں۔۔۔؟

23مارچ1940کواقبال پارک لاہورمیں قراردادِلاہورپیش کی گئی جوبعدمیں’’قراردادِپاکستان‘‘ کےنام سےمشہورہوئی۔اس قراردادمیں مسلمانوں نے مطالبہکیاکہ ہندوستان کےمسلم اکثریتی علاقوں کویکجاکرکےآزاد مملکتیں قائم کردی جائیں جن میں شامل یونٹوں کو خودمختاری اور حاکمیتِ اعلیٰ حاصل ہو۔قائدِاعظم رحمۃاللہ علیہ نےاس قراردادکوتحریکِ پاکستان کااہم سنگِ میل
قراردیا۔

قراردادکی منظوری کےبعدمسلمانوں نے عزم وہمت سےتحریک جاری رکھیاوراپنےقائدین کابھرپورساتھ دیا۔اپنا گھربار،عزت وعصمت سب کچھ داؤپرلگایااوراپنےلئےعلیحدہ وطن کے حصول کی پُرخلوص جدوجہدکی۔اپنی اولادکوذبح کرایا،ان کی عزت وعصمت کی قربانی دی،کئی ماؤں کی گودیں ویران ہوئیں اورکئی گھر اجڑے۔مسلمانوں نےہرنقصان کی پروا کئےبغیراپنی جدوجہدجاری رکھی اورہرمشکل گھاٹی عبورکی تاکہ آئندہ دنوں میں الگ شناخت کےساتھ مطمئن زندگی بسرکرسکیں۔

تحریکِ پاکستان کےراہنماؤں نےاسلام کوپاکستان کی اساس قراردیااور’’پاکستان کامطلب کیا؟لاالہ الااللہ‘‘کا نعرہ لگایا۔پاکستان کاایک تصوراتی خاکہ پیش کیاکہ اسلامی ریاست میں بسنےوالی عوام کوبنیادی سہولیات دی جائیں گی۔شخصی ومذہبی آزادی اورجان ومال کاتحفظ فراہم کیاجائےگا۔اقلیتوں کومکمل مذہبی آزادی اورتحفظ دیاجائےگا۔خواتین وحضرات کوبغیرصنفی امتیاز کےبنیادیحقوق فراہم کئےجائیں گے۔سندھی،بلوچی،پنجابی،بنگالی،مہاجراورپٹھان کی بجائےایک ہی قومی شناخت ہوگی۔اسلام کےنظامِ سلطنت کو ریاست میں نافذکرکےدنیاکےسامنےایک کامیاب نظام لایاجائےگا۔

مغرب کانظامِ معیشت انسانی استحصال کاباعث ہےاس کی جگہاسلامی نظام معیشت سامنےلایاجائےگاجو انسانیت کےلئےنہایت مفیدہوگا۔اسلام کےنظامِ سلطنت کےتحت ملک کانظام چلایاجائےگااوردنیامیں اسےایک بہترین نظام کےطور پرمتعارف کرایاجائےگا۔پاکستان ایک مستحکم وخودمختارریاست کےطور پرترقی کی منازل طےکرےگااوراسلامی دنیا میں قائدانہ کرداراداکرےگا۔مسلمان قوم اسلام کےنام پرمتحدہوئی اوربھرپورجدوجہدکےبعد7سال کےعرصہ میں پاکستان کےحصول میں کامیاب ہوئی۔

پاکستان بناتولوگ آنکھوں میں سنہرےسپنے سجائےتاریخ کی سب سےبڑی ہجرت کرکےاسلامی مملکت میں داخل ہوئے۔اپنی جائیداد،گھراورخاندان چھوڑکرلٹےہوئےاورکنگال ہوکرپاکستان میں آبسے۔وہ سمجھےتھےکہ یہاں ہردردکادرماں میسرہوگااوربغیرکسی خوف وخطرےکےپرسکون زندگی بسرکریں گے۔

مگرقیام کےبعد ہی پہلےپہل اسلامی مملکت کی وزارتِ قانون ایک ہندوکےسپردکردی گئی جبکہ قانون سازی اسلامی ہوناتھی۔اسلامی نظام کی بابت علماءنےسوال کیاتوانہیں یہ کہ کرخاموش کرادیاگیاکہ آپ ابھی آرام فرمائیں اگرآپ کی راہنمائی کی ضرورت ہوئی توآپ سےرجوع کیاجائےگا۔پھرسوال اٹھایاکہ کون سااسلام نافذکیاجائےکیوں کہ آپ نے کئی اسلام بنارکھےہیں ۔اس کےجواب میں علماءنے22نکات پیش کئےکہ انہیں سب مسالک نےمشترکہ طورپرمرتب کیاہےاسےہی آئین کاحصہ بنا دیاجائےمگروہ اب تک کاغذات تک ہی محدودہیں۔

سیدسلمان ندوی رحمۃاللہ علیہ تعلیمی نصاب مرتب کرنےوالی کمیٹی سےیہ کہ کر علیحدہ ہوئےکہ’’یہاں ہماری امنگوں کےمطابق کام نہیں
ہورہا۔ہندوستان میں فتنہ ارتدادکاخطرہ ہوسکتاہےمگرجونصاب پاکستان میں مرتب کیاجارہاہےمجھےخوف ہےکہ یہاں ملحداوردہریےپیداہوں گے۔‘‘سرظفراللہ خان کووزارتِ خارجہ کاقلم دان دیاگیاجس سےمذہبی راہنماؤں کومایوسی ہوئی۔افسوس ناک بات یہ ہےکہ ختمِ نبوت جیسےاہم مسئلہ کےلئےبھی اس اسلامی ملک میں ہزاروں جانیں قربان کرناپڑیں جبکہ صحابہ واہلبیت رضوان اللہ علیہم
اجمعین کی عزت وعصمت کا مسئلہ ابھی تک حل نہیں ہوپایا۔

شخصی آزادی کی صورتحال یہ ہےکہ ایسےہرشخص پرقدغن لگادی جاتی ہےجوحکومتکےغلط اقدامات پر تنقیدکرےیاحکومتی پالیسیوں سےجائزاختلاف کرے۔آزادیِ اظہارجمہوری وآمرانہ حکومتوں میں شجرِ ممنوعہ قرارپائی اورشعراء،ادبی ومذہبی شخصیات اس جرم میں قیدوبندکی صعوبتیں برداشت کرتی رہیں جبکہ کئی اہم شخصیات کو جلاوطنی کی زندگی بسرکرناپڑی۔عوام کےتحفظ میں اب تک ناکام
رہےہیں اورآج بھی ہم بےخوف وخطرآزادنہ گھوم پھر نہیں سکتےکہ کس لمحےلقمہ اجل بن جائیں۔اقلیتوں کےحقوق کانعرہ بھی محض نعرہ ہی رہا،جس کاجی چاہےاٹھ کربستیوں کی بستیاں جلا دےاورعبادت گاہوں کوبموں سےاڑادے۔ذاتی ومالی معاملات حل نہ ہو پائیں تواقلیتی شخص پرتوہینِ رسالت کاالزام لگاکرخودہی منصف بن کرسزا سناکےآگ لگادی جاتی ہے۔

اقلیت تواقلیت رہی یہاں اکثریت بھی خوار ہورہی ہےاوراپنےحقوق کےلئےدربدرٹھوکریں کھارہی ہے۔انصاف کی حالت یہ
کہ غداری کےمقدمہ میں نامزدملزم ایگزٹ کنٹرول لسٹ سےنام نکلوا کردبئی میں سیاسی سرگرمیوں کاآغازکرچکاہے۔غریب عوام عمرقیدکی سزاپانےکےبعدعدالت سےرجوع کرتی ہےاورسزاپوری کرکےعدالت سےبغیرفیصلہ کےکیس واپس لےلیتی ہےکہ ہم نےاپنی سزا جھیل لی ہے۔

اسلامی نظامِ معیشت سامنےلانےکاخواب بھی تعبیرنہ پاسکا،سپریم کورٹ یہ کہ کردرخواست نبٹادیتی ہےکہ’’ہم مدرسہ کھول کرنہیں بیٹھ سکتے،جس نےسودنہیں لیناوہ نہ لے‘‘۔پاکستان آج بھی ایک خودمختارریاست نہیں بن سکابلکہ آج بھی دوسروں کےاشاروں پرچل رہاہےیہاں تک کہ قیمتوں کےبھاؤبھی عالمی مالیتی بینک کے ’احکامات‘کی روشنی میں طےکئےجاتےہیں۔ایک فون کال پرملکی وقارکا
سوداکردیاجاتاہےجبکہ خارجہ پالیسی ملکی مفادنہیں بلکہ ذاتی تعلقات کی بنیادپربنائی جاتی ہے۔پاکستان کےعالم اسلام میں قائدانہ کردار اداکرنے دعوے بھی تکمیل تک نہ پہنچ سکےکیوں کہ پاکستان خودبھی ایک آئیڈیل ریاست
نہیں بن سکا۔

پاکستان میں ایک قوم بن کررہنےکی بات بھی بیانات تک محدودرہی،شروع میں ہی بنگالیوں سےاختلافات رہے جس کانتیجہ بنگلہ دیش کی
صورت میں سامنےآیا۔اب بھی بلوچ،پختون،سندھی،سرائیکی اورمہاجربن کرعوام اپنےاپنےحقوق مانگ رہی ہے۔خواتین کےتحفظ کےحوالےسےافسوسناک صورتحال ہےکہ پاکستان عورتوں کےلئےدنیاکاتیسراخطرناک ملک ہے اوراس حوالےسےکوئی قانون سازی ہوتی ہےتوپاکستان کی مذہبی شناخت خطرےمیں پڑجاتی ہے ۔

یہ سب صورتحال ایک المیہ سےکم نہیں کہ ستربرس ہونےکوہیں اور منزل حاصلکرناتوالگ رہاہم اس سمت بڑھ ہی نہیں رہےکہ جہاں ہم جاکر یہ کہ سکیں کہ ہماپنےمقصد میں کامیاب ہوگئےہیں۔وہ لاکھوں لوگ جو اس مشن میں اپنی جانیں قربان کرگئےان کاخون ہم پرقرض ہےاوریہ قرض ہم نےنہ اتاراتوروزِمحشرہم بطورمجرم اٹھائےجائیں گے۔

ضرورت اس امرکی ہےکہ ہم متحد ہوکراپنےمقصدکوحاصل کرنےکےلئےپرخلوص جدوجہدکریں۔جس طرح ہم نےتحریک پاکستان میں کامیابی حاصل کی اسی طرح تعمیرِپاکستان میں بھی کامیابی مل سکتی ہےمگراس کےلئےاک نئے عزم اورارادےکےساتھ جہدمسلسل کی ضرورت ہے۔ہمیں ان غلطیوں کو تسلیم کرکےانہیں سدھارناچاہئےجن کےسبب ہم منزل سےدورہورہے ہیں اورسترسال بعدبھی حبیب جالب کی زبان میں مقتدرحلقوں سےیہ سوال کرنےپرمجبورہیں کہ

ہرشام یہاں شامِ ویراں،آسیب زدہ رستےگلیاں
جس شہرکی دھن میں نکلےتھے،وہ شہردلِ بربادکہاں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے