تھری سٹوجز اور کرکٹ کا المیہ

کھیل میں ایک ٹیم کو جیتنا ہوتا ہے اور دوسری ٹیم کو ہارنا. پاکستان کی ٹیم نے برا کھیلا آور بھارت کے بعد اب نیوزی لینڈ سے بھی شکست کھا کر تقریبا ورلڈکپ سے باہر ہو بیٹھی. اس وقت قومی کرکٹ ٹیم کی غیر معیاری پرفارمنس پر عوام اور سابق کھلاڑی شدید برہم ہیں.تجزیہ نگار بھی طنزو تنقید کے نشتر برسا رہے ہیں.شاہد آفریدی کیونکہ ٹی ٹونٹی ٹیم کے کپتان ہیں اس لیئے سب کی تنقید کا ہدف ہیں. لیکن سوال یہ بنتا ہے کہ دنیا کی کونسی ٹیم یا کپتان جان بوجھ کر اتنا بڑا ایونٹ ہار سکتے ہیں.

ہمارے ہاں کرکٹ کے شائقین ہوں یا تجزیہ نگار سب آج بھی دو دہائیوں قبل کھیلے جانے والی کرکٹ کو مانتے اور جانتے ہوئے یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم محض ٹیلنٹ کے بل پر ہر بڑی ٹیم کو ہرا کر ٹورنامنٹس جیت سکتی ہے.

چند برس قبل جب انگلستان میں پاکستان ٹی ٹونٹی کا ورلڈکپ جیتا تھا تو اس وقت یہ فارمیٹ نیا تھا.عالمی کرکٹ کی بڑی ٹیمیں اسے سنجیدگی سے نہیں لیتی تھیِں.پھر دھیرے دھیرے دیگر کھیلوں کی طرح اس ٹی ٹونٹی فارمیٹ کو بھی سنجیدگی سے لے کر اس پر دیگر ٹیموں نے سائنٹیفکلی طریقے اور ریسرچ سے کام لیا اور اب ٹی ٹونٹی کرکٹ بھی ایک سنجیدہ اور پروفیشنل کرکٹ کا فارمیٹ ہے.

پاکستان کرکٹ کے ساتھ المیہ یہ ہے کہ نہ تو ہمارے ہاں کھلاڑیوں کی جسمانی و ذہنی فٹنس پر کوئی خاص کام کیا جاتا یے اور نہ ہی کرکٹ کو جدید خطوط پر استوارا جاتا ہے . ہمارے ہاں کھلاڑیوں کی گرومنگ کا بھی کوئی تصور نہیں ہے.جس کے نتیجے میں قومی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کا رویہ بالکل گلی مِحلے کی ٹیم کے کھلاڑیوں جیسا ہوتا ہے.کبھی ایک دوسرے سے ناراض ہو کر جان بوجھ کر پرفارمنس ہی نہیں دیتے اور کبھی کپتان بننے کے شوق میں ٹیم میں ہی دھڑے بندی کر لیتے ہیں.ٹیم مینیجمنٹ اور کوچ بھی بجائے اختلافات کو سلجھانے کے کھلاڑیوں کی دھڑا بندی کو مزید مستحکم کرتے ہیں.

نیوزی لینڈ کے خلاف میچ سے قبل ہی ٹیم میں شعیب ملک احمد عمر اکمل احمد شہزاد محمد حفیظ کی شاہد آفریدی سے اختلافات کی خبریں گردش کر رہی تھی. اور میچ کے دوران کھلاڑیوں کی باڈی لیگونج سے صاف اندازہ ہو رہا تھا کہ ٹیم یکجا نہیں ہے. جس طرح احمد شہزاد ، عمر اکمل اور شعیب ملک نے سست روی سے بیٹنگ کر کے جیتا ہوا میچ نیوزی لینڈ کو پلیٹ میں رکھ کر پیش کر دیا اس سے ہر چند اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ورلڈ کپ میں جیت پر فوکس کے بجائے کھلاڑیوں کا دھیان ٹیم میں اپنی جگہ پکی کرنا اور کپتانی کا حصول ہے.

ذہنی نشونما کیلئے پاکستان کرکٹ بورڈ نے آج تک کوئی اقدامات نہیں اٹھائے. غیر ملکی ماہرین نفسیات کو اگر مستقل بنیادوں پر کرکٹ اکیڈمی اور قومی ٹیم کے ساتھ لگایا جائے تو کم سے کم یہ آپس کی لڑائیاں اور دھڑے بندیاں ختم کی جا سکتی ہیں. اسی طرح کرکٹ بورڈ کو اب اس امر کے ادراک کی بھی ضرورت ہے کہ قومی سطح پر کوچ کا کام کھلاڑیوں کو بیٹنگ یا باولنگ سکھانانہیں ہوتا بلکہ انہیں ایک یونٹ میں ڈھال کر جیت کیلئے لڑوانا ہوتا ہے.اور اس کام کیلیے ایک اچھا کھلاڑی نہیں بلکہ ایک اچھا مینیجر چاہیئے ہوتا ہے جو ٹیم سے پرفارمنس لے سکے. جسے پرفارمنس منیجر کہا جاتا ہے.

ہماری ڈومیسٹک کرکٹ کا معیار کس قدر پست ہے اس کا اندازہ ہمارے نئے بیٹسمینوں کو دیکھ کر ہو جاتا ہے.پاکستان کرکٹ بورڈ کو اب سنجیدگی سے ڈومیسٹک کرکٹ کے معیار کو بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے تا کہ آنے والے نوجوانوِں کو بین الاقوامی سطح پر کھیلنے میں دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے.

ہم نے دنیائے کرکٹ میں بڑے بڑے بلے باز پیدا کیئے ہیں جاوید میانداد، ظہیر عباس، سلیم ملک، انضمام الحق، محمد یوسف یہ سب مایہ ناز بلے باز کلب کرکٹ سے ڈومیسٹک اور پھر قومی ٹیم میں آئے. ہم نے عرصہ دراز سے کلب کرکٹ پر توجہ ہی دینا چھوڑ دی ہے. کلب کرکٹ کرکٹر پیدا کرنے کی نرسریاں ہوتی ہیں . جب یہ نرسریاں ہی بند ہو جائیں تو پھر عمر اکمل جیسے درمیانے معیار کے بلے باز ہی پیدا کیے جا سکتے ہیں نا کہ انضمام یا یوسف جیسے.

کلب کرکٹ کو دوبارہ سے متحرک کرنا کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے لیکن اس کے لیئے کرکٹ بورڈ سے دہائیوں سے چپکے ہوئے بابوں کو فارغ کرنے کی ضرورت ہے. ہارون رشید ، ذاکر خان ، انتخاب عالم ، شکیل شیخ اور ان جیسے مزید بابے برسوں سے سوائے کرکٹ کے ڈھانچے کو تباہ کرنے کے کوئی بھی کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے ہیں.ان بابوں سے جان چھڑوا کر اگر نوجوان اور جدید کرکٹ کو سمجھنے والوں کو موقع دیا جائے تو ہم ایک اچھے کل کی طرف گامزن ہو سکتے ہیں.

کرکٹ میں معجزوں سے یا اتفاق سے ایک دو ٹورنامنٹ تو جیتے جا سکتے ہیں لیکن مستقل بنیادوں پر ٹورنامنٹس تو دور کی بات میچز بھی جیتنا ناممکن ہے. اس سوچ کو سامنے رکھ کر اب بابوں اور پرانے کھلاڑیوں سے جو کوچ یا بورڈ میں عہدے لیکر کرکٹ کا ستیاناس کر رہے ہیں ان سے جان چھڑوانے کی ضرورت ہے. وقار یونس کو قومی ٹیم کا کوچ کیوں بنایا گیا ہے فہم سے بالاتر ہے.ان کے دور کی کرکٹ اور آج کے دور کی کرکٹ میں زمین آسمان کا فرق ہے.

اگر کوچ کسی سابقہ کھلاڑی کو ہی لگانا ہے تو انضمام الحق اس کیلئے موزوں ترین شخص ہیں.کیونکہ وہ جدید کرکٹ کھیلے بھی ہیں اور دباو کو برداشت کرتے ہوئے مخالف ٹیم کو پچھاڑنے کیلئے عالمی شہرت یافتہ ہیں.عالمی کرکٹ میں جو ٹیم دباو کو برداشت کرنا سیکھ لے اس کو ہرانا ناممکن ہو جاتا ہے. انضمام کو کوچ بنا کر ایک پرفارمنس مینیجر ہم کسی بھی باہر کے ملک سے لے لیں تو یہ ایک اچھا کمبی نیشن ہو سکتا ہے اور اگلے تین چار سال میں ہم ایک اچھی ٹیم بھی تیار کر سکتے ہیِں اسی طرح ہمیں ماہرین کرکٹ ہر مشتمل ایک تھنک ٹینک کی ضرورت ہے جو اس بات پر تحقیق کر کے ٹھوس نتیجہ نکالے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہم گزشتہ ایک دھائی میں عالمی معیار کا ایک بھی بلے باز یا آل راؤنڈر نہیں تیار کرنے پائے.

جب تک ہم کرکٹ کے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی نہیں لائیں گے تب تک اسی طرح شکستوں سے دوچار ہوتے رہیں گے.جہاں تک بات آج کے میچ کی ہے تو اس شکست کی ذمہ داری کوچ اور کرکٹ انتظامیہ سمیت عمر اکمل ، احمد شہزاد ، شعیب ملک پر جاتی ہے. شعیب ملک کی عمر اب ویسے بھی آرام کرنے کی ہے نا کہ کرکٹ کھیلنے کی. عمر اکمل کو جتنے مواقع دئیے گئے وہ یہ جاننے کیلئے کافی ہیں کہ عمر اکمل کو کرکٹ کے سوا باقی سب کچھ آتا ہے. احمد شہزاد کو بھی اب کرکٹ بورڈ میں اگر بطور فوٹوگرافر تعینات کر دیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں.

اگر نیوزی لینڈ کے میچ کا پوسٹ مارٹم کیا جائے تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ پاکستان نے کمال مہارت سے جیت کو شکست میں تبدیل کیا. اور یہ ایک میچ ہماری گذشتہ کئی سالوں سے کرکٹ کھیلنے کی نفسیات اور طریقے کو باآسانی واضح کرتا ہے. اب کرکٹ بورڈ کو تبدیل کر کے ایک نوجوان بورڈ اور کرکٹ ٹیم بنانے کی اشد ضرورت ہے. تا کہ دنیائے کرکٹ میں ہم اپنا کھویا ہوا مقام واپس حاصل کر سکیں.اور یہ تھری سٹوجز شعیب ملک احمد شہزاد اور عمر اکمل کے ٹولے کو کسی انکوائری کمیٹی میں بلوا کر پوچھنا چائیے کہ محالی میں نیوزی لینڈ کے خلاف میچ کو وہ ٹیسٹ میچ سمجھ کر کھیل رہے تھے یا ٹیسٹ میچ کیلئے پریکٹس کر رہے تھے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے