یوم پاکستان مبارک لیکن….

یوم پاکستان ہمیشہ کی طرح جوش و خروش سے منایا گیا. یہ دن وطن عزیز میں قرارداد لاہور کی یاد میں منایا جاتا ہے.23 مارچ 1940 کو مینار پاکستان کے سائے تلے یہ قرارداد جسے قرارداد پاکستان بھی کہا جاتا ہے پیش کی گئی. اور صدیوں سے ہندووں کے ساتھ بسنے والے مسلمانوں نے طے کیا کہ ہم دو الگ قومیِں ہیں جو ایک ساتھ نہیں رہ سکتے. یہ دن دو قومی نظریے کی یاد میں منایا جانا تو سمجھ میِں آتا ہے لیکن اس دن پر فوجی پریڈ اور ٹینکوں کی نمائش یا لڑاکا طیاروں کے کرتب دکھانا کیوں ضروری ہیں اس کی سمجھ آج تک نہیں آئی. کیونکہ قرارداد لاہور میں نہ تو کسی فوجی نے اس کا متن بنایا رھا اور نہ ہی آزادی کی لڑائی میں کوئی ٹینک یا فضائی لڑاکا طیارہ استعمال ہوا تھا. جڑواں شہروں کو سیل کر کے اور معمولات زندگی متاثر کر کے ایسی تقریبات کا انعقاد مذاق سے کم نہیں لگتا. موبائل فون جام سڑکیں جام اور وجہ ہماری یوم پاکستان کی فوجی پریڈ. ویسے اگر عام آدمی کو مرعوب کرنے کیلئے یہ تقریبات منعقد کی جاتی ہیں تو درست وگرنہ عالمی دنیا میں اب یہ جگ ہنسائی کا ہی باعث بنتی ییں.

سیکیورٹی مہیا کرنے والے ادارے جب خود سیکیورٹی طلب کرتے ہوئے پریڈ کریں تو ظاہر ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آزادی کس قدر اور کس کی مرہون منت ہے. رہی بات دو قومی نظریے کی تو مورخ نے تقسیم ہند کے موقع پر بھی لکھا کہ اس وقت بسنے والے مسلمان زیادہ تر ہندوستان میں ہی مقیم رہے .آج بھی ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کی آبادی پاکستان کی کل آبادی سے زیادہ ہے . سقوط ڈھاکہ اور بنگلہ دیش کے قیام پر بھی تاریخ کا یہی کہنا ہے کہ قومیں مذہب یا کاغذ کے ٹکڑوں پر بنی دستاویزات کے تحت نہ تو یکجا رہ سکتی ہیں اور نہ جدا کی جا سکتی ہیں. تاریخ سے سبق سیکھنے کے بجائے ہم تاریخ کو مسخ کر کے اپنی مرضی کی تاریخ بچوں کو ازبر تو کروا لیتے ہیں لیکن اس سے تاریخ کو یا حقیقت کو رد نہیں کیا جا سکتا.

دو قومی نظریہ کا کیا ہوا اس کا جواب بہت سادہ ہے لیکن چلئے دل خوش فہم کو تسلی کیلئے اگر سمجھا بجھا کر قائل کر بھی لیا جائے کہ یہ درست تھا تو پھر آج بھی لتا منگیشکر کی آواز کانوں میں زہر گھولنے کے بجائے رس کیوں گھولتی ہے.

آج بھی بھارتی اداکار فلمیں اور ڈرامے ہی ہماری سب سے بڑی انٹرٹینمنٹ کیوں ہے.

اسی طرح بھارت میں غلام علی راحت فتح علی اور عاطف اسلم کیونکر آواز اور فن کا جادو چلاتے ہیں؟

کیا وجہ ہے کہ شادی کے تہوار سے لیکر بیساکھی کے تہوار تک پاک و ہند میں بسنے والوں کی قریب قریب ساری رسمیں ایک جیسی ہیں. ہمارے فیورٹ اداکار لکھاری گلوکار یا تحقیی و تخلیقی آئیڈیل عرب دنیا یا مسلمان دنیا سے کیوں نہیں؟

خیر نفرتوں کے سوداگر چونکہ دونوں ممالک میں عوام کی برین واشنگ کر کے اپنی اپنی دوکانیں چمکاتے ہیں اس لیئے یہ بحث لاحاصل ہے.لیکن قرارداد لاہور یا قرارداد پاکستان میں محض دو مختلف قوموں کا تو ذکر نہیں ہوا تھا.اس قرارداد میں کہا گیا تھا کہ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے ایک ایسے ملک کا قیام ناگزیر ہے جہاں مسلمان اپنے تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے آزادی سے اپنے عقائد اور نظریات کے مطابق زندگی بسر کر سکیں.

وطن بھی بنا اور آج قریب 68 برسوں میں ہمیں اپنے تشخص کا پتہ ہی نہیں چل سکا. ہم عربی مسلمان ہیں یا برصغیر کی ہزاروں سالہ پرانی تہزیب کے مالک مسلمان اسی کشمکش میں آج تلک ہم اپنا تشخص ڈھونڈے ہی جا رہے ہیں . قیام پاکستان سے لیکر آج تک ہم اس تشخص پر ہی متفق نہیں ہونے پائے. ایک اور اہم بات جو قرارداد پاکستان میں تھی وہ آزادی سے اپنے عقائد اور عبادات کے فرائض کی بجا آوری تھا.

آج جب مسجد میں مسلمان نماز پڑھنے جاتے ہیں تو باہر مسلح پولیس والوں کو نمازیوں کی حفاظت پر معمور کیا جاتا ہے. یہ دیکھ کر قرارداد پاکستان پیش کرنے والے بھی عالم ارواح میں کانپ اٹھتے ہوں گے.

شیعہ سنی احمدی قادیانی اور نہ جانے کتنے ہی اور فرقوں اور مسلکوں کے نام پر ادوسرے انسانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹتے پاکستانی کیا اس قرارداد پاکستان کی روح کی نفی نہیں ہیں؟

لاپتہ افراد کیا یوم پاکستان کی تقریبات میں چھاتی پھیلاتے ارباب اختیار اور نظریہ پاکستان کے نام پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان نہیں ہیں؟

آج تک اپنی منزل اور راہ کا تعین نہ کرنے پانا اور قومی بیانیے کو تشکیل نہ دے پانا نظریہ پاکستان پر سوالات نہیں اٹھاتا؟

تھر میں بھوک سے بلکتے ایڑیاں رگڑتے مرتے ہوئے بچے کیا پاکستانی نہیں ہیں؟

کڑوڑہا تعلیم کی نعمت سے محروم بچے دو قومی نظریے اور نظریہ پاکستان پر ایک گہرا طنز نہیں ہیں؟

پاکستان بنانے والے اور نظریہ پاکستان کی اساس ڈالنے والے کٹر مذہبی تھے یا سیکیولر آج تک ہم یہ بھی جان نہیں پائے اور اسی بحث میں دھائیاں ضائع کر چکے ہیں تو کیا یہ اس امر کی نشاندہی نہیں ہے کہ یا تو نظریہ پاکستان ہم سمجھ ہی نہ پائے یا پھر سچائی بے حد تلخ اور کڑوی ہے.

اتنی تلخ کہ ہم اسے فراموش کرنے کی خاطر ایک مہ نوش کی طرح ہتھیاروں کی نمائش کو غم اور سچائی فراموش چھپانے کیلئے استعمال کرتے ہیں. اس دن بھی ہم پریڈ کر کے اپنے آپ کو بیوقوف بناتے ہیں کہ دیکھا ہم کتنے طاقتور ہیں. حالانکہ طاقتور یا بہادر اقوام اپنے نظریات کو لٹمس ٹیسٹ سے بار بار گزارتے ہیں کہ انہیں سچ اور حقیقت سے غرض ہوتی ہے نا کہ مصنوعی تقریبات اور جھوٹ پر قائم تاریخ سے.

یوم پاکستان پر تقریبات منعقد کر کے خطیر رقم ضائع کرنے کے بجائے تعمیری مباحث اور ڈائیلاگ کی ضرورت ہے جو ہمارے نظریے پر اٹھتے سوالات اور حقائق کو پرکھے اور پھر سے ایک نظریہ پاکستان کی تشکیل دے سکے.ایک ایسا نظریہ جہاں جنگی جنون کے خبط میں مبتلا ہو کر کڑوڑہا افراد کو غربت کی آگ میں نہ جھونکا جائے. جہاں صیح معنوں میں آزادی سے مسلمان اور اقلیتیں اپنے اپنے عقائد کے مطابق زندگی بسر کر سکیں.جہاں یوم پاکستان کی تقریبات منعقد کرنے کیلیئے شہر کے شہر سیکیورٹی خدشات کے باعث بند نہ کرنے پڑیں. جہاں مساجد گرجا گھروں کے باہر پولیس اور رینجرز عبادت گزاروں کے تحفظ پر معمور نہ ہوں. اور جہاں پاکستان یا اس خطے میں پیدا ہونے والے بڑے آدمیوں کو رنگ مزہب اور تعصب کے بغیر نئی نسلوں سے روشناس کروایا جائے.

آج 23 مارچ برصضیر کی آزادی کی جنگ لڑنے والے سوشلسٹ رہنما بھگت سنگھ کی برسی کا دن بھی ہے.بھگت سنگھ جڑانوالہ پنجاب کا رہائشی تھا اور انگریز راج کو ناکوں چنے چپوا گیا.بھگت سنگھ کی جنگ طبقات سے تھی نہ کہ مذہب یا فرقوں سے. اگر بھگت سنگھ اور اس جیسے اور ہیروز کا بھی ذکر اس دن کر دیا جائے اور نئی نسلوں کو اس سے روشناس کروایا جائے تو کیا اس سے نظریہ پاکستان کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے.؟مجھے یقین ہے کہ نظریات اتنے کمزور نہیں ہوتے کہ جو کسی غیر مسلم کی خدمات کو تسلیم کرنے سے مٹی کے برتنوں کی طرح ٹوٹ جائیں. ویسے یوم پاکستان کی خوشیاں آپ سب کو مبارک لیکن کچھ لمحات کیلئے اپنی اپنی تعصب کی پٹی اتار کر نظریہ پاکستان کی اصل روح اور متن کو جاننے کی کوشش ضرور کیجئے گا.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے