گلوبل وارمنگ کی دہشت گردی

()

گزشتہ دنوں خیبر پختونخوا اور آزاد کشمیر سمیت ملک کے بالائی علاقوں میں شدید بارشوں نے حسب سابق تباہی مچادی، چھتیں اور تودے گرنے اور لینڈ سلائنڈنگ کے مختلف واقعات میں صرف 3 دن میں 50 افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوگئے۔

یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ اس جدید دور میں بھی ہمارے ہاں ہنگامی حالات، سماوی آفات اور ناگہانی حادثات سے نمٹنے کے لیے کوئی موثر اور خود کار نظام موجود نہیں ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے پاکستان جس خطے میں واقع ہے، یہ خطہ گرمی سردی میں بنیادی طور پر توازن رکھنے کے ساتھ ساتھ بارشوں کے لحاظ کے معاملے میں قدرے طبعی بے اعتدالی سے دوچار رہتا ہے۔ موسم کی بنیادی طبعی صورتحال میں جوہری تغیرات عموما جلدی نہیں آتے، برسوں اور کبھی برسہا برس گزرنے پر بھی طبعی جغرافیہ میں معمولی تغیر واقع ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو پاکستان کی طبعی موسمیاتی پوزیشن میں اب تک کوئی جوہری فرق نہیں آیا ہے۔ اس لیے موسم کے اعتبار سے پیشگی حفاظتی انتظامات میں کوئی مشکل نہ ہوسکتی ہے اور نہ ہی ہونی چاہیے۔ اس میں شک نہیں کہ قدرتی آفات اور سماوی بلیات سے نمٹنا اور ان کا سدباب کرنا انسانی طاقت سے ماورا ہے۔ یہ انسان کے بس میں نہیں کہ قدرتی آفات کو وہ کسی بھی تدبیر کے ذریعے آنے سے روک سکے، تاہم سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کی بدولت حادثات و آفات کے دوران نقصانات سے بچنے اور ان کی شرح کم سے کم کرنے کا نظام اور انتظام دنیا میں ہرجگہ رائج ہے اور جہاں جہاں کوئی طریقہ کار رائج ہے وہاں حادثے سانحوں میں تبدیل ہوکر المیوں کا عنوان نہیں بنتے۔

یہی نہیں، دنیا کے بہت سے سائنسی معاشروں میں قدرتی آفات کو انسانیت کے مادی مفاد میں نت نئے سائنسی تجربات کا ذریعہ بھی بنایا جاتا ہے، چنانچہ کرہ ارض پر کسی بھی طرح کا مثبت یا منفی نقش مرتب کرنے والا حادثہ خواہ وہ خشکی کا زلزلہ ہو یا سمندری زلزلہ یا کوئی اور آفت آپڑے، ان معاشروں میں امدادی کارروائیوں کے ساتھ ساتھ طبیعی، طبعی اور سماجی سمیت سائنس کی ہر شاخ سے وابستہ ادارے بھی متحرک ہوجاتے ہیں اور اپنے اپنے دائرے میں انسانیت کی خدمت انجام دینے کی سعی اور تدبیر کرتے ہیں۔

کرہ ارض کو اس وقت موسمیاتی تغیرات (Climatic Changes) کی زبردست یلغار کا سامنا ہے، دنیا کا کوئی خطہ ایسا نہیں جہاں زمین کی طبعی صورتحال کو تغیرات کا چیلنج در پیش نہ ہو۔ ماہرین سائنس بتاتے ہےں کہ تغیرات کا یہ طوفان عالمی حدت (Global Warming) کا شاخسانہ ہے، یعنی موسم اور ماحول میں یہ غیر طبعی تبدیلی دراصل اس مصنوعی اور غیر فطری حرارت کا نتیجہ ہے، جو دنیا میں صنعتی انقلاب کے بعد سے کرہ ارض کے فطری ماحول میں بڑھ چڑھ رہی ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق جوں جوں دنیا صنعتی ترقی کی نئی نئی منزلیں طے کر رہی ہے، صنعتوں کی چمنیوں سے نکلتے زہریلے دھویں اور صنعتی فضلہ جات سے پیدا ہونے والی گیسیں ( Greenhouse Gases) فضا کے چھلنی نما لطیف اور مہین غلاف (Ozone)کو تار تار کرکے ماحول کی حرارت میں مزید اضافہ کرتی جارہی ہیں، جس کی وجہ سے ماحول کا قدرتی توازن بری طرح متاثر ہورہا ہے اور اس کے نتیجے میں گرمی کے موسم میں گرمی حد سے بڑھ جاتی ہے اور سردی میں سردی ناقابل برداشت بنتی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ جنگلات جو کرہ ارض کا حسی توازن برقرار رکھنے کا اہم سبب ہیں، وہ انسان کے اپنے ہاتھوں کے اعمال کی بدولت بے دریغ کٹائی کی زد میں آکر بارشوں کے دوران تباہ کن سیلابوں اور دریاؤں کے کٹاؤ کا باعث بن رہے ہیں۔ موسم اور ماحول کے قدرتی توازن میں ہمارے ہاتھوں سے پڑنے والے اس شگاف کے نتیجے میں آج خود ہمارے وجود کو سنگین خطرات لاحق ہوچکے ہیں۔

اس میں شک نہیں کہ ماحولیاتی تغیر کا سبب بننے والی اس غیر فطری چھیڑ چھاڑ کے سب سے بڑے اور بنیادی ذمے دار ترقی یافتہ صنعتی ممالک ہیں، انہیں کے ”کار ہائے نمایاں“ کے باعث آج پورے کرہ خاک کو گلوبل وارمنگ کی دہشت گردی کا سنگین خطرہ لاحق ہے، مگر وہ خود احتیاطی سائنسی تدابیر اختیار کرکے گلوبل وارمنگ کے برے اثرات سے بڑی حد تک محفوظ ہیں، جبکہ تیسری دنیا کے صارف ممالک اپنی بے علمی اور بے تدبیری کے سبب نقصانات اٹھا رہے ہیں، جبکہ گلوبل وارمنگ کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں مستقبل میں ان کے در پر خوفناک تباہی کی دستک مستزاد ہے۔

گزشتہ سال گرمی کی شدت (Heat Stroke) نے ملک بھر میں جو تباہی مچائی، اسے کون بھول سکتا ہے؟ اب ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمیاتی توازن میں خطرناک بگاڑ کے نتیجے میں آئندہ ہمارے خطے میں موسموں کا حال مستقل طور پر روز افزوں شدت کے زیر اثر رہے گا۔ یعنی خاکم بدہن اس بار اور آئندہ ہمیشہ کے لئے پہلے سے زیادہ شدید ہیٹ اسٹروکس کا دور دورہ ہوگا۔ موسمیاتی سائنس سے متعلق بعض ماہرین تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں آنے والے ماحولیاتی تغیرات آئندہ دنیا اور بالخصوص ہمارے اس خطے کے لئے "دہشت گردی” سے زیادہ خطرناک ثابت ہوں گے۔

ملک میں قدرتی آفات کے نقصانات سے نمٹنے کے لیے این ڈی ایم اے کے نام سے ادارہ موجود ہے، تاہم اس کی بدترین کارکردگی کا پول موسمی بارشوں کی پہلی بوند زمین پر گرتے ہی کھل جاتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ادارے کی سائنسی بنیادوں پر تنظیم نو کرکے اسے قوم کی بقا کے لیے ناگزیر خدمات کے جذبے سے ہم آہنگ کردیا جائے اور اسے اسی انداز میں پروان چڑھایا جائے، جس طرح بھارت جیسے دشمن سے وجودِ ملی کو لاحق خطرے کے پیش نظر نہایت جانفشانی سے ایٹمی پروگرام کو پروان چڑھایا گیا۔ اس کے بغیر اس ادارے کو صحیح خطوط پر ڈالا جاسکتا ہے، نہ ہی حادثات کو سانحات میں تبدیل ہونے سے روکا جاسکتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے