خدا اور خود کلامی

خدا کیا ہے؟
کیا خدا اس ہستی کا نام ہے جس نے ہم کو، ہمارے پرکھوں کو نہ سے ہے میں بدل دیا.؟
کیا خدا اس تصور کا نام ہے جو خوف کا دافعہ کرتا ہے؟
کیا زمین، آسمان، کہکشاؤں اور معلوم اور نامعلوم اشیاء اور وہ کچھ جن پر شاید شے کا اطلاق نہ ہوسکے ان کے کری ایٹر / تخلیق کار کا نام خدا ہے؟
خدا خالی پیٹ کو بھرنے والی قوت کا نام ہے کیا؟
یا پھر بھرے ہوئے پیٹ میں غذا کو جسم کی مطلوبہ توانائی میں ڈھالنے والی قوت کا نام خدا ہے؟

شاید ہاں……
یقینا نہیں………

یہ خدا کا معلوم تصور ہے.
جب کہ علم جانی ہوئی چیزوں کے ذریعے ان جانی چیزوں کی دریافت کا نام ہے.
تو خدا کو کیسے مشہودات، مدرکات، محسوسات سے جانا جاسکتا ہے.؟

خدا ان دیکھا، ان چھوا، ان سوچا ہے

میں آدم کا بیٹا ہوں. اور خدا کی دی ہوئی معلومات کے نتیجے میں، میں بجا طور پر یہ سمجھ رہا ہوں کہ میں خدا کے بہت قریب ہوں. یا شاید خدا مجھ سے بہت قریب ہے.

کتنا قریب؟

یہ قربت اگر میری نسبت سے ہے تو محال ہے کہ میں جان سکوں کہ کس قدر قربت ہے…کہ پانیوں میں پانی ہوتی مچھلی بیکراں پھیلے سمندروں کے قریب نہیں کہی جاسکتی. قربت کے بیان کیلئے ایک حجمی تناسب درکار ہے. میں زمین کا ایک فرد ہوں لیکن میں خود کو زمین کے قریب کہلواتا بھلا نہیں لگنے والا…..

اگر تو خدا میرے قریب ہے تو کتنا؟
اس کو مثالوں سے سمجھایا تو جاسکتا ہے لیکن سمجھا نہیں جاسکتا. خدا کہہ رہا ہے میں شہہ رگ سے زیادہ قریب ہوں. میں تمہیں جنم دینے والی سے زیادہ چاہتا ہوں.
اور یہ "زیادہ” کتنا زیادہ ہے.؟
یہ خدا نے مجھے نہیں بتایا…
اور میرے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ میں جان سکوں….
ہاں میں شاید یہ دعوی کرنے میں حق بہ جانب ہوں کہ مجھے اس خدا سے عشق ہو نہ ہو.. اس کو مجھ سے ضرور عشق ہے. وہ جبر کا خالق کیسا جابر ہوسکتا ہے لیکن وہ نہیں ہے. وہ قہر کے تمام رنگوں میں میرے تخیل سے کہیں بڑھ کر رنگ بھرسکنے والا ہے لیکن وہ نہیں بھرتا..
میں اس کا کوئی بھی حکم تو ڈھنگ سے نہیں مانتا. لیکن وہ پھر بھی میرے ناز اٹھاتا ہے. میرے نخرے برداشت کرتا ہے. میری ضد پوری کرتا ہے. پوری خدائی کو میری خدمت پر لگارکھا ہے.
وہ مجھے میرا بندہ کہتا ہے.
وہ کہتا ہے "اے میرے بندے تجھے کس چیز نے مجھ سے برگشتہ کردیا”؟
تو وہ قریب ہے.
وہ مجھے میرے حواسوں سمیت محیط ہے
میں اس سے اقرار کا رشتہ رکھوں یا انکار کا…
میں اس کو مانوں یا نہ مانوں… یہ قطعا اس کے ہونے کیلئے اہم نہیں ہے.

ہم سہل پرست ہیں اور یہ بات بخوبی جانتے بھی ہیں…. کہ ماننا نہ ماننے کی نسبت بہت آسان ہے… تو ہم نے اس کو ماننے میں سہولت دیکھی.

ہم سب ایک ڈھلوان سطح پر مسلسل لڑھک رہے ہیں… ایک ہی نقطے پر ہم سبھوں نے ملنا ہے… بس کوئی چکنی سطح پر بلا کسی خراش کے لڑھک رہا ہے تو کوئی پتھریلی سطح پر جابجا چھلتا ہوا……
ہم نے اقرار کی چکنی سطح پسند کی ہے….
اور جو نہیں مانتے انہوں نے انکار کی خاردار راہوں کو چن لیا.
وہ ہر رات نہیں تو مہینے میں، مہینے میں نہ سہی سال بھر میں ایک بار ایسے پتھریلی سطح پر لڑھکتے ہوں گے کہ روح تک خار خار، تار تار ہوجاتی ہوگی..
یہ اذیت کہ کوئی ہے جسے میں نہیں مانتا… کوئی ایسا جس نے مجھے پیدا کیا اور پھر میرے لئے کل خدائی کو پیدا کرکے خدمت پر لگادیا.. اور وہ مجھے ایک دن اپنے پاس بلائے گا…. اور میں اسے نہیں مانتا.
یہ احساس مارڈالنے والا احساس ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے