غلام ہم ہیں

ہمارے محلے میں آنٹی خورشید کے گھر کام کرنے والی خاتون نذیراں آتی ہے جس کی آمد کی اطلاع پورے محلے والوں کو ہو جاتی ہے اسکی وجہ یہ نہیں کہ نذیراں ہڈ حرام ہے یا اپنی مالکن سے بد ظن ہے ایسا ہر گز نہیں ہے بلکہ وجہ محض یہ ہے کہ آنٹی اس سے کام کروانے کے ساتھ ساتھ اسکی عزت نفس کو بھی مجروع کرتی رہتی ہیں حالانکہ دیکھا جائے تو ایک غریب کے پاس سوائے عزت نفس کے ہوتا ہی کیا ہے ؟

مجھے نذیراں کی غربت پر بہت ترس آتا ہے جس کی وجہ سے اس یہ سب کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے ۔ کل بھی نذیراں کی حالت دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ اسکی حالت تو بالکل غلاموں جیسی ہے بالکل ویسی جیسا کہ یونان کے غلاموں کی تھی ہاں صرف فرق یہ ہے کہ اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور پائوں میں بیڑیاں نہیں ہیں ۔

مانیں یا نہ مانیں ہمارے معاشرے میں غلامی اب تک کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے ۔ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں اس وقت تین کروڑ سے زیادہ افراد اب تک غلام ہیں ان میں مردوں کے علاوہ عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں ۔ جبکہ ستر لاکھ سے زیادہ مردوں اور خواتین کی ہر سال سمگلنگ کی جاتی ہے ، اقوام متحدہ کے ادارے یہ ضرور بتاتے ہیں کہ سالانہ بیس لاکھ بچے دنیا بھر میں فروخت ہوتے ہیں لیکن دوسری طرف ان محکوم بالخصوص مسلم اقوام کا ذکر تک کرنا گوارا نہیں کرتے جنہیں معاشی طور پر مفلوج کر دیا جاتا ہے ۔ جن کی زندگیوں کی قیمت تک وصول کر لی گئی ہوتی ہے ۔

ہم سب بھی بطور مسلمان یہ بھول جاتے ہیں کہ اسلام میں غلامی کا کوئ تصور نہیں اور ہمارے نبی اکرم صلی اللہ و علیہ وآلہ وسلم نے حضرت بلال حبشی کو موذن رسول کا لقب دلوایا ۔ ہم اپنے گھروں میں خدمت گذاروں اور ملازمین کو جان بوجھ کر ڈانٹتے ہیں ، انھیں غلام سمجھ کر ان کی عزت نفس کی دھجیاں بکھیر دیتے ہیں اور خود کو تسلی دیتے رہتے ہیں کہ ہم نے کچھ غلط نہیں کیا ۔

اگر ہم سوچیں ناں تو ہم خود غلام ہیں ، ہماری سوچ محدود ہے ، ہم اپنی برابری کے لیول پر ان افراد کو لانا نہیں چاہتے ، ہم انسانیت کے درجے سے تو گرنا پسند کرتے ہیں لیکن اپنی غلامی کی نادیدہ زنجیریں توڑنا کبھی پسند نہیں کرتے اصل غلام تو ہم ہی ہیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے