انفارمیشن ٹیکنالوجی سے نابلد آزادکشمیر

رواں ماہ صحافیوں کے 15 رکنی وفد میں شامل ہوکر 3 دن تک پنجاب حکومت کی میزبانی نصیب ہوئی ۔لاہور میں جہاں مختلف منصوبے اور تاریخی مقامات دکھائے گئے وہیں ارفع کریم آئی ٹی ٹاور کا دورہ اور بریفنگ بھی دی گئی۔

دورے کی تفصیلات سے پہلے آگاہ کرتا چلوں کہ یہ آئی ٹی پارک جس طالبہ کے نام سے منسوب ہے وہ فیصل آباد سے تعلق رکھنے والی مرحومہ ارفع کریم رندھاوا تھی، جس نے سال 2006 ء میں صرف 9 برس کی عمر میں مائیکرو سافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل امتحان پاس کر کے عالمی ریکارڈ قائم کیا ،ارفع کریم کو 2012ء میں مرگی کا دورہ پڑا ، جس نے سانس کی ڈوری توڑ ڈالی تھی ۔

اس طالبہ کی صلاحیتوں کے اعتراف میں وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے اس اہم پارک کو ارفع کریم کے نام سے منسوب کیا تھا۔ڈی جی پی آر پنجاب ٹیم کے ہمراہ آئی ٹی ٹاور کے دورے میں پنجاب آئی ٹی بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر عمر سیف اورانکی ٹیم نے اس شعبے میں پنجاب بھر میں ہونے والی پیش رفت کے حوالے سے آگاہ کیا۔

تعلیم ، صحت ، مال، پولیس و دیگر تمام سرکاری اداروں میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے عمل دخل کے اثرات اور مستقبل میں ہونے والے ممکنہ ثمرات سے آگاہ کیا۔ لاہور دورے کے بعد واپس مظفرآباد لوٹا تو سوچا کہ اس شعبے پر لکھنے سے پہلے کچھ ضروری مطالعے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اکیسویں صدی کی انسانی زندگی میں کمپیوٹر کو ایک لازمی حیثیت حاصل ہوچکی ہے . کمپیوٹر سائنس ایک ایسا بنیادی سائنسی مضمون ہے ،جس کے دائرہ کار میں میڈیسن انجینئرنگ ، علم حیاتیات ،ابلاغ، تجارت اور آرٹس یعنی زبانیں ، ادب ، تاریخ بھی آتے ہیں۔

پچھلے دوعشروں میں اس علم نے ابتدائی مرحلہ سے شروع ہو کر دنیا کی سب سے بڑی اور سب سے زیادہ ترقی یافتہ صنعت کی جگہ لے لی ہے۔کمپیوٹر سائنس کی بنیادیں پختہ طور پر انجینئرنگ اور ریاضی کے علموں میں مضبوطی سے پیوستہ ہیں اور ساتھ ہی اس کا تعلق لسانیات ، نفسیات اور دوسرے مضامین یا علوم سے ہے۔

کمپیوٹر سائنس کا اثر دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سے لیکر پسماندہ ترین علاقوں تک بغیر کسی تفریق کے پھیلا ہے۔ ہم چونکہ اپنی سستی اور نا اہلی کے باعث تیسری دنیا کے باسی تصور کیے جاتے ہیں اس لیے ہم تک کمپیوٹر سائنس کے ثمرات کچھ بعد میں پہنچائے گئے۔

پاکستان میں اب تھری جی اور فور جی کی آمد کے بعد اور خاص کر پنجاب میں آئی ٹی کے فروغ کی بدولت دنیا بھر میں آئی ٹی کمپنیوں کی سرمایہ کاری کے لیے یہ ملک ایک پرکشش مارکیٹ کے طور پر ابھرا ہے۔ اب شہریوں کو لاہور ، کراچی اور اسلام آباد میں اگر گاڑی کا تیل بدلوانا ہو، بیڑی تبدیل کروانی ہو یا گاڑی کی کوئی اور خرابی دور کروانا ہو تو مکینک کی دکانوں کے چکر لگانے کی ضرورت نہیں،موبائل ایپ کی ٹیکنالوجی کی بدولت اب یہ سروس شہریوں کے دروازے پر دستیاب ہو رہی ہے،یہ سروس لاہور یونیورسٹی آف منیجمنٹ سائنسز کے سابق طلباء کی ایک کمپنی ’آٹو جینی‘ نامی کمپنی کی جانب سے شروع کی گئی ہے۔

اسی طرح گذشتہ برس ملک میں ٹیکنالوجی کی بنیاد پر کام کرنے والی 29 نئی کمپنیوں یا سٹارٹ اپس میں تین کروڑ پچاس لاکھ ڈالرز کی غیر ملکی سرمایہ کاری ہوئی ان میں سے 24 کمپنیاں لاہور کی ہیں۔پاکستان میں نوکریوں کے حصول کا سب سے بڑا ویب پورٹل روزی ڈاٹ پی کے گاڑیوں کی خرید و فروخت کی سب سے بڑی ویب سائٹ پاک ویلز اور جائیداد کی آن لائن خرید و فروخت کا سب سے بڑا ویب پورٹل زمین ڈاٹ کام بھی لاہور سے ہی چلائے جارہے ہیں۔

صوبہ پنجاب میں آٹی ٹی کے شعبے میں ہونے والی اس تیز ترقی کی وجہ وہاں موجود پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کے ’پلان ایکس‘ اور لاہور یونیورسٹی آف منیجمنٹ سائنسز کے’سینٹر آف انٹرپرنئیرشپ‘ جیسے ’ٹیک انکوبیٹر‘ یا ٹیکنالوجی کو فروغ دینے کے ادارے ہیں۔ان ’انکوبیٹرز‘ میں ٹیکنالوجی سے متعلق کاروباری آئیڈیاز رکھنے والے ملک بھر سے آنے والے نوجوانوں کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے بلکہ انھیں تکنیکی اور مالی مدد بھی فراہم کی جا رہی ہے۔

یہی نہیں پنجاب آئی ٹی بورڈ نے اپنے سٹاف ڈویلپمنٹ ڈائریکٹوریٹ میں ای۔ لرن پنجاب پروگرام شروع کر رکھا ہے جس کا بڑا مقصد سرکاری سکولوں کے نصاب کو ڈیجیٹائز کر کے طلبہ اور اساتذہ کو جدید ذرائع تعلیم وتدریس سے آراستہ کرنا ہے۔دوسری جانب پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کے مختلف منصوبے ناخواندگی، بیماری، بد عنوانی، رشوت ستانی، پست صنعتی و معاشی نمو اور گورننس کے مسائل حل کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

ہمارے ہاں آزادکشمیر میں ایسی جدید سہولیات سے فائدہ اٹھانے اور عوام کو بروقت اور با آسانی بنیادی سہولتیں دینے کیلئے مختلف ادوار کی حکومتیں اور ادارے ہچکچاہٹ کا شکار ہے ہیں،ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ علاقے میں معیاری تعلیمی درسگاہیں موجود نہیں نہ ہی طلبہ کی تعلیم و تربیت کے ساتھ روزگار کے مناسب مواقع موجود۔4 ہزار مربعہ میل والے آزادکشمیر کی کل آبادی 45لاکھ ، جن میں 10 لاکھ بیرون ممالک میں ، 2 لاکھ سے زائد افراد پاکستان کے مختلف مقامات پر ملازمت میں ہیں ،

آزادکشمیر میں سرکاری ملازمین بھی سوا لاکھ کے قریب ہیں۔دفاع، خارجہ امور، بڑے ترقیاتی منصوبوں سمیت فنانس کے تمام معاملات وفاقی حکومت کے کنٹرول میں ہیں۔مختلف ادوار کی مقامی حکومتیں تین درجن سے زائد محکمے قائم کر کے ان میں افسران و ملازمین تو سیاسی بنیادوں پر بھرتی کرتی آئیں لیکن مختلف شعبہ جات کے پروفیشنلز کی خدمات نہیں لی گئیں جس وجہ سے سنجیدہ طبقے کا حکومتوں اور ان سرکاری اداروں پر بھروسہ ختم ہو چکا ہے۔

آپ آزادکشمیر کے کان اداروں کی ویب سائیٹس ہی دیکھ لیں تو اندازہ ہو جائے گا کہ حکمران طبقہ اور پالیسی ساز حلقے عوام کو بنیادی معلومات تک رسائی دینے کے لیے کس حد تک سنجیدہ ہیں۔محکمہ تعلیم، محکمہ مال،محکمہ پولیس اور صحت کو بائیو میٹرک نظام سے منسلک کرنے کی طرف حکومت کی دلچسپی نہیں۔ایسے میںآئیندہ یہاں قائم ہونے والے حکومت کو چاہیے ہو گا کہ وہ قومی و بین الاقوامی اداروں کی استعداد کار اور مقامی مارکیٹ کو مد نظر رکھتے ہوئے سائنس و ٹیکنالوجی کے حوالے پالیسی مرتب کرے اور اس پر عمل پیرا ہو۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے