دو انتہاؤں کے درمیان کھڑا پاکستانی معاشرہ

ہمیں یہ حقیقت مان لینی چاہیے کہ کسی بات ، نظرئیے یا فکری زاویے کی بنیاد پر اپنے کسی مخالف فریق کو تضحیک یا مذاق کا نشانہ بنانے سے نہ تو ہم کسی کو اپنی بات یا نظرئیے کے حق میں قائل کر سکتے ہیں ، نہ کسی کی رہنمائی کر سکتے ہیں اور نہ ہی معاشرے کے اندر موجود نفرت اور دوریوں کے خاتمے میں اپنے حصے کا کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ہمیں یہ حقیقت بھی مان لینی چاہیے کہ ہم نے دائیں اور بائیں کے چکر میں معاشرے کو مزید تقسیم کر کے رکھ دیا ہے اور ہمارے اکثر دلائل اور مخالفانہ رویے مزید دوریوں کا سبب بنے ہوئے ہیں۔

روایتی مذہبی شدت پسندی کے تناظر یا رد عمل میں ہمارے روشن خیال طبقے کا پسندیدہ موضوع قدامت پرستی یا تنگ نظری ہے۔ اس معاملے میں ان کے پاس دلائل کے انبار پڑے نظر آتے ہیں تاہم المیہ یہ ہے کہ ان کے دلائل معاشرے کی اکثریت پر اثر نہیں کرتے اور ان کی کوششوں کے باوجود معاشرہ مزید تنگ نظری کی دلدل میں پھنستا جا رہا ہے۔ ہمارے روشن خیال طبقے کو عالمی ایشوز اور ماضی کے ’’دریچوں‘‘ سے نت نئے واقعات اور کردار نکال نکال کر کئی کئی گھنٹوں اور دنوں تک بلا ناغہ بحث کرنے کی بجائے اس امر کا بھی جائزہ لینا چاہیے کہ ان کی بات اور دلیل سنی کیوں نہیں جا رہی اور ان کو معاشرے میں سنجیدگی سے کیوں نہیں لیا جا رہا۔

عقل کا تقاضا تو یہ ہے کہ دوسروں پر مسلسل تنقید کی بجائے ہم پہلے اپنی اصلاح کریں۔ ہم پہلے اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کا سلیقہ سیکھ جائیں ا ور اس بات کا بھی جائزہ لیں کہ جس معاشرے ، ریاست یا طرز سیاست میں ہم کوئی بڑی تبدیلی لانے کی خواہش رکھ رہے ہیں ان کا معاشرتی ، تاریخی اور ثقافتی ڈھانچہ کن ستونوں پر کھڑا ہے اور ہمیں کن سماجی رکاوٹوں اور مشکلات کا سامنا ہے۔ جب تک ہم اپنی معاشرت کا مطالعہ اور مشاہدہ نہیں کرتے ہم دوسروں کی رائے یا نظریات پر اثر انداز ہونے کی اپنی کوششوں میں کامیاب نہیں ہوں گے۔

تاریخی مطالعہ بتاتا ہے کہ ہر وہ فکرنظریہ کوشش کبھی کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکی جس کی جڑیں اس دور کے حالات اورعوام کے سماجی رویوں سے ہم آہنگ نہ ہو اور وہ عوام الناس کو موثر انداز میں اپیل کرنے کی صلاحیت سے بوجوہ محروم ہو۔ دوسروں کے افکار اور نظریات سے متاثر ہونا اور ان کو اپنے معاشرے میں عام کرنا کوئی بری بات نہیں ہے۔ تاہم ایسا کرنے سے قبل لازمی ہے کہ اپنے حالات جغرافیے ، تاریخ اور معاشرتی پس منظر کو بھی سامنے رکھا جائے اور زمینی حقائق کے تناظر میں اس بات کا بھی جائزہ لیا جائے کہ جس نظرئیے کی ہم تشہیر یا ترویج کرنا چاہ رہے ہیں اس کو عوام میں مقبولیت ملتی بھی ہے یا نہیں۔

نظریات کا پرچار کرنے والے اور دوسروں کی سوچ پر انداز ہونے والوں کیلئے ضروری ہے کہ عوام میں ان کی ساکھ بہتر ہو ۔ ان کے قول و فعل میں تضاد نہ ہو اور معاشرے کی ایک بڑی تعداد ان کی بات سننے اور سمجھنے کیلئے تیار بھی ہو۔ ہم میں سے جتنے لوگ معاشرے کی اصلاح کے نام پر ایسی کوششوں کا حصہ بنے ہوتے ہیں ان میں سے ان شرائط پر پورے اُترنے والوں کی تعداد کتنی ہے ہمیں اس سوال کا جواب بھی تلاش کرنا ہوگا۔

چند مخصوص اور غیر مروجہ تعلیم یافتہ لوگوں اور گروہوں کی بات یا سوچ ان سمیت معاشرے کے چند فیصدی لوگوں تک محدود کیوں ہے اس پر سوچنا خود ان کی ذمہ داری بنتی ہے۔ بات اثرات اور نتائج کی ہے اور یہ دونوں چیزیں ہمیں برسرزمین نظر نہیں آ رہی ہیں۔ فورسٹار ہوٹلز ، گیسٹ ہاؤسز ، سوشل میڈیا یا پاپولر میڈیا جیسے مقامات اور ذرائع پر انحصار کرنے والوں کی تعداد محرکین کی کوششوں ، سرگرمیوں اور بے پناہ مالی وسائل کے باوجود معاشرے کی اکثریت تو ایک طرف اقلیت میں بھی بڑھتی دکھائی نہیں دے رہی ۔ بظاہر اس کے دو تین بڑے اسباب ہو سکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ یا تو ایسے لوگوں کی بات اور دلیل میں وزن نہیں ہے یا یہ کہ ان کواپنی بات سمجھانے یا منوانے کا سلیقہ معلوم نہیں ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ان کی لاتعداد سرگرمیوں اور مسلسل کوششوں کے کچھ نہ کچھ نتائج نکل ہی آتے اور معاشرہ مزید دوریوں کے بعد نفرت اور تصادم کی صورتحال سے دوچار نہیں ہوتا۔

نائن الیون کے بعد مغربی دُنیا نے روشن خیالی برداشت اور جمہوریت کے فروغ اور ترویج کیلئے پاکستان کے اندر ہزاروں کی تعداد میں غیر سرکاری اداروں کی اتنی مالی سرپرستی کی کہ ملک میں ان کا سیلاب اُمڈ آیا۔ سینکڑوں لوگ ماہرین تو ہزاروں دانشور ، سوشل ورکرز اور سوسائٹی لیڈر بن کر گلی کوچوں میں نکل آئے۔ سینکڑوں کو مختلف ایونٹس کی آڑ میں بیرونی دوروں کے مواقع ملے تو لاتعداد کروڑ پتی بن گئے تاہم اُنہوں نے معاشرے ، اہل سیاست اور طرز ریاست کو کیا دیا اس کے بارے میں دوسروں کے علاوہ ان معززین کو شاید خود بھی معلوم نہیں ہے۔

عالمی اداروں نے لاتعداد ایسے لوگوں (خصوصاً خواتین) کو ایوارڈز اور دیگر اعزازات دئیے جن کے نام اور کام سے ان کی اپنی گلی اور شہر کے لوگوں کو بھی علم نہیں ہوتا۔ اب تو یہ ٹرینڈ ایک باقاعدہ فیشن بن چکا ہے کہ ہماری نئی نسل تعلیم کے حصول کی بجائے سکالر شپ ، غیر ملکی ٹورز اور عالمی ایوارڈز کے مواقع کی تلاش میں سرگرداں ہو گئی ہے اور اس مقصد کیلئے وہ معاشرتی اور ثقافتی حدود ، قیود کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔ انگریزی دان طبقے اور اساتذہ نے ایسی سرگرمیوں کو اپنی توجہ کا محور بنایا ہوا ہے اور امن ، شعور ، آگاہی کے نام پر جاری سرگرمیوں نے ایک باقاعدہ کاروبار کی شکل اختیار کی ہوئی ہے۔

ان رویوں نے روشن خیالی ، فروغ جمہوریت اور اعتدال پسندی کے ان دعوؤں اور کوششوں کو نہ صرف مشکوک بنایا دیا ہے بلکہ یہ لوگ معاشرے کے بناؤ کی بجائے بگاڑ کا سبب بھی بنتے جا رہے ہیں۔ اس طرز عمل نے تنگ نظری ، شدت پسندی اور منفی رجحانات کی شدت میں مزید اضافے کے خدشات کو جنم دے رکھا ہے۔ اپنی بات یا نظرئیے کو کلی طور پر درست کہنا اور اُنہیں دوسروں پر زبردستی مسلط کرنے کا رویہ بذات خود انتہا پسندی کی ایک شکل ہے۔

زیر بحث حلقوں میں سے اکثریت ان لوگوں کی ہے جنہوں نے بعض اداروں یا لوگوں کی مخالفت کے نام پر مذہب اور ملک کو مسلسل اپنا ٹارگٹ بنایا ہوا ہے اور وہ اس مہم جوئی میں دوسروں کے جذبات کا اخلاقی طور پر احترام بھی نہیں کرتے۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ اگر ایک طرف مقبول عام مذہبی شدت پسندی اور اس کے منفی اثرات کی زد میں ہے تو دوسری طرف ہم لبرل ازم ، نیشنل ازم اور ڈیمو کریسی ، ہیو من رائٹس اور ایسے دیگر نعروں اور نظریات کے دفاع اور تشہیر کے نام پر اپنے یکطرفہ رویوں کے باعث دوسری انتہا کو پہنچنے کے رویوں پر بھی گامزن ہیں۔ اس طرز عمل نے عملاً معاشرے کو دو انتہاؤں پر کھڑا کر دیا ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام فریقین اپنی کوششوں اور اہداف کے تعین کیساتھ ساتھ حقیت پسندی کا مظاہرہ کر کے اپنے رویوں پر نظر ثانی کریں اور تمام ایشوز کا سماجی اور سائنسی جائزہ لیکر اپنی غیر مقبولیت کو عوامی قبولیت میں تبدیل کرنے کے راستے ڈھونڈیں تاکہ ان کوششوں سے فائدہ اُٹھایا جائے۔

ترقی یافتہ معاشرے اور ان کے سماجی ، سیاسی رہنما کافی عرصہ سے ریشنل ایزم (Rationalism) کے نظریات اور ایجنڈے کو آگے لیکر بڑھ رہے ہیں تاہم اس طرز فکر یا فارمولے کی جتنی ضرورت ہمیں ہے وہ شاید ہی کسی اور کو ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے