تھرپارکر ترقی کی راہ پر

اپنے صحافتی دور میں ہر سال تھر میں پیا س اور بھوک سے سینکڑوں ہلاکتوں کی خبریں اورتصاویر خبروں اور کالموں کی زینت بنتے اس آس پر دیکھتا رہا کہ زندگی اورموت کے اس بھیانک کھیل کامشاہدہ اپنی جاگتی آنکھوں سے کرونگااور یہ جاننے کی بھی کوشش کروں گاکہ اتنی خشک سالی اورقحط کے باوجود تھرکے عوام وہ جگہ چھوڑنے کو آخرراضی کیوں نہیں ہوتے اورایسی کیاچیز ہے وہاں جوانہیں روکے رکھتی ہے۔

اسی تلاش میں پاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ کے توسط سے تین روزہ دورے پر تھر جانے کا موقع میسر آیا۔یہ کراچی سے تقریبا 625کلومیٹردور سندھ کے جنوب مشرق میں21ہزارمربع کلومیٹرپر محیط دنیا کا تیسرا بڑا صحر ہے ۔ تاریخ کے مطالعے سے معلوم چلتاہے کہ تھر ہزاروں سال پہلے سمندرکاحصہ تھا ،تغیرات کے نتیجے میں آہستہ آہستہ پیچھے ہٹتے سمندر پانی کی کمی اور بارش نہ ہونے کے سبب ریگستان کا روپ دھارتا ایک عظیم صحرا کی شکل اختیار کر گیااور یہاں کسی سمندر کے وجود کی بات ایک خواب سا دکھائی دیتا ہے ۔

قدیم زمانے میں کم وبیش 800سال قبل مٹھی ایک بہت بڑا گاؤں تھا جو آہستہ آہستہ قابل ذکر تجارتی مرکز کی شکل اختیار کرگیا اس شہر کا نام ایک نیک خاتون جس کا نام” مٹھاں "تھا اس عورت نے اپنی مدد آپکے تحت ایک کنواں کھدوایا اور اس کنویں کی وجہ سے لوگ اس کے آس پاس آکرآباد ہوناشروع ہوگئے اور پھر یہ جگہ” مٹھا ں کے گاؤں” کے نام سے مشہورہوگئی اور بعد میںیہ مٹھی بن گیا اور اب مٹھی تھر کا صدر مقا م ہے یہ واقعتا ایک شہرہے یہاں سہولت کی ہر شے میسر ہے پختہ سڑکیں،پکی اورصاف گلیاں ، نئی عمارتیں ان میں سے زیادہ بطور گیسٹ ہاؤس استعمال ہو رہی ہے.

سالوں پراناقدیم مرلی دھرمندر جو 2015 میں مرمت کے بعد آج کے جدید مندر کی شکل اختیار کرگیا ہے اور سب سے بڑھ کر” گڑھی بھٹ”جو کہ ایک تفریحی مقام کی حیثیت رکھتا ہے یہاں پرپارک جیساماحول بناہوا ہے بینچزلگی ہوئی ہیں اور گیسٹ ہاؤ س بھی ہے ، ہم تین دن میں دو مرتبہ” گڑھی بھٹ”گئے . پہلی باررات میں جس دن ہم تھرپہنچے تھے جہاں سے رات میں پورے مٹھی شہرکانظارہ دیدنی ہوتا ہے اوراسلام آباد کی یاد دلاتاہے جیسے پیرسوہاوا سے آپ پورے اسلام آباد کانظارہ کرسکتے ہیں بالکل اسی طرح مٹھی کے اس مقام سے کر سکتے ہیں جوارباب غلام رحیم نے تعمیرکروایاتھا ، جو کہ تھرواسیوں کے لئے پہلی تفریح گاہ تھا اوردوسری بارآخری دن شام میں جس وقت مٹھی میں بارش ہو رہی تھی تو اس ٹیلے پرسے مٹھی شہر اجلااجلا،نکھرا اور سرسبز و شاداب لگ رہا تھا وہ منظرکسی بھی طرح اس تھرکانہیں لگ رہاتھا ، جس کے بارے میں ہم گزشتہ دہائی سے پڑھتے اور سنتے آئے تھے۔ مٹھی ہنرمندوں،دستکاروں اور فنکاروں کا شہر ہے یہاں قالین سازی کاکام عروج پر ہے جبکہ سوتی نواڑ جو چارپائیاں بننے میں کام آتی ہے بہت مشہور ہے ۔

ہمارامٹھی کے بازاربھی جانا ہوا وہاں کے دوکانداروں کاکہناتھاکہ ہماراکاروباربیرون شہرسے آنے والے لوگوں سے ہوتاہے یہاں کے چنری کے سوٹ خاصے مشہور ہیں جس کی رنگائی حیدراآبادسے کرائی جاتی ہے جو 400سے لیکر 2400تک میں دستیاب ہوتے ہیں جبکہ ہاتھوں کی کڑھائی والے دیدہ زیب گلے ، بیڈشیٹیں ،رلیاں اور پرس وغیرہ مناسب دام پرملتے ہیں ہم سب ہی صحافی دوستوں نے اپنے گھر والوں کیلئے دل کھول کر خریداری کی مگرہم نے اندازہ لگایا کہ مقامی اور باہرسے آنے والوں کیلئے دام مختلف ہے ۔

ہمارے اس سفرمیں مٹھی پریس کلب کی خوبصورت بلڈنگ عمارتوں میں ایک نیااضافہ ہے مٹھی سول ہسپتال کی حا لت بھی پہلے سے بہت بہتر ہو گئی ہے ہمارا رات کے پہر سینئرصحافی حمیرااطہرصاحبہ اور منصورمانی کے ساتھ وہاں جانا ہوا تو ہماری ملاقات ایمرجنسی میں موجود ڈاکٹرسے ہوئی ان سے معلوم چلاکہ 63ڈاکٹرز یہاں کام کر رہے ہیں اور پچھلے گیارہ دنوں میں 2300مریضوں نے ہسپتال کارخ کیاجس میں زیادہ تر حاملہ عورتیں اور پیٹ کے درد میں مبتلا لوگ تھے پھر ہم سب کو بچوں کاانتہائی نگہداشت کاوارڈدیکھنے کی جلدی تھی. ہم نے ڈاکٹرسے عرض کی کہ ہمیں وہاں جانا ہے وہاں16اینکوبیٹرزمیں 12 میں بچے تھے اورچار خراب تھے ان کو اس وقت ایک ڈاکٹرکے ہمراہ تین اسسٹنٹ دیکھ بھال کررہے تھے ۔

چندسالوں میں تھرنے ترقی کی کئی اہم منازل طے کی ہیں بدین سے باہرنکلتے ہی نئی پختہ سڑک جو کسی بھی طرح بڑے شہروں کی شاہراہ سے کم نہ تھی اور ہم سب کیلئے یہ ماننا محال تھا کہ ہم قحط زدہ رتھر کی طرف گامزن ہے بلکہ تیزی سے گزرتے ٹیلے اور چٹیل میدان کسی فلم کے منظر کی عکاسی کررہے تھے ۔ یہ شاہراہ مٹھی تک اور پھروہاں سے ننگرپارکرتک تھریوں کی آمدورفت کوآسان کردیاہے چاہے وہ یہاںآنے والے غیر ملکیوں کے سبب ہی ہوا ہو۔تھر میں عا م علاقوں کی نسبت سڑکوں کی تعمیر پر25سے 30فیصد زیادہ لاگت آتی ہے. پانی کیلئے نو کوٹ سے مٹھی تک پانی کی پائپ لائن بچھائی گئی تھی ، جس سے نہ صرف ان شہروں بلکہ راستے میں آنے والے تمام گوٹھوں میں مقیم لوگوں اور ان کے مال مویشیوں کوبھی پینے کے پانی کی سہولت دستیاب ہو گئی ہے جبکہ 450واٹرپلانٹ کے ساتھ ساتھ ایشیا کے سب سے بڑے آر او پلانٹ کی مصری شاہ میں تنصیب کے بعد اب مٹھی شہرکوجدید شہروں میں گنا جاسکتاہے ۔ یہ پلانٹ 20لاکھ گیلن پانی صاف کر نے کی صلاحیت رکھتا ہے جبکہ اب تک اس سے صرف 12لاکھ گیلن پانی صاف کرایا گیاہے اس کی وجہ پانی اسٹور کرنے کی مناسب جگہ کا نہ ہونا ہے . صرف 4بڑے ٹینک ہیں جن میں پانی اسٹور کیاجاتا ہے اورپھر48گاؤں کو پانی فراہم کیا جاتا ہے ۔

ماروی کے نام سے منسوب کنویں کو اب ماروی کلچرل کمپلیکس میں تبدیل کر دیا گیا ہے جو ایک بہترین اضافہ ہے (جس کے بارے میں تفصیل سے اگلی تحریر میں ملاحظہ کیجئے گا) تھر کی مرکزی شاہراہوں کوچھوڑ کر پورے تھر کا سفر خشکی کے راستوں کا ہے جو زیادہ تر اونٹ پریا پیدل طے کیا جاتاہے اہم شہروں سے دور دراز علاقوں میں پوٹھوہاری جیپ جس میں سفر کرنے کا اتفاق ہمیں بھی ہوا . جب ہم ڈیپلوروڈ سے نمک جھیل کیطرف جارہے تھے تو ہم نے ایک اشوک نامی ہندومہاراج کی پوٹھوہاری جیپ میں سفر کیا، جو اس نے آلٹر کروائی ہوئی تھی . اسی طرح کیکڑا (تھر کی منفرد سواری) تھرکی رتیلے راستوں پرعام گاڑی نہیں چل سکتی ، اس لئے پرانے فورویل ڈرائیوفوجی ٹرکوں کوضروت کے مطابق آلٹرکر کے استعمال کیا جاتا ہے . تھر کے ہنرمندڈرائیور ان فوجی ٹرکوں میں چوبی تختے جوڑ کر اور اس کی باڈی بنا کر اس کا حلیہ ہی بدل دیتے ہیں اور پھریہ تھرمیں” کیکڑاکوچ” کے نام سے جاناجاتاہے . یہ واحدسواری ہے جو انسانوں کے ساتھ ساتھ بڑے مال مویشی کو بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے میں کام آتی ہے ۔

صحرائے تھر کے دور افتادہ علاقوں میں آج بھی اس ترقی یافتہ دور میں جہاں دنیا گلوبل ویلج بن گئی ہے وہاں لوگ غاروں اور پتھروں کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں سڑک کے ساتھ واقع شہروں اور قصبوں میں کسی حد تک بجلی، پانی ،تعلیم اور صحت کی سہولیات تھر واسیوں کومل رہی ہے . لوگ وہاں ٹیلی ویژن کیبلزاور انٹرنیٹ سے خوب لطف اندوزہو رہے ہیں مگراندرون تھریہ سب ایک خواب ہے اوران کی پہنچ سے دور ہے اور سیل فون بھی شازو نادرہی کسی کے ہاتھ میں نظر آتاہے۔

تھرکی موسیقی کابھی جواب نہیں . جدید دورمیں بھی اس کی لوک موسیقی کی قدر وقیمت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہر تھوڑے فاصلے میں مٹھی شہرمیں جھونپڑہ ہوٹل اورموسیقی کے مراکزگہماگہمی کا بہت بڑا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔

(باقی کی روداد اگلے کالم میں)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے