آہ! لاہور کی یہ خون فشاں شام

دل غم سے چور ،آنکھیں بھر آئی ہیں۔طبیعت مضمحل ہو رہی ہے ۔چاہ رہا ہوں کہ کچھ لکھوں ،پھر سوچتا ہوں کہ کیا لکھوں،کہاں سے شروع کروں ۔لکھنے تو بیٹھ گیا ہوں مگر حیران ہوں کہ کسی گود اجڑ جانے کی کہانی کیسے لکھوں۔وہ باپ جو بڑے چاہ سے اپنے بیٹے کو تفریح کے لیے لایا تھا اب اسی بیٹے کی لاش پر گریہ کناں ہے اسکے جذبات کو ضبط تحریر میں کیسے لاؤں۔کیسے بتاوں کے اس ماں پر کیا بیت رہی ہو گئی جسے بیٹا یہ کہہ کر گیا ہو گا کہ ماں تم پریشان نہ ہونا میں جلدی آجاوں گا ۔آج وہی ماں جب اسکے لاشے پر یہ الفاظ دہرائے گی تو کیا ماتم بپا ہو گا۔

آج شام آسٹریلیا اور ہندوستان کا معرکہ دیکھنے میں مشغول تھا ۔معلوم ہی نہ تھا کہ میرے شہر میں کیا قیامت ٹوٹ پڑی ہے ۔ چینلز گھماتے گھماتے ایک دم ایک نیوز چینل پر رک گیا ۔ ایک خبر نے مجھے روک دیا گویامجھ پر بجلی آگری ہو۔کچھ ایسے الفاظ سننے کو ملے کہ لاہور میں دھماکہ ہوا ہے ۔ایک مرتبہ تو میں دم بخود رہ گیا اور منہ سے صرف اتنا نکلا کہ دھماکہ لاہور میں ۔۔۔۔۔ اور بس کچھ کہہ نہ سکا ۔سلسلہ آگے بڑھا معلوم ہو کہ آج لاہور کا ایک تفریحی مقام گلشن پارک کو نشانہ بنایا گیا ۔

یہ پارک میرے گھر سے زیادہ دور نہیں ،میں خود اکثر یہاں جا چکا ہوں ۔ایک نہایت پر سکون جگہ،جہاں شہر کی تیز رفتار زندگی کے ستائے ہوئے ،سکون کے چند لمحوں کی تلاش میں چلے آتے ہیں ۔اتوار کی شام یہاں خاصی گہماگہمی دیکھنے کو ملتی ہے ۔آج اتوار کے ساتھ ساتھ ہماری مسیحی برادری کا نہایت ہی اہم تہوار ایسٹر بھی منایا جا رہا ۔جس کے باعث آج رش کچھ معمول سے زیادہ تھا۔

مسیحی برادری کے لوگ اپنے ایسٹر کے جشن کو مکمل کرنے نکلے ہوں گے ۔ایک لمحے کو تصور کرتا ہوں تو وجود کانپ جاتا ہے کہ کس طرح خوشی خوشی یہ لوگ تفریح کی غرض سے گھروں سے نکلے ہوں گے ۔ بچوں کا جوش دیدنی ہو گا ۔اور ہر بچے کے ذہن میں اس پکنک کو لے کر بے شمار شرارتیں ہوں گی ۔ماؤوں نے نکلتے وقت بچوں کو خوب نصیحتیں کیں ہوں گی۔اتنے دنوں سے پارک جانے کی ضد کرنے والا جب آج اپنے باپ کی انگلی پکڑ کر چلا ہو گا تو کیسی مسکراہٹ اسکے معصوم چہرے کا طواف کر رہی ہو گی ۔ان سب کو کیا معلوم تھا کہ یہ سب اتنی خوشی سے اپنی مقتل کی جانب بڑھتے چلے جارہے ہیں ۔کسی کو کیا خبر تھی کہ موت اپنا بھیانک رقص کرتے ہوئے انکے پیچھے پیچھے آرہی ہے ۔

دن ڈھلا اور رات ہو نے لگی ۔اندھیرا پھیلتے ہی ،مصنوعی روشنیاں روشن ہوئیں ۔اور پھر کیا ہوا موت کا سوداگر ،انسانی شکل سے مشابہ ایک درندہ اس پارک کو آسان ہدف سمجھ کر داخل ہوا۔مگر ایک لمحے کو سوچتا ہوں تو حیران ہو جاتا ہوں ۔آخر دھماکہ کرنے سے پہلے اس جانور نے بھی تو ان معصوموں کے چہروں پر کھیلتی مسکراہٹ دیکھی ہو گی۔اس نے ماں سے لپٹے نونہال بھی دیکھیں ہو گے ۔اس نے زندگی کو اپنے عروج کو دیکھا ہو گا مگر کیا اس کے دل میں ایک بار بھی رحم نہ آیا ہو گا ۔

دھماکہ ہوگا ۔کیا قیامت کا منظر ہو گا ۔دھول، مٹی کے طوفان میں کسی یعقوب کا یوسف کھویا ہو گا۔اس غبار میں کسی ماں نے چیخ کر اپنے اسماعیل کو بلایا ہوگا۔اس حشر میں پھر کسی بہن نے تڑپ کر اپنی امید ،اپنے بھائی کو آواز دی ہو گی

مگر افسوس افسوس ھائے افسوس ! باپ کی آواز پر ہمک کر جواب دینے والا یعقوب آج چپ ہو گیا۔ جس چھاتی سے دودھ پی کر اسماعیل کا خون بنا تھا آج وہی خون اس چھاتی کو تر کر رہا ہوگا۔ آج بہن اپنے لاڈلے کو بلاتی ہوگی مگر اس کا خوں بھرا لاشہ اسے کیوں کر جواب دے ۔

ہائے افسوس ! مصنوعی روشنیوں کے سامنے ہی کتنی روشنیاں بجھ گئیں۔

ٹی وی چینلز کے مطابق69سے زائد لوگ اب تک جاں بحق ہو چکے ہیں ۔یہ سوچ کر دل دہل جاتا ہے کہ کل جب میرے شہر سے اتنے جنازے اٹھیں گے تو کیا عالم ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ابھی جب یہ تحر یر لکھ رہا ہوں تو یہ خبر چلی ہے کہ حملہ آور ضلع مظفر گڑھ کا رہنے والا تھا اور اس کا نام یوسف تھا تب سے یہی سوچ رہا ہوں کہ
یوسف نے آج کتنی ماووں کے یوسف مار دئیے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے